Episode 27 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 27 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

ہم کیا کرتے ہیں؟
ہم عجب لوگ ہیں۔ مواقع ضائع کر دیتے ہیں۔ پھر ان کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ جانے کے بعد کون واپس آتا ہے؟ موقع تو کبھی واپس نہیں آیا۔ جو گیا وہ واپس نہیں آیا اور جو واپس آیا وہ وہ نہیں تھا جو گیا تھا۔ وہ کچھ اور ہی تھا۔ دھاگہ ٹوٹ جائے تو اسے جوڑا جا سکتا ہے لیکن گرہ ضرور لگ جاتی ہے۔
ہم ہمیشہ حسرت میں رہتے ہیں کیونکہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں اور کبھی کبھی ہم خوابوں میں رہتے ہیں کیونکہ وقت سے آگے نکل جاتے ہیں۔
ہم وقت کے ساتھ کیوں نہیں چلتے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟
ہمیں یاد ہے کہ ہم سے کیا چھن گیا ہے۔ ہمارے پاس ایک نعمت تھی جو مانگے بغیر ملی تھی۔ بہشت۔ ہم نے قدر نہ کی اس نعمت کی اور نتیجہ یہ کہ آج سب سے بڑی آرزو یہی ہے۔ وہ جو کبھی حاصل تھا ،دوبارہ حاصل ہو جائے۔

(جاری ہے)

ہم مانگتے ہیں وہ ،جو ہمیں دیا چکا تھا۔ ہم کیا کرتے ہیں؟

بہشت شاید ایسی نعمت ہی کا نام ہے جس کو کھو دینے کے بعد اس کی تلاش شروع ہو جائے۔
ہم اپنی اپنی بہشت سے محروم ہو کر اپنی اپنی بہشت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کیا ہم کھوئی ہوئی نعمت کے متلاشی ہیں…؟ کیا ہم چھوڑی ہوئی منزل کے مسافر ہیں…؟ کیا ہم بھولے ہوئے زمانے کی یادوں میں گم ہیں…؟ کیا ہم اپنے ادھورے خوابوں کے پورا ہونے کے منتظر ہیں…؟ کیا ہم چھنی ہوئی متاع بے بہا کے غم میں مبتلا ہیں…؟ ہمیں کچھ بھی مل جائے ہم گلہ ضرور کرتے ہیں۔
ہم کیا کرتے ہیں…؟ 
شاید ہم اپنی انا کے بے جان گھوڑے پر سوار ہیں۔ ہم فاصلے طے کرتے رہتے ہیں لیکن سفر نہیں کٹتا۔ ہم زندگی کے طویل سفر کی صعوبتیں اٹھاتے رہے ہیں اور انجام کار ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے کل سفر ،گھر سے قبرستان تک ہی کیا ہے۔ ہم مر مر کے مرتے ہیں۔ ہم آسانی سے کیوں نہیں مرتے۔ کیا حقیقت تسلیم کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے۔
کیا یہ ہماری انا کی توہین ہے؟ غم کی آندھیاں درخت کو گرا دیتی ہیں لیکن درخت کا سایہ انا پر اڑا رہتا ہے۔ وہ گرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ اسے لاکھ سمجھاؤ کہ بھائی وہ درخت تو گر گیا جس کا تو سایہ ہے۔ وہ سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ وہ شرمندہ ہونے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتا۔ سلطنت چلی جائے ،بوئے سلطانی نہیں جاتی۔
ہم اپنی بات ،خواہ غلط ہی کیوں نہ ہو ،نہیں چھوڑ سکتے۔
ہم دوست کو چھوڑ دیتے ہیں ،بحث کو نہیں چھوڑتے۔ مباحثے جیتنے کی تمنا میں اپنے ساتھی ہار بیٹھتے ہیں۔ قافلہ ختم ہو جائے تو ہماری سرداری ختم نہیں ہوتی۔ ہم کچھ بھی تو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کی حقیقت تو کسی قیمت پر تسلیم کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے۔
ہمارا باپ خواہ دس مرتبہ مر جائے ہم خود کو یتیم ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ ہم مرغے کی طرح اکڑتے رہتے ہیں۔
ذبح ہونے سے پہلے بھی بانگ ضرور دیتے ہیں۔ ہم اپنے ہونے کا اعلان کرتے کرتے ان ہونی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ ہم ایک نامعلوم خوف میں مبتلا ہیں لیکن ہم دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے عمل سے باز نہیں آتے۔ جب ہم ڈرا رہے ہوتے ہیں ،ہم درحقیقت ڈر رہے ہوتے ہیں۔ ہم طاقت کے ذریعے سے لوگوں کو اپنا بناتے ہیں اور لوگ کبھی بھی ہمارے نہیں ہوتے۔ ہم صرف مفادات سے محبت کرتے ہیں۔
انسانوں سے محبت کرنا ہمیں نہیں آتا۔ ہم نے انسانوں سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم صرف ایک انسان سے محبت کر سکتے ہیں۔ اپنا آپ۔ ہم خود سے محبت کرتے ہیں۔ اپنی پرستش کرتے ہیں۔ ہم صرف اپنی شکل پر فریفتہ ہوتے ہیں۔ اپنے قصیدے سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں۔ ہم خوش فہمی کی غلط فہمیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم خود کو بس مامور من اللہ ہی سمجھتے ہیں اور لوگوں کو اپنی رعایا ہونے کے علاوہ کوئی مقام دینے کو تیار نہیں۔
ہم خود کو تاحیات شہنشاہ بنے رہنے کا حق دے چکے ہیں۔ ہم خود کو سید ،مغل ،غزنوی ،سوری ،غوری ،بلکہ مرہٹہ اور راجپوت نسل سے متعلق کرتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ”پدرم سلطان بود…“
ہم صرف انسان ہونے کو قابل عزت نہیں سمجھ سکتے۔ اعلیٰ کردار اور اعلیٰ احساس کی عدم موجودگی میں بھی اعلیٰ نسل سے وابستگی ہمارے لئے قابل عزت ہے۔ ہمیں قبیلے اور برادریوں پر ناز ہے۔
صرف شرف انسانیت ہمارے لئے بے معنی ہے۔ ہم دولت کو ضرور وقعت دیتے ہیں بشرطیکہ ہمارے پاس ہو۔ اگر یہی دولت دوسروں کے پاس ہو تو ہم کہتے ہیں یہ سب غریبوں کا حصہ ہے۔ مزدوروں کا حق ہے۔ یہ سب ناجائز کمائی ہے۔ یہ سب حرام کا مال ہے۔ رشوت خود ،ذلیل کمینے لوگ۔ عزت والے لوگ تو صرف ہم ہیں۔ کیا ہم صرف تجزیئے کرتے رہتے ہیں۔ ہم کیا کرتے ہیں؟
ہم صبح ہوتے ہی گلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
غیبت ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہم کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی کے خلاف ہی بولیں گے۔ غیبت کے بارے میں اللہ کریم کا ارشاد کہ ”غیبت کرنے والا ایسے ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔“ ہم نے سن رکھاہے۔ لیکن کیا کیا جائے ،غیبت ہماری عادت ہے۔ گلے ،شکوے ،الزام تراشی ،عیب جوئی وغیرہ کا فن اور علم ہم نے اخبارات سے حاصل کیا ہے۔ میدان سیاست کی عنایت ہے یہ علم۔
ہم موسم کا گلہ کرتے ہیں ،ہم خدا کا گلہ کرتے ہیں ،ہم وقت کی حکومت کا گلہ کرتے ہیں ،ہم اپنے اکابرین کا گلہ کرتے ہیں ،ہم افسروں کا گلہ کرتے ہیں ،افسر ماتحتوں کا گلہ کرتے ہیں ،بچے ماں باپ کا گلہ کرتے ہیں ،والدین اپنی اولاد کا گلہ کرتے ہیں۔ کون کس کا گلہ نہیں کرتا۔ اگر غیبت اور گلہ چھوڑ دیں تو شاید ہم تعمیری دور میں داخل ہو جائیں۔
غیبت کے بارے میں ایک دفعہ کسی نے حضور اکرمﷺ سے سوال کیا کہ ”یا رسول اللہﷺ غیبت کیا ہے؟“ آپﷺ نے فرمایا ”کسی انسان کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں وہ بات کرنا جو اس کے منہ پر نہیں کی جا سکتی۔“ سائل نے عرض کیا کہ اگر اس کے منہ پر کہہ دیا جائے تو؟ آپﷺ نے فرمایا ”تو یہ بے حیائی ہو گی…“
بہرحال ہم لوگ شکوے اور شکایتیں سننے اور سنانے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
ہم صرف باتیں کرتے ہیں ،کام نہیں کرتے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟
ہم زندگی بھر زندہ رہنے کے فارمولے سیکھتے رہتے ہیں اور جب زندگی اندر سے ختم ہو جاتی ہے ،ہم بے بس ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے موت کا فارمولا تو سیکھا ہی نہیں ہوتا۔ پس بغیر فارمولے کے مر جاتے ہیں۔ اسلام نے بامقصد زندگی کے ساتھ ساتھ بامقصد موت کا فارمولا بتایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں۔
صرف دیکھنے والوں کو شعور نہیں۔ ایسی موت کہ زندگی اور موت پیدا کرنے والے کا حکم ہے کہ یہ زندہ ہے۔ موت کا یہ فارمولا ہم بھول گئے۔ ہم مرتے نہیں ہیں۔ ہم صرف مارے جاتے ہیں۔ سسکتی اور کراہتی ہوئی موت… عذاب ہے۔ ہم نے تڑپنے ،پھڑکنے کی توفیق مانگنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم میں دل مرتضیٰ نہیں ،سوز صدیق نہیں۔ زندگی صرف زندہ رہنے کی تمنا میں گزرے گی تو موت ایک مصیبت بن کے آئے گی اور اگر زندگی مقصد کیلئے گزری تو موت قبولیت کی سند بن کے آئے گی۔
حیات جاوداں لائے گی۔ ہم غور ہی نہیں کرتے ،ہم کیا کرتے ہیں؟
ہم ہر وقت بھاگے چلے جاتے ہیں۔ افراتفری کا عالم ہے۔ دفتر کو جانا ،دفتر سے جانا۔ پچاس سال کی نوکری میں تیس سال تو مدت ملامت ہے اور باقی کے سال ہم نے طاقت کے بل پر حاصل کر رکھے ہوتے ہیں۔ ہم توسیع مدت ملازمت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ہاں تو پچاس سال کی نوکری میں ہم اتنا سفر کر جاتے کہ لوگ ابن بطوطہ اور مارکو پولو کے نام بھی بھول جائیں۔
لیکن ایک کولہو کے بیل اور کنویں کے مینڈک کی طرح ہم وہیں رہتے ہیں۔ ہم چلتے رہتے ہیں لیکن فاصلے طے نہیں ہوتے۔ ہم راستے میں حائل ہونے والی ایک دیوار کو گراتے ہیں۔ اگلے دن ایک نئی دیوار راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ بس چل سو چل ،کھیل جاری رہتا ہے۔ نہ ہم اپنے آشیانے چھوڑتے ہیں نہ ہم کو ذوق پرواز عطا ہوتا ہے۔ ہم غلامی سے ،پروگرام کی غلامی سے ،اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ ہمیں آزادی سے ڈر لگتا ہے۔
عمر تاریکیوں میں کاٹنے کے بعد ہمیں حقیقت کے اجالوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔
ہم بہرحال بھاگتے رہتے ہیں۔ ہم بہت مصروف رہتے ہیں۔ غالباً ہم کسی چمکدار شے کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ یہ روشن شے لوبھ کی پری ہے۔ ہم اس کے پیچھے دوڑتے ہیں اور پری کا محافظ خوف کا دیو ہمارے پیچھے ہوتا ہے۔ نہ ہم اس کو چھوڑتے ہیں اور نہ وہ ہمیں چھوڑتا ہے۔ ہمیں کون بتائے کہ لالچی ہمیشہ ڈرتا رہتا ہے۔
جس نے لالچ چھوڑ دیا وہ بس ”لاخوف“ اور ”لایحزنوں“ کی منزل میں داخل کر دیا گیا۔ ہم خود پر رحم نہیں کر سکتے… ہم کیا کرتے ہیں؟
کثرت مقاصد نے ہمارے لئے قلت سکون پیدا کر دی ہے۔ ہم بہت سی زندگیاں گزارتے ہیں ،اس لئے ہمیں بہت سی اموات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر وحدت مقصد مل جائے تو کثرت اموات سے بچا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زندگی سے کچھ حاصل کیا یا زندگی کو کچھ عطا کیا ،وہ لوگ وحدت مقصد والے لوگ تھے۔ نہ وہ خوفزدہ کئے جا سکتے تھے نہ خریدے جا سکتے تھے اور نتیجہ یہ کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں۔ بلکہ وہی تو زندہ ہیں۔ لوگ زندگی میں مر جاتے ہیں اور وہ لوگ موت میں بھی زندہ ہیں۔ کیا ہم غور نہیں کر سکتے… ہم کیا کرتے ہیں؟

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif