Episode 28 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 28 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

بے ترتیب
زندگی ،ترتیب بلکہ حسن ترتیب کا نام ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ ترتیب اپنے آپ سے باہر ہو جاتی ہے جس طرح کناروں کے اندر بہنے والا خاموش دریا کبھی نہ کبھی اپنے آپ سے باہر ہو جاتا ہے اور پھر تمام زندگی کو بے ترتیب کر دیتا ہے۔
بے ترتیب ہونا عناصر کے پریشان ہونے کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے ،ایک وارننگ ہوتی ہے کہ محفل احباب ہمیشہ ترتیب میں قائم نہیں رہتی ہے۔
حلقہ دشمناں بھی ترتیب سے باہر ہو جاتا ہے۔ انسان بیٹھے بیٹھے اپنی نگاہوں میں بدل سا جاتا ہے۔ کبھی جن باتوں پر افسوس ہوتا تھا ،اب ان پر افسوس نہیں ہوتا کہ انسان جان چکا ہوتا ہے کہ حسن ترتیب عارضی ہے۔ بندشیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ تسبیح کے دانے بکھر جاتے ہیں اور انسان سوچتا رہتا جاتا ہے کہ ضبط بے ضبط ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

احتیاط بے احتیاط ہو گئی۔ شیرازہٴ حالات اور شیرازہٴ خیالات منتشر ہو گئے۔

انسان چنتا ہے گرے ہوئے موتی اور خیال کی تسبیح مرتب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اب کہاں! بے ترتیبی انسان کو گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ روتے روتے ہنس پڑتا ہے اور ہنستے ہنستے رو پڑتا ہے۔ مانوس اور مرغوب مقامات اور افراد اور کیفیات سے گریزاں ہو جاتاہے۔
جب خیال کی بندش ٹوٹ جائے تو عمل کی ترتیب بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ کبھی باقاعدگی کو کامیابی سمجھا جاتا ہے اور کبھی بے قاعدگی کو پسند کیا جانے لگتا ہے۔
جب خیال بے ترتیب اور منتشر ہو جائے تو اظہار ،بیان اور تحریر میں ربط ختم ہو جاتا ہے۔ کسی بات کا کوئی سرا کسی سرے سے نہیں ملتا۔ بندشیں اور کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور جن اینٹوں سے خوبصورت مکان بنائے گئے وہ پھر ربط سے بے ربط ہو کر ملبے کا ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ واضح ،غیر واضح ہو جاتا ہے۔ اسی کیفیت میں ،میں نے چاہا کہ مضمون لکھا جائے لیکن پھر میں نے ہی چاہا کہ مضمون نہ لکھا جائے۔
بس بے ترتیب باتیں کی جائیں۔
غور کر رہا تھا کہ ہماری عبادتیں ،ہماری ریاضتیں اور ہماری دعائیں اتنی بااثر نہیں ہوتی جتنی ہم سے پہلے لوگوں کی ہوتی تھیں۔ گزشتہ زمانوں کے لوگوں کے حالات اتنے خوشگوار نہیں تھے جتنے آج کل ہیں۔ آج کا ایک معمولی سا کارخانہ دار ایک چھوٹا سا سرمایہ دار بھی اپنے پاس اتنی دولت رکھتا ہے کہ شاید کسی مغل بادشاہ کے تصور میں بھی نہ ہو۔
ان لوگوں کی زندگی خوشگوار تھی۔ لیکن ان کے پاس ایئر کنڈیشنرز نہیں تھے ،ٹیلی فون نہیں تھے ،ان کے پاس سفر کیلئے گاڑیاں ،جہاز اور ہیلی کاپٹر نہیں تھے۔ ان کی سڑکیں بس نام کی سڑکیں تھیں۔ وہ سفر کیا کرتے تھے ،گھوڑا گاڑی میں اور ہاتھی کی پشت پر۔ وہ لوگ گھوڑے دوڑاتے تھے اور خوش رہتے تھے۔ آج ایک عام آدمی اتنی آسائش میں رہتا ہے ،اتنے آرام میں رہتا ہے ،اس کو ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں ،لیکن دل بجھا ہوا ہے۔
شاید زندگی کی بے ترتیبی میں گھر چکا ہے۔ کثرت مقاصد نے آج کے انسان کو جکڑ کے رکھ دیا ہے۔
ہر چیز نقلی اور سطحی ہوتی جا رہی ہے۔ کسی زمانے میں کہیں سے درد کی فریاد اٹھتی تو سارے زمانے میں احساس کی لہر دوڑتی۔ آج لوگ گھر سے بے گھر ہو گئے ،پانی کی نذر ہو گئے لیکن عیاشیوں کی رفتار میں فرق نہ آیا۔ شاید ہم ترتیب کی سب حدیں روندنا چاہ رہے ہیں۔
کل تک بیٹیوں کی رخصتی ایک درد کا سماں تھا۔ ماں ،بیٹی جب ملتیں تو کہتے ہیں کہ آسمان کے کنگرے ہل جاتے۔ لیکن آج کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دلہن رخصتی کے وقت رو نہیں سکتی، اسے پتہ ہے کہ رونے سے اس کا سینکڑوں روپے کا میک اپ خراب ہو جائے گا۔ ایک نقلی چہرہ اصلی غم پر چڑھا دیا جاتا ہے اور کیفیت کی ترتیب بے ترتیب کرکے رکھ دی جاتی ہے… موجودہ دور شاید کیفیات شکن ہے۔
خلوص ،وفا اور استقامت ،یارانے ،دشمنیاں سب بے ترتیب ہو گئی ہیں۔ مسجدیں بڑھتی جا رہی ہیں اورنمازی گھٹتے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کے گنبد اور مینار بھی اپنے قدیم اور پرخلوص انداز سے ہٹتے جا رہے ہیں۔
لاؤڈ سپیکر کا شور ہے۔ تبلیغ کا زور ہے۔ مسلمان ،مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ جس کی طبیعت چاہے ،اٹھ کر کھڑا ہو جائے اور رٹی رٹائی ایک تقریر دے مارے ،بے بسی ہے۔
وقت قیام بھی سجدے میں گزارا جاتا ہے۔ زندگی کسی رخ پر جا رہی ہے اور تبلیغ کسی اور رخ پر۔ ہم لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کی زندگی سادہ تھی۔ آپﷺ نے کھجور کی چٹائی کا بستر بنایا ہوا تھا۔ آپﷺ کے لباس مبارک میں پیوند تھے۔ آپﷺ سب سے زیادہ معزز انسان بنائے گئے اور آپﷺ کے ماننے والے آپﷺ کی راہ پر چلنے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں جبکہ ہماری زندگی اس زندگی سے یکسر مختلف ہے۔
حضور اکرمﷺ نے شادی کی تقریبات کو سادہ ترین رکھنے کا حکم فرمایا۔ حضورﷺ کے ماننے والے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں ،لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ لڑکی والے برات کے استقبال ور طعام پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ یہی نہیں برات سے پہلے رسم حنا بندی ادا کی جاتی ہے۔ راتوں کو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے والے مہندی کی رسم ادا کرنے کیلئے سرعام گانا بجانا کرتے ہیں۔
ویڈیو فلمیں بنائی جاتی ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا سرعام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں شادیوں کی دعوت ہوتی ہے اور برات میں کسی بڑے سیاسی جلسے کا رنگ نظر آتا ہے۔ کیا بنے گا؟ امیر پیسے کی نمائش کرکے غریب کو مزید غریب کر دیتا ہے اور غریب کی بیٹیاں ،ہمیشہ بیٹیاں ہی بنی رہتی ہیں۔ انہیں دلہن بننے کا موقع اس لئے نہیں ملتا کہ ان کے پاس وسائل نہیں۔
یہ عجیب باتیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شعبہ اپنے اصل سے باہر ہو گیا۔ ہر ترتیب ٹوٹ گئی۔ کسی زمانے میں استاد کردار ساز ہوتے تھے۔ بچوں میں عظمت کردار پیدا کرتے تھے۔ روحانیت کا درس دیتے تھے۔ زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرتے تھے اور آج کچھ اور ہی ماحول پیدا ہو گیا۔ درس گاہیں کچھ اور قسم کے انسان پیدا کر رہی ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہر طرف اسلام پھیل جائے۔
لیکن ہم نے خود جو اسلامی معاشرہ بنایا ہے ،اس کی حالت بے ترتیب سی ہے۔ ہم بچوں کو انگریزی سکولوں میں داخل کراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلامی روحانی معاشرہ پیدا ہو۔ ہم کیا بو رہے ہیں اور کیا کاٹنا چاہتے ہیں۔
ہم عجب قوم ہیں۔ عبادت عربی میں کرتے ہیں ،دفتروں میں انگریزی لکھتے ہیں ،انگریزی بولتے ہیں۔ ہم عام طور پر گفتگو اردو میں کرتے ہیں ،گھروں میں اور بے تکلف ماحول میں مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔
ہم اقبال کے کلام کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی زندگی پر اعتراض کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ قائداعظم کو بابائے قوم مانا جاتا ہے اور ان کے دیئے ہوئے پاکستان کی وہ عزت نہیں کرتے ،جو اس کا حق ہے۔
ہم رحمدلی کا سبق دیتے رہتے ہیں ،اس کے فوائد اور محاسن بیان کرتے ہیں۔ لیکن کسی پر رحم نہیں کرتے۔ لوگ اتنے امیر ہیں کہ بس بے حساب۔
امیروں کا مال بڑھتا جا رہا ہے اور غریبوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ کیا ترتیب بنے گی؟ کیا رحمدلی ہو گی؟ کیا بھائی چارہ ہوگا؟ کنارے پر آ جائیں تو امدادی کیمپ آپ کے استقبال کیلئے موجود ہوں گے۔ لیکن ڈوبنے والے کے پاس تو کوئی امدادی نہ پہنچا۔ یہ وسائل کی بات نہیں ،یہ احساس اور جذبات کی بات ہے۔
ٹیلی ویژن پر کشتیاں دیکھنے والے کیا سیکھیں گے۔
ظلم دیکھنا اور ظلم کرنا پسندیدہ مشغلہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح شرم و حیا کے پردے چاک کئے جا رہے ہیں۔ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں نئے نئے الفاظ شامل کئے جا رہے ہیں۔ گینگ ریپ ایک عام روزمرہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
ہمارے اخبار ملک میں ہونے والے گناہ اور جرائم کو نمایاں سرخیاں دے کر عوام کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ سنسنی خیزیت کا پیدا کرنا ایک کاروباری ضرورت ہو گیا ہے۔
فلمیں ،ویڈیو فلمیں دن رات قوم کے کردار میں زہر گھول رہی ہیں۔ ہمارے بچے دیکھتے دیکھتے کچھ اور سے ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کل کو ساری ترتیب کو مکمل طور پر بے ترتیب کر دیا جائے۔ اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب ساری ترتیب ختم ہو جائے۔ شاید وہی وقت قیامت کا ہو۔ باپ بیٹا اور ماں بیٹی کے درمیان حجابات اٹھ چکے ہیں۔ کیسا ادب اور کیا لحاظ!!
اس سے پہلے کہ ہم سے سب کچھ چھن جائے ہمیں بہت کچھ چھوڑ دینا چاہئے اور پھر سے ترتیب نو پیدا کرنی چاہئے۔
انسان ،انسان کا دکھ محسوس کرے۔ بلکہ انسان ،انسان کو انسان تو سمجھے۔ یہ فنا کی بستی ہے۔ یہ وقت کا عبرت کدہ ہے۔ جہاں سے بڑے بڑے فراعنہ لغتی ہو کر نکلے۔ یہاں سے کوئی چیز اٹھائی نہیں جا سکتی۔ زمینیں انتقال کراتے کراتے بندے کا اپنا انتقال ہو جاتا ہے۔ ہم دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور آنے والی نسل مال کے انتظار میں ہماری رخصت کی دعا کرتی رہتی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو ہو رہا ہے ،وہ نہ ہو اور جو نہیں ہو رہا ہے وہ ہونا شروع ہو جائے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک وحدت میں پھر سے پرو دیئے جائیں۔ کیا تمام علماء اور تمام مشائخ اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ کیا اس قوم کو وہ وقت نہیں مل سکتا جس کے آنے کی دعائیں کی جا رہی تھیں؟ کیا وہ قربانیاں جو شہید ہونے والوں نے پیش کیں ،ان کو رائیگاں ہونے سے بچایا نہیں جا سکتا؟ یہاں اپنے دیس میں بہت سے لوگ خود کو پردیسی ماننے ہیں۔
کیوں…؟
کیا قوم حاکموں اور محکموں میں تقسیم ہو جائے گی؟ کیا اسے امیر غریب میں بٹ جانا چاہئے؟ کیا سکھی لوگ ،دکھیوں کا آسرا نہیں بن سکتے؟ کیا موجود بے ترتیبی پھر حسب ترتیب میں نہیں آ سکتی؟
یہ سوچنے کی بات نہیں ہے۔ یہ اس کے فضل کے انتظار کا وقت ہے۔ ہم ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے عمل سے دراصل ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ملک ماں ہے۔ اس کا ایک بیٹا مرے یا دوسرا مر جائے… برابر ہے۔ اپوزیشن بھی ایمان سے کام لے اور حکومت بھی خلوص کے ساتھ کام کرے۔ قوم اور ملک مزید کسی صدمے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ہم سارے ملک پر رحم کریں۔ اس کی خدمت کریں اور قوم کی تشکیل کریں اور پھر عناصر میں ظہور ترتیب پیدا ہو جائے گا۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif