Episode 30 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 30 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

رشتے
رشتے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ جو ہمیں پیدائش سے ہی وراثت میں ملے اور جو ہم نے خود بنائے۔ پیدائشی رشتے خون کے رشتے ہیں۔ ماں باپ ،بہن بھائی اعزہ و اقربا۔ یہ سب رشتے بنے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ رشتے نہ جوڑنے سے جڑتے ہیں اور نہ توڑنے سے ٹوٹتے ہیں۔ یہ دائمی رشتے ہیں۔ یہ ازلی وابستگیاں ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داریاں ہیں ،جنہیں ہم نے پورا کرنا ہوتا ہے۔
بزرگوں کی عزت ،چھوٹوں سے پیار ،ان رشتوں کا تقاضا ہے۔
وہ رشتے جو ہم خود بناتے ہیں ،ہمارے دوست ہیں ،ہمارے ہم جماعت ،ہم مذہب، ہم پیشہ ،ہم دم رفیق ،ہمارے محبوب ،ہمارے محب ،ہمارے سیاسی رفقاء ،ہمارے مخالفین ،ہمارے مداح ،ہمارے افسر ،ہمارے ماتحت بلکہ حریف و حلیف ،ہمارے اساتذہ ،ہمارے تلامذہ۔ غرضیکہ ہر طرح کے لوگ ہمارے رشتہ دار ہیں۔

(جاری ہے)

ہماری زندگی ہمارے ان ہی رشتوں میں بٹ جاتی ہے ،ختم ہو جاتی ہے اور کٹ جاتی ہے۔ ہم باراتوں اور جنازوں میں شامل ہوتے ہوتے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایک مختصر زندگی اتنے لامحدود رشتوں کی کہاں سے تاب لا سکتی ہے۔ بس ختم ہو جاتی ہے۔ ہم دوسروں کی داستان سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔ داستان جاری رہتی ہے ،لیکن سننے والے ختم ہو جاتے ہیں۔
ہم اپنے بزرگوں سے ان کی زندگی سے حالات سنتے ہیں ،اپنے بچوں کو اپنے زمانے کا ذکر سناتے ہیں اور جب بچے اپنا حال سنانے کے قابل ہوتے ہیں ،ہم سماعت سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔
ہم قلیل عرصہ کیلئے یہاں ہیں اور یہاں کا کاروبار ایک طویل سلسلہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم راستے میں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص یہ داستان مکمل نہیں کر سکا۔ کبھی آغاز رہ گیا اور کبھی انجام۔ کچھ گلے ،شکوے ،شکایتیں ،کچھ خشک و تر یادیں رہ جاتی ہیں ،باقی کچھ بھی تو نہیں رہتا۔
رشتوں کی بہار انسان کیلئے ایک عجب احساس پیدا کرتی ہے۔
فرد ایک وسیع اجتماعیت کے احساس میں پلتا ہے۔ ہم خود کو ہر طرف متعلق محسوس کرتے ہیں۔ ایک عظیم وصال ہمیں اپنی آغوش میں پرورش کرتا ہے۔
ہم پر وقت کی عنایات کے دروازے کھلتے ہیں۔ امکانات روشن ہوتے ہیں۔ ہمارا وجود ،ہمارا احساس ،ہمارا شعور ہر طرف محسوس کیا جاتا ہے۔ ہم خوشی اور غم میں تنہا نہیں رہتے۔ لوگ ہمارے ساتھ شریک ہو کر ہماری خوشی میں اضافہ کرتے ہیں اور غم کو کم کرتے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کہ ہم دیکھے جا رہے ہیں۔ ہم سوچے جا رہے ہیں ،ہم محسوس کئے جا رہے ہیں ،ہم ایک وسیع اور عظیم زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ ہمارے بغیر زندگی نامکمل تھی۔ ہمارے آنے سے سب کچھ ہوا۔ لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ زندگی ہمارے استقبال میں کھڑی تھی۔ ہم خود کو ایک نہایت ہی اہم فرد سمجھتے ہیں۔ ہم نہ ہوتے تو شاید کچھ بھی نہ ہوتا۔ لیکن ،اور یہ لیکن ایک اداس لیکن ہے۔
کچھ ہی عرصہ میں سب کچھ بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم پر برسنے والے پیار کے بادل ،بے اعتنائی کی آندھی سے اڑ جاتے ہیں۔ ہمارے سروں سے محبت کی چادر اتر جاتی ہے۔ ہمارا عظیم وصال ایک خوفناک فراق بن جاتا ہے۔ ہمارے ،ہمارے نہیں رہتے۔ ہمارا وجود زندگی میں غیر موجود ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے تذکرے زبانوں سے اتر جاتے ہیں۔ ہماری یاد دل سے دور ہو جاتی ہے۔
ہم تنہائی کے صحرا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اپنوں کے پاس اپنوں کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ ہماری محبت ہماری آزمائش بن جاتی ہے اور رشتے دم توڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ رشتے ہمیں چھوڑ دیتے ہیں ،کچھ کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ ہمیں بھول جاتے ہیں اور کچھ کو ہم۔ جن کے بغیر گزارا نہیں ہوتا تھا ،ان کے ساتھ گزارا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک ہم والدین کے گھر میں رہتے ہیں ہم خوش رہتے ہیں اور جب شومئی قسمت اسی مکان میں ماں باپ ہمارے گھر میں رہنے لگیں تو ہم اچھا محسوس نہیں کرتے۔
ہماری ضرورتیں پوری کرنے والے والدین جب ہم سے اپنی ضرورت کا ذکر کرتے ہیں تو ہم رشتوں کی اذیت کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم اس عنایت کو بھول جاتے ہیں جو ہم پر بچپن میں ہوئی۔
اسی طرح باقی رشتے آہستہ آہستہ دم توڑ دیتے ہیں۔ اس طرح ہم آہستہ آہستہ اپنوں سے بیگانوں میں جا پہنچتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ایک قافلہ چل رہا تھا۔ ایک ہجوم تھا اپنوں کا ،اپنے لگتوں کا۔
چلتے چلتے ہجوم بدل جاتا ہے۔ چہرے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہجوم قائم رہتا ہے لیکن افرادبدل جاتے ہیں اور اس ہجوم میں ہمارے ماضی کی کوئی گمراہی نہیں ہوتی۔ سب اجنبی ہوتے ہیں۔ سب ،سب سے بے خبر۔ ہمارے ہی قافلے میں ہمارا کوئی نہیں ہوتا۔ رشتے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ دل پتھر ہو چکا ہوتا ہے نہ کوئی یاد ستاتی ہے ،نہ کوئی غم رلاتا ہے۔ ہونا اور نہ ہونا برابر سا لگتا ہے۔
رشتے ہمارا وقت ،ہمارا پیسہ ،ہمارا سکون اور کبھی کبھی ہمارا ایمان کھاتے ہیں۔ یہی ہمارا سماج ہے اور یہی ہمارا معیار ہے۔ ہمیں ترغیبات میں پھنسانے والے رشتے ہی تو ہیں۔ ہمیں غریبی سے غیرت دلانے والے رشتے ہی تو ہیں اور پھر اس غیرت سے مجبور ہو کر ہم ایمان فروشی کر جاتے ہیں۔ ہم غریبی کو حرام کہتے ہیں اور رشوت کو حلال۔ رشتوں کے تقاضے ،دین کے تقاضوں سے متصادم ہو جاتے ہیں اور پھر… ہم بے بس ہو کر گزرتے ہیں وہ کام ،جو ہمیں نہ کرنا چاہئے۔
رشتوں میں اہم ترین رشتہ میاں بیوی کا ہے۔ یہ رشتہ ہم خود بناتے ہیں اور خود ہی اس کو نبھانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ گاڑی کے دو پہیے ساری عمر مناظرہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجادلے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس غزل کے مطلع اور مقطع میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔ سکون بھی اس رشتے میں ہے اور اضطراب بھی۔ شادی کے اولین ایام طلسماتی ہوتے ہیں۔
محبت و سرشاری کی داستان ،وفود شوق کے لمحات اور عزت و احترام کے جذبات ،شعور ذات کی بیداری کا دور ارتقا و بقائے حیات کے عظیم عمل میں اشتراک احساس اس رشتے کی اساس ہے۔ لیکن یہ رشتہ بھی۔ کیا اعتبار رشتہٴ ناپائیدار کا۔ پیار پیار ہی میں آپ سے تم اور تم سے تو تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ سکون بخش رشتے کے اذیت ناک پہلو نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ انسان پسندیدہ کو بس برداشت کرنا شروع کر دیتا ہے۔
شروع شروع میں لوگ اس رشتہ کے دم سے زندہ ہوتے ہیں اور پھر اس کے باوجود… ملہار میں شروع ہونے والا یہ رشتہ دیپک راگ پر ختم ہوتا ہے۔
رشتوں کی داستان شروع سے چلی آ رہی ہے۔ رشتے پیدا ہوتے ہیں ،رشتے بنتے ہیں ،بنائے جاتے ہیں ،رشتے پلتے ہیں ،رشتے ٹوٹتے ہیں اور رشتے جزا و سزا مرتب کرتے ہیں۔
ذہنی نشوونما اور ارتقاء کے ساتھ رشتوں کی افادیت بولتی رہتی ہے۔
آج کے متمدن و مہذب معاشرہ میں رشتوں کا احساس مشینوں نے ختم کر دیا ہے۔ ہر آدمی ایک جزیرہ سا بن گیا ہے۔ محبتوں کی ضرورت نہیں رہی۔ خدمتیں خرید لی جاتی ہیں اور بس… ضرورت کے سودے ہیں ،رشتے کیا ہیں۔ خاندان ختم ہو رہے ہیں ،برادری کا وجود عدم ہو چکا ہے۔ حلقہ دوستاں اور ہالہ دشمناں میں چنداں فرق نہیں رہا۔ خون کے رشتے بھی خونی ہوتے جا رہے ہیں۔
خلوص ،مہر ،وفا اور محبت کے الفاظ معنویت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ انسان ترقی کر رہا ہے۔ انسیت اور مروت کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں رکھتا۔ وہ آسمان کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے ،وہ دل کے دروازے پر کیوں دستک دے گا۔ وہ خلاؤں کے راستے دریافت کرنے نکلا ہوا ،اسے گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ وہ ستاروں کی گزر گاہیں ڈھونڈ رہا ہے ،وہ گزر گاہ احساس سے بے خبر ہے۔
اس کے پاس بہت کچھ ہے ،بس پیار کرنے والا دل ہی نہیں۔ اس کیلئے پیار ،محبت بے معنی الفاظ ہیں۔ انسان کو بے جان چیزوں سے محبت ہے۔ مشینیں ،کارخانے ،گاڑیاں ،بنک ،تیز رفتار جہاز ،بھاگم دوڑ اور دھکم پیل میں گم انسان اتنا وقت ہی نہیں رکھتا کہ مانوس چہروں کو محسوس کرے۔ اس کے پاس ایٹم کی طاقتیں ہیں۔ اس کے قبضے میں بارود کے ذخیرے ہیں۔ وہ قوت رکھتا ہے۔
انسان کو تباہ کرنے کی قوت ،زمین کو ویران کرنے کی قوت۔ جذبوں سے عاری انسان رشتے توڑ چکا ہے۔ وہ عقیدت و احترام کی دنیا چھوڑ چکا ہے اور نتیجہ یہ کہ انسان رشتے توڑتے توڑتے خود بھی ٹوٹ چکا ہے۔
باہمی احترام ختم ہونے سے کھچاؤ پیدا ہو گیا ہے اور ڈیپریشن کی وبا پھیل چکی ہے۔ آج جگہ جگہ کلینک کھل رہے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا باطن مریض ہو چکا ہے۔
محبت دل کی صحت ہے اور بے مروتی بیماری۔ رشتوں سے آزاد ہو کر انسان ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا غلام ہو گیا ہے۔
آج کا انسان صرف مکان میں رہتا ہے۔ اس کا گھر ختم ہو گیا ہے۔ باہمی اشتراک کے زمانے ختم ہو گئے۔ آج کی ملاقاتیں ضرورت کی ملاقاتیں ہیں۔ آج کا تعلق افادیت کا تعلق ہے۔ انسان کو شاید محسوس نہیں ہو رہا کہ وہ روحانی تشنگی کا شکار ہے۔
وہ انسانوں کے اس عظیم میلے میں اکیلا ہے۔ وہ کسی کا نہیں اور اس کا کوئی نہیں۔ وہ چیزوں کو دیکھتا ہے ،انہیں محسوس نہیں کر سکتا۔ اس بیگانگی کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
ابھی وقت ہے کہ رشتوں کے تقدس کا احیا کیا جائے۔ انہیں پامال ہونے سے بچایا جائے۔ ایک بار پھر پرانی نشستیں قائم کی جائیں ،پرانے گیت گائے جائیں ،پرانے چہرے ڈھونڈے جائیں ،پرانی آنکھیں تلاش کی جائیں ،پرانے آشیانے آباد کئے جائیں ،پرانی عقیدتیں بحال کی جائیں ،پرانے مناظر پھر سے دیکھے جائیں۔
انسانیت ماڈرن ہوتے ہوتے کہیں انسانیت ہی سے محروم نہ ہو جائے۔ دل پرانی یادوں سے آباد رہیں اور پیشانیاں سجدوں سے سرفراز رہیں۔ پرانا کلمہ پھر سے پڑھا جائے۔ پرانی مساجد کی عزت کی جائے۔ پرانے خطبوں میں نئے نام نہ ملائے جائیں۔ پرانی عقیدتیں ہی دینی عقیدتیں ہیں۔ ہمارا رشتوں سے آزاد نیا پن کہیں ہمیں دین سے محروم نہ کر دے۔ محبت و احترام سے آزاد ہو کر ہم گستاخ نہ بن جائیں۔
ہماری خود غرضی اور گستاخی ہمارے لئے عذاب نہ لکھ دے۔ ایسا عذاب کہ ہمارے لئے کوئی دل بے قرار نہ ہو ،کوئی آنکھ انتظار نہ کرے اور سب سے زیادہ خطرناک عذاب کہ ہمارے لئے کوئی دعا گو ہی نہ رہ جائے۔ ہم نے جن لوگوں کو اپنی موت کا غم دے کر جانا ہے ،کیوں نہ ان کو زندگی ہی میں کوئی خوشی دی جائے۔ موت یہ نہیں کہ سانس ختم ہو جائے ،اصل موت تو یہ ہے کہ ہمیں یاد کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ہمارے لئے نیک خواہشات رکھنے والے ہماری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان کی قدر کرنا چاہئے۔ اگر ہمارا کوئی نہ ہو تو پھر ہم ہیں ہی کیا؟ ہمارا ہونا بھی کیا ہونا ہے!

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif