Episode 31 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 31 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

نصیحت
دنیا میں سب سے آسان کام نصیحت کرنا ہے اور سب سے مشکل کام نصیحت پر عمل کرنا ہے۔ میں نے اپنے لئے آسان کام چن لیا ہے اور آپ… آپ کی مرضی ،مشکل میں پڑیں یا مشکل سے باہر رہیں۔
نصیحت کرنے کا عمل زندگی کی طرح بہت پرانا ہے۔ غالباً پہلے انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بھی نصیحت کا عمل موجود تھا۔ نصیحت ایک حکم کی طرح نافذ ہوتی تھی… ایسے کرو ،ایسے نہ کرو۔
وہاں جاؤ… وہاں نہ جاؤ… سجدہ کرو… اس کا سجدہ کرو اور اس کے علاوہ کا سجدہ نہ کرو… ماں باپ کی اطاعت کرو… شیطان کی اطاعت نہ کرو… غرضیکہ نصیحت سنو اور مانتے چلے جاؤ… زمین کے سفر میں آسمان کی نصیحتیں سنو اور انہیں ماننے کا حوصلہ پیدا کرو۔
ماضی کے اوراق میں ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک آدمی ،ہم میں سے ہی ،ہمارے سامنے ایک بلندی پر کھڑا ہو گیا اور ایک رعب دار آواز میں نصیحت کرنے لگ گیا کہ شرک نہ کرو… زمین پر اکڑ کر نہ چلو… اور وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)

ان لوگوں کو کس نے اجازت دی کہ لوگوں کو خطاب کریں کہ اے انسانوں! غور سے سنو… ایک وقت آنے والا ہے جب تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا… جب چھپے ہوئے راز ظاہر ہوں گے اور جب انسان کو اس کے اعمال کے مطابق ایک عاقبت ملے گی۔
بہرحال نصیحتیں چلتی رہتی ہیں… خطاب جاری رہتے ہیں اور سماعتیں بے حس ہو جاتی ہیں… نصیحت کرنے والے شور مچاتے رہتے ہیں کہ اے محترم اندھو! آگے قدم نہ بڑھانا… آگے اندھا کنواں ہے… لیکن عقل کے اندھے سنی ان سنی کرکے دھڑام سے گرتے رہتے ہیں… اور پھر گلہ ہوتا ہے کہ کاش مجھے کوئی لاٹھی مار کے سمجھاتا کہ واقعی آگے اندھا کنواں ہے… یہ لوگ سنتے ہیں لیکن ان کے دل پر اثر نہیں ہوتا ،یہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن انہیں نظر کچھ نہیں آتا… یہ لوگ فلسفی ہیں لیکن یہ بیچارے سمجھ نہیں سکتے… ان کے پاس دل ہے لیکن احساس نہیں… یہ لوگ مغرور ہیں لیکن ان کی متاع حیات قلیل ہے… یہ طاقت سے حکومت کرنا چاہتے ہیں ،ان کے پاس خدمت کرنے کا شعور نہیں ،بس اس طرح یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
آوازیں آ رہی ہیں کہ غافلو! سنو غور سے ،گجر کی آواز سنائی دیتی ہے ،کان دھرو ،وقت کا ناقوس بج رہا ہے۔ رحیل کارواں کے معنی تلاش کرو۔ بانگ درا کی تفسیر ڈھونڈو ،بال جبریل کا مفہوم سمجھو ،لیکن نہیں… سننے والوں کے کانوں میں گویا پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا جا چکا ہے… خواہشات کا اودھم مچا ہوا ہے۔ نصیحت کی آواز کیسے سنائی دے!
لوگ مطمئن ہیں کہ اب کوئی سقراط موجود نہیں… اچھا ہوا کہ سعدی رخصت ہو گئے… بھلا ہو اقبال کا کہ اب وہ بھی نہیں… کچھ لوگوں کیلئے یہ امر باعث اطمینان کے کہ اب نئی نسل پرانے مذہب سے آزاد ہو رہی ہے… خوش ہیں لوگ اس بات پر کہ اللہ نے نبی بھیجنے کا سلسلہ ہی بند فرما دیا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کو نجات مل گئی ،عقیدتوں اور عقیدوں سے… اور وہ آزاد ہو گئے نصیحتوں سے ،ڈرانے والوں سے ،آگاہ راز کرنے والوں سے۔ ان کیلئے صرف حال ہے… نہ کوئی فروا نہ ماضی… بس صرف یہی دور ہے ،یہی زمانہ ہے۔ آئندہ کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا… اللہ اپنے گھر خوش ،ہم اپنے گھر…
لیکن ،لیکن ایسے نہیں ہو سکتا… پیدا کرنے والے نے زندگی اور موت پیدا کی… یہ دیکھنے کیلئے کہ کون نصیحت کرتا ہے اور کون نصیحت پر عمل کرتا ہے… کون سعادت مند ہے جو دوسروں کے تجربات سے فائدہ حاصل کرتا ہے… کون ہے خوش نصیب جو نصیحت کے چراغ کی روشنی میں زندگی کی تاریکیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور کون ہے وہ جو اس زندگی اور اس زندگی کے انعامات سے سرفراز ہوتا ہے۔
نصیحت کا لفظ طلسماتی لفظ ہے ،جو زندگی کے سفر میں کسی وقت بھی اپنا جادو جگا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نصیحت کرنے والا نصیحت کے عمل سے خود کوئی فائدہ حاصل نہ کرے ،ورنہ سب کچھ بیکار ہو جائے گا۔ مخلص کی تعریف ہی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ،آپ سے زیادہ مہربان ہو… وہ جو اپنے آپ کو بھول کر آپ کو یاد رکھے… وہ جو تم سے تمہاری بہبود کے علاوہ کسی اور معاوضے کا متمنی نہ ہو… نصیحت کرنے والا مخلص نہ ہو تو نصیحت بھی ایک پیشہ ہے… پیشہ ور کی نصیحت ،نصیحت نہیں کہلائی جا سکتی ہے…!!
بہرحال کہنے کا مدعا یہ تھا کہ نصیحت کا عمل قدیم ہے ،آسان ہے ،ہم نے اسے اپنے لئے چن لیا… اور اب یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہم ہر وقت آدمی کو ہر طرح کی نصیحت ہی کرتے رہیں… نہیں… ایسے نہیں… نصیحت کا پہلا اصول یہ ہے کہ نصیحت کرنے والا ،نصیحت سننے والے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور پیدا کرے… بے تعلق نصیحت یا بے تعلق تبلیغ ایسے ہے ،جیسے زبان غیر میں تقریر کرنا…
سب سے موزوں نصیحت تو یہی ہے کہ نصیحت سننے والے میں نصیحت سننے کا شوق ہو… ورنہ… ورنہ وہی کہانی کہ ایک دفعہ ایک بندر تھا… بندر اور بیا پاس پاس رہتے تھے… پڑوسی تھے بیا سارا سال خوبصورت گھونسلہ بناتا اور سردی میں اس میں آرام کرتا… بندر تو بس بندر ہی تھا… ایک دفعہ کیا ہوا کہ بندر سردی میں ٹھٹھر رہا تھا… اور بیا اپنے آشیانے میں لطف اندوز ہو رہا تھا… بیا کو کیا سوجھی کہ وہ بندر کو دیکھ کر نصیحت کرنے لگا… بولا… ”بھائی بندر! میں نے تمہیں ہزار بار کہا تھا کہ موسم سرما آنے والا ہے۔
اپنے لئے آشیانہ بنا لو… مگر تم نے ایک نہ مانی…“ بندر یہ سن کر ناراض ہو گیا… اس نے کہا ”اتنے سے پرندے اور اتنے بڑے بندر کے سامنے زبان کھولتے ہوئے شرم نہیں آتی… تجھے نصیحت کا حق کس نے دیا… لا میں تجھے گھونسہ بنا کے دکھاؤں…“ بندر نے بندروں والا کام کر دیا… اور بیا کا گھونسلہ ٹوٹ گیا… توڑ دیا گیا… بندر نے اپنا آشیانہ نہ بنایا… ناصح کا آشیانہ توڑ دیا…!!
بس یہی انجام کرتے ہیں نصیحت پر ناراض ہونے والے ،ناصح کا… کبھی صلیب پر چڑھا دیتے ہیں… کبھی دار پر… کبھی اس پر کربلائیں نافذ کر دیتے ہیں… کبھی اسے وادی طائف سے گزار دیتے ہیں… کبھی کوئی صعوبت ،کبھی کوئی… لیکن سلام و درود ہو نصیحت کرنے والوں پر جن کے حوصلے بلند اور عزائم پختہ ہوتے ہیں… جو گالیاں سن کر دعائیں دیتے ہیں اور جو غافلوں سے غفلت کی چادریں اتار دیتے ہیں اور انہیں بے حسی کی نیند سے جگاتے رہتے ہیں… ہم بھی ان لوگوں کے ساتھ عقیدت کے طور پر نصیحت کرنے کا عمل اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سے پہلے کوئی نصیحت کی جائے… یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی نصیحت نہیں جو پہلے کی نہ گئی ہو… کتابیں ،لائبریریاں … نصیحتوں سے بھری ہوئی ہیں… تو کیا کتابیں پڑھ لینا ہی کافی ہے… نہیں… اس کے علاوہ بھی کچھ ہے… بہت کچھ ہے… یہ وقت کا عبرت کدہ ہے… یہاں آنکھ کھول کر چلنا چاہئے۔ اپنی من مانی نہیں کرنی چاہئے… پہلے من مانیاں کرنے والے کہاں گئے… عشرت کدے عبرت کدے کیوں بن گئے… محلات ،کھنڈرات ہو گئے ،دنیا میں جھوٹ بولنے والے کیا کیا نشانیاں چھوڑ گئے… ویرانیاں ہی نشانیاں ہیں…!
سب سے بڑی نصیحت تو یہی ہے کہ نصیحت سننے کیلئے تیار رہنا چاہئے… کان کھول کر رکھے جائیں… آنکھیں انتظار سے عاری نہ ہوں… دل احساس سے خالی نہ ہو… عقل کو عقل سلیم بننے میں کسی رکاوٹ سے دوچار نہیں ہونے دینا چاہئے… جب انسان نصیحت سننے پر آمادہ ہو جائے تو اسے بہتی ہوئی ندیوں میں کتابیں ہی کتابیں نظر آئیں گی… نصیحت ہی نصیحت …
ندی راز ہے… گہرا راز… پہاڑ کا پیغام… سمندر کے نام رواں دواں ،اپنی منزل مراد کی طرف… نصیحت ہے ان لوگوں کیلئے جو اولی الالباب ہیں۔
ندی ہی پر موقوف نہیں… پہاڑ بھی ایک انسان کیلئے ایک نصیحت آموز داستان رکھتے ہیں… ایک عزم… ایک قوت… ایک داستان دلبری… پہاڑوں میں نصیحتیں ہیں ،بادلوں میں نصیحتیں ہیں… زمین کے اندر نصیحت ،زمین سے باہر نصیحت… درختوں میں زبانیں ہیں… گویائی ہے… نصیحت ہے… جلوہ ہے ،جلوہ گر بھی ہے…
زمین کے اندر نصیحت کی ایک داستان دلپذیر میر تقی میر# نے ایک رباعی میں پیش فرمائی ہے کہ پرانے قبرستان میں ایک کاسہ سر پر پاؤں جا پڑا… بس ٹوٹ گیا… اور ساتھ ہی یہ آواز آئی…
آئی صدا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سر پر غرور تھا
لیکن اس سے بھی زیادہ اثر انگیز بیان بابا فرید کے ایک اشلوک میں ہے۔
جس کے پیچھے ایک کہانی ہے جو کچھ یوں سی ہے…
ایک دفعہ بابا فرید اپنے سیلانی دور میں ایک بستی میں سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے… بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی… اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالک ہے اور غریب اس کی ملازمہ… بلکہ مشاطہ… اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے ساتھ کوئی ریت کا ذرہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ لگا… اس لئے اس نے خادمہ کو مارا…
بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے… ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا… ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیئے ہوئے تھے… وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لاکر بچوں کو کھلاتی… لیکن… بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے… انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا… انہوں نے یہ یکھنے کیلئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے… انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو اسی خوبصورت عورت کی ہے جو آنکھ میں ریت کا ذرہ برداشت نہ کرتی تھی… آج اس کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے ہوئے ہیں… بابا جی نے اشلوک کہا:
جن لوئیں جگ موہیا سو لوئیں میں ڈٹھ
کجرا ریکھ نہ سہندیاں تے پنچھی سوئے بٹھ
(جو آنکھیں جگ کو موہنے والی تھیں آج میں نے وہ آنکھیں دیکھ لیں… کاجل میں ریت کا ذرہ برداشت نہ ہوا آج پنچھی کے بچے اسی آنکھ میں بیٹھے ہیں)
بہرحال نصیحت ہر طرف لکھی گئی ہے ہر سانس نصیحت… ہر جلوہ نصیحت… تنہائی نصیحت… محفل نصیحت… ذرہ ذرہ اور قطرہ قطرہ نصیحت… قبول کرنے والا ہو تو عطا کرنے والا دور نہیں… ذوق سجدہ مل جائے تو آستانہ مسجود پاس ہی ہے… آنکھ منتظر ہو توجلوہ بے تاب ہو کر سامنے آئے گا… خبر دینے والا ایک بڑی خبر لے کر پھر رہا ہے… آپ کیلئے ،آپ کے فائدہ کیلئے… آپ کی بچت کیلئے… مخبر کا انتظار کرو… آپ میں سے ہی آپ کے آس پاس آپ جیسا انسان ،کوئی انسان ،نہ جانے کب کہاں بولنا شروع کر دے… سماعت متوجہ رکھو… آپ کے اپنے ہی اندر سے آواز آ سکتی ہے… دوسروں کی خامیوں پر خوش ہونے والو… کوئی اپنی خوبی ہی بیان کرو… اسلام سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والو… مسلمانوں سے نفرت نہ کرو… آپ کی آنکھ میں کھٹکنے والے حار کسی اور نگاہ کے منظور نظر بھی ہو سکتے ہیں… نصیحتوں پر ناراض نہ ہونا چاہئے… بندر اور انسان کا فرق قائم رکھنا چاہئے…

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif