Episode 33 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 33 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

محنت
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے انسان! تو محنت کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس اپنے رب کے راستے کی طرف محنت کر۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان ،جس کے پاس اشرف ہونے کا لقب ہے ،اسے محنتی بنایا گیا ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ کرے گا اور کچھ نہ ہوا تو غلطی کرے گا۔ کام کیلئے محنت کرے گا اور کبھی کبھی تو بیکار رہ کر بھی محنت کرے گا۔
بیکاری پر بیماری سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے ،بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بیکار آدمی سب سے زیادہ محنت کرتا ہے۔
کام کو ذریعہ معاش بنانے کا طریقہ تقریباً ہر ایک کو معلوم ہے ،لیکن بیکار رہ کر زندہ رہنے کا طریقہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ان میں کچھ مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ،لیکن یہ کام بھی آسان نہیں ہے۔ بہرحال انسان محنت کیلئے ہے۔
ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف انسان کی محنت کے جلوے ہیں۔

(جاری ہے)

انسان نے زمین کو سنوارا ہے۔

اس نے بڑی محنت سے ،مسلسل محنت کے ساتھ ،محنت شاقہ کے ساتھ شہر بسائے ہیں۔ انسانی زندگی انسانوں ہی کی محنت کے بنائے ہوئے راستوں پر گامزن ہے۔
انسان نے پہاڑوں پر بستیاں بنائیں۔ صحراؤں میں اس نے اپنے مسکن تلاش کئے۔ اس نے سمندر کے اندر راستے بنائے۔ انسان کی محنتیں ہر طرف آشکار ہیں۔ سائنس ہو یا آرٹ کی دنیائیں ،سب انسان کی محنت کی رہین منت ہیں۔
انسان کے اندر یوں لگتا ہے جیسے پارہ ہے ،اسے قرار نہیں۔ وہ سوچتا ہے ،محنت کرتا ہے ،فاصلے طے کرتا ہے۔ وقت کے فاصلے ہوں یا زمین و آسمان کے فاصلے۔ اس نے اپنی محنتوں سے یہ فاصلے طے کئے ہیں۔
شاید انسان کی خواہش اس کی محنت کا باعث ہے۔ خواہش انسان کو دوڑاتی ہے اور آرزو کے تجویز کردہ راستوں پر انسان محنت کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ماہیت اشیاء جاننے کیلئے محنت کرتا ہے۔
غاروں میں چھپے ہوئے راز دریافت کرتا ہے۔ سمندروں کے چھپے ہوئے خزانے نکالنے کیلئے محنت کرتا ہے۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑی دنیا ہے ،پھیلی ہوئی دنیا ،جو اسے دعوت دیتی ہے کہ دنیا کو دریافت کیا جائے۔ اسے حاصل کیا جائے اور انسان اس کام کیلئے محنت کرتا چلا آ رہا ہے۔
انسان اپنی محنت سے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنی محنت سے دوسروں کی محنت کے انعام چھینتا ہے۔
محنت کرنا انسان کی جبلت ہے۔ اس کے اندر کشمکش ہے اور وہ باہر کشمکش پیدا کرتا ہے۔ سراغ ہستی کی دریافت ایک کٹھن کام ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے اور انسان اس چیلنج کو قبول کرنا جانتا ہے۔ راز دریافت کرنے کیلئے انسان نے کئی کئی سال محنت کی۔ کئی کئی نسلیں محنت کرتی رہیں۔ محنت کرتے ہوئے کئی زمانے اور کئی جگ بیت گئے اور تب کہیں جا کر وہ گوہر مقصود ملا۔
وہ گوہر مقصود اگر کوئی فانی شے ہے ،تو محنت رائیگاں ہے۔ اس دنیا میں جہاں محنت نے بڑے بڑے کرشمے سرانجام دیئے ہیں ،وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ محنتیں رائیگاں ہو گئیں۔ ان کیلئے افسوس!
انسان کی پیدائش سے پہلے ابلیس نے اپنے تکبر کی وجہ سے اپنی صدیوں کی محنت کو خود ہی رائیگاں کر لیا۔ اس کو افسوس تک نہ ہوا۔ اسے معافی کا راستہ نہ سوجھا اور وہ راندہ درگاہ ہوا۔
انسان کو اللہ نے معافی کا راستہ بتایا ہوا ہے۔ انسان اپنی رائیگاں ہونے والی محنتوں پر افسوس کرے تو اس کو محنت کیلئے نئے راستوں سے تعارف ہو سکتا ہے۔ اپنی محنت کی قدر و حفاظت نہ کی جائے تو سب محنت رائیگاں ہے۔ ارشاد ہے کہ افسوس ہے اس بڑھیا پر ،جس نے تمام عمر سوت کاتا اور آخر میں اسے الجھا دیا۔
وہ لوگ جنہوں نے باطل کے راستوں پر محنت کی ،ان کی محنت ان کیلئے ندامت کیلئے علاوہ کیا لائی؟
محنت کرنا تو انسان کی سرشت میں ہے۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کس کام کیلئے محنت کرتا ہے۔ ویسے تو ایک جواری جوا خانے میں محنت کرتا ہے۔ وہ اپنے ہارے ہوئے مال کی برآمدگی کیلئے محنت کرتا ہے اور اپنا پیسہ ،وقت اور عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وہ طالب علم جو سیاستدانوں کیلئے محنت کرتے ہیں ،اپنی عمر اور ماں باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں۔ امتحان میں ناکامی لے کر گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔
ان کی محنت نے رائیگاں ہو کر ان کیلئے ندامت لکھ دی۔
کارآمد کیا ہے اور رائیگاں کیا ہے؟ اس کا فیصلہ صرف وہی طاقت کر سکتی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس طاقت کا ارشاد ہے کہ اے انسان! اپنے رب کی طرف محنت کر! رب کی طرف محنت کیا ہوتی ہے؟ رب کی طرف محنت رب کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبرﷺ کے راستے پر چلتے رہنے کا نام ہے۔ جو لوگ بے جہت اور بے سمت محنتیں کرتے ہیں ،ان کیلئے کیا انجام ہو سکتا ہے۔
گناہ کار کی محنت کا انجام تکمیل گناہ ہے اور تکمیل گناہ ہی انسان کی عاقبت خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ ان محنتوں کو غور سے دیکھا جائے تو پھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نے باغی راستوں پر جو محنت کی ہے ،اس کا ریکارڈ اسی دنیا کے عبرت کدوں میں محفوظ ہے۔ ویرانیاں چھوڑ جانے والی محنت پر افسوس ہوتا ہے اور اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے رب کے راستے کی طرف محنت کی ،وہ مرنے کے بعد بھی سرفراز ہیں۔
ان کے آستانے ،ان کے مزار ،ان کی تصانیف اور ان کے ملفوظات آنے والی نسلوں کیلئے مینارہ نور کا کام دیتے ہیں۔ وہ آنے والوں نسلوں کو بتا گئے کہ محنت وہی ہے جو رب کی طرف ہو۔ یوں تو کائنات کا ذرہ ذرہ مصروف محنت ہے اور محنت کرتے کرتے انسان بدنامی کما لیتا ہے ،ناکامی کماتا ہے ،عبرتناک انجام کماتا ہے اور ایسی موت حاصل کرتا ہے جو دیکھنے والوں کیلئے عبرت ہوتی ہے۔
جتنے لوگ دنیا میں سرفراز ہوئے ،وہ سب وہی تھے جو حکم اور امر کے اندر رہ کر محنت کرتے رہے۔ وہ آہستہ آہستہ لیکن یقین کے ساتھ اپنی محنتوں کو دین اور دنیا کی کامیابی کیلئے استعمال کرتے رہے۔
محنت ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے پاس اڑنے کیلئے پر نہیں ہیں ،لیکن محنت کے ذریعے اس نے بلند پرواز پرندوں کے صرف نشیمن ہی سر نہیں کئے بلکہ ان کی پرواز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
محنتی انسان ایک ایک قدم چل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر پہنچا۔ دن رات کی محنت سے اس نے مخفی کو آشکار کیا۔ یہ انسان اگرچہ خود ایک بہت بڑا راز ہے لیکن اس کو راز دریافت کرنے کا شوق ہے۔ انسان صرف یہی نہیں کہ بے جان دنیا سے آشنا ہے ،بلکہ جمادات ،نباتات اور حیوانات کے دل کا راز بھی جانتا ہے۔ ذرے کا جگر چیر دیتا ہے اور ایٹم کے اندر چھپی ہوئی طاقت کو دریافت کر لینا انسان کی محنت کے سر سہرا ہے۔
انسان کی محنت کے جتنے بھی قصیدے لکھے جائیں ،کم ہیں لیکن وہ محنت جو کسی کے کام نہ آئے ،اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
وہی محنتیں کامیاب ہوئیں ،جو انسان کی فلاح کیلئے کی گئیں ،انسان کی خدمت کیلئے کی گئیں ،انسان کو سکون پہنچانے کیلئے کی گئیں ،انسانی زندگی کو ایک خوبصورت زندگی بنانے کیلئے کی گئیں اور وہ محنتیں جو انسان کا سکون برباد کرنے کیلئے کی گئیں ،جن کے ذریعے بحر و بر میں فساد مچا ،جن کے پیچھے طاغوت کار فرما تھا اور جن کے پیچھے انسانی نفس تھا ،اس کی انا تھی ،وہ غلط روی کی محنتیں انسان کے چہرے پر سیاہی لکھ گئیں۔
مبارک ہیں وہ محنتیں ،جن کو قبولیت کی منزل ملی۔ ایسی محنتیں انسان کو شرف عطا کرتی ہیں۔ اپنی شہرت کیلئے کی جانے والی محنت انجام کار انسان کیلئے افسوس پیدا کرتی ہے۔ زندگی دوبارہ نہیں ملتی اور انسان کے پاس غلطیوں کی اصلاح کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ایک ہی دفعہ سوچ سمجھ کر محنت کا آغاز کرنا چاہئے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایسے جاننے والے سے پوچھ کر محنت کی جائے جو محنت اور محنت کے انجام کے رشتوں سے باخبر ہو۔
اس سے اپنی محنت کی سمت دریافت کرنا چاہئے۔ اگر سمت صحیح ہو جائے تو کامیابی اور ناکامی دونوں میں انسان کا بھلا ہے۔ مقصد اس سمت کا ہے۔ اگر اللہ کی جانب جانے والی راہ ہماری محنت کا مدعا ہے تو اس راہ میں مر جانا بھی شہادت ہے۔ اس راہ میں ہر مقام ایک منزل اور ہر منزل ایک مقام ہے۔ بے حد کی راہ اتنی ہی بے حد ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو دنیا میں نمایاں ہوئے ،جنہوں نے نیکی کے راستے پر چراغ جلائے ،جنہوں آنے والے زمانوں کیلئے نشانیاں چھوڑیں ،وہ لوگ کتنے محنتی تھے۔
جب دنیا سو رہی ہوتی تھی ،یہ لوگ جاگتے تھے ،اپنی راتوں کو آہ سحر گاہی سے منور کرتے اور اللہ کے فضل کے سہارے مانگتے اور دعائیں کرتے کہ اے اللہ! ہمیں رائیگاں ہونے والی محنتوں سے بچا اور اللہ ان کو عطا فرماتا ،اپنے راستوں کا شعور اور ان پر نازل فرماتا اپنے کرم کی بارش اور ان کو عنایت فرماتا ان کے رہنما جو ان کا ہاتھ پکڑ کر منزل تک پہنچاتے۔
یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ عطار ،رومی ،رازی ،غزالی ،جامی ،خسرو اور اقبال سب سے آہ سحر گاہی کے کرشمے ہیں اور آہ سحر گاہی محنتوں کی انتہا ہے۔ گناہ کی تلاش میں محنت کے بجائے گناہ سے بچنے کیلئے محنت کی جائے تو اس کا انجام کچھ اور ہی ہے۔ یہی فضل ہے کہ ہمیں منظور ہونے والی اور مقبول ہونے والی محنت کا شعور ہو جائے ،ورنہ محنت کرنا سرشت تو ہے ہی ،بے شعور محنت کس کام کی۔
کتنے لوگ محنت کرتے ہیں اور جنہیں خبر نہیں کہ وہ کیوں محنت کر رہے ہیں۔ وہ مشینیں ہیں ،روبوٹ ہیں اور جنہیں معلوم نہیں کہ کس نے انہیں کام اور نامراد منزل کی طرف گامزن کر دیا۔ وہ ہنستے گاتے اور محنت کرتے کرتے جنہم واصل ہو جاتے ہیں۔
جہنم میں جانے والے کم محنت نہیں کرتے۔ بس فرق یہ ہے کہ انہیں ان کی محنتوں نے برباد کر دیا اور اس کے برعکس سرشاری جنت حاصل کرنے والے لوگ ایک ضابطے کے اندر رہ کر محنت کرتے رہے اور ان پر انعامات کی بارش ہوئی۔
اللہ کے ذکر کیلئے محنت کرنے والے مذکور ذات حق ہو گئے۔ خدا کے راستوں کی طرف بلانے والے خود خدا کا راستہ ہو گئے۔
توحید بیان کرنے والے ،رسالت بیان کرنے والے ،صداقت بیان کرنے والے ،اس بیان کا حصہ بن گئے۔ ان کے نقش قدم وقت نے محفوظ کر لئے۔ ان کے آستانے آباد رہ گئے۔ ہر زمانے میں انہی کے جلوے رہے۔ حکومتیں آتی ہیں ،چلی جاتی ہیں۔
بادشاہ آتے ہیں ،بدل جاتے ہیں۔ چراغاں کرانے والے تاریکیاں چھوڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ کتنے ظل سبحانی آئے۔ اپنا حکم نافذ کرنے کیلئے محنت کرتے رہے اور آخرکار فنا کی پستیوں میں غرق ہوئے۔
درویش لوگوں نے اللہ کی طرف محنت کی۔ اس کے راستوں پر چراغ جلائے۔ اس کے راستوں پر چلنے والی سنگتیں تیار کیں۔ اس کے راستوں کو آسان بنایا۔ وہ لوگ رہتی دنیا تک نیک نامی کی آغوش میں رہیں گے۔
زمانے بدل جائیں۔ صدیاں بیت جائیں۔ درویش کا آستانہ ،اس کی رونقیں اور برکتیں ختم نہ ہوں گی۔ یہ اللہ کریم کا احسان ہے کہ اپنی راہ پر محنت کرنے والوں کو اپنی راہ کی آسانیاں اور اپنی راہ کے جلوے عطا فرماتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی سرپرستی فرماتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو آمادہ سفر کرتا ہے اور ان لوگوں کے سفر میں اپنی عنایات کو شریک سفر رکھتا ہے اور ان کو اپنے قرب کی منزل عطا فرماتا ہے۔
یہ محنت سرفراز کرتی ہے۔
کیا یہ مناسب نہیں کہ انسان اپنی محنت کے مقاصد سے باخبر ہو اور اس میں اصلاح کرے اور اپنی محنت کا قبلہ درست کرے۔ اس دنیا میں سب سے زیادہ مقبول محنت اس ہستی کی ہے جو سب سے زیادہ مقبول ہے۔ جن کی شان میں اپنے تو اپنے ،بیگانے بھی نعت کہتے رہے ہیں۔ ہر وہ محنت جو آپﷺ کے دامن سے وابستہ کرے مبارک ہے اور ہر وہ محنت جو آپﷺ کے قرب سے محروم کرے ،بولہبی ہے۔
نیکی کا راستہ محنت کا راستہ ہے۔ نیکی کو روکنے کا راستہ بھی محنت کا راستہ ہے۔ لیکن انجام کا فرق جنت اور دوزخ کا ہے۔ محنت کے نتیجے میں اتنا بڑا فرق؟ کیا قابل توجہ نہیں! انسان آنکھوں پر پٹی باندھ کے مشین کی طرح محنت کرتا جائے تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو ایک مشین کا ہوتا ہے۔ پیسہ کمانا ،پیسہ گننا ،پیسہ جمع کرنا ،بڑا محنت طلب کام ہے اور یہ بڑے ہی عذاب کا باعث ہے۔
محنت وہ جو مالک کی مرضی کے مطابق ہو۔ کوشش وہ جو زندگی دینے والے کی منشا کے مطابق ہو۔
خدا کرے کہ ہم لوگ اپنی محنتوں کا چہرہ بھی دیکھیں اور محنتوں کے انجام کا چہرہ بھی دیکھ لیں۔ اس مختصر زندگی میں یہ چھوٹا سا کام کرنا بہت ضروری ہے۔ محنت اگر آسمانوں کو مسخر کر لے تو بھی اتنی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ محنت کے ذریعے انسان دل کی دنیا کا رستہ دریافت کرے اور یہ کام اللہ کے فضل سے ہوگا۔ کیونکہ دل ہی اللہ کا راز ہے۔ اللہ کا راستہ مومن کے دل کے دروازے سے شروع ہوتا ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif