Episode 36 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 36 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

دیدنی
یہ ایک گہرا راز ہے کہ ہر شے دراصل ایک ہی شے ہے۔ یہ سب کائنات ایک ہی کائنات ہے۔ سب صنعت ایک ہی صانع کا اظہار ہے۔ ہر شے ہر دوسری شے کا آئینہ ہے۔ رات سورج ہی کے ایک انداز کا نام ہے۔ دوری کسی قرب کے حوالے سے ہے۔ فراق اور وصال ایک ہی محبوب کی عطا ہے۔ اگر چیزوں کو ان کے اصل کے حوالے سے پہچانا جائے تو ہر شے ایک ہی شے ہے۔ ہر انسان ہر دوسرے انسان کا عکس ہے۔
طاقتور انسان کمزور انسانوں کی عنایت کا نام ہے۔ ڈاکٹر مریض کے اور مریض ڈاکٹروں کے روپ ہی ہیں۔ ہر فراوانی ہر احتیاج کے دم سے ہے اور ہر محرومی ہر حاصل کے دم سے ہے۔ نیکی بدی کے حوالے سے اور بدی نیکی کے دم سے۔ جو ایک نہ ہو سکا ،اسے دوسرا بننا پڑا۔ جو یہ نہ بن سکا ،اسے وہ بننا پڑا… ہر فراز ہر پستی کا دوسرا نام ہے اور شکست کی تاریخ فتح کی تاریخ ہے۔

(جاری ہے)

اگر میں نہ ہوتا تو تو کیسے تو ہو جاتا۔ ازل نہ ہو تو ابد کیا۔ آغاز ہے تو انجام ہے ،نہیں تو نہیں۔ جس کا آغاز نہ ہوا ،اس کا انجام بھی نہ ہوا۔ جو ہر آغاز سے قبل ہوا ،وہ ہر انجام کے بعد بھی رہے گا۔
چیزوں کے آپس میں رشتے بڑے مضبوط اور مربوط ہیں۔ محبت اور نفرت ایک ہی جذبہ ہے۔ پسند کے باطن میں ناپسند کا ہونا ناگزیر ہے۔ ہم دوستوں کے دوستوں کو دوست سمجھتے ہیں اور ان کے دشمن کو دشمن ،حالانکہ ہمارا ان سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔
یہ عجب بات ہے کہ قہقہے اور آنسو ایک ہی کہانی ہے۔ ایک ہی مسافر ہنستا جا رہا ہے اور وہی مسافر روتا جا رہا ہے۔ ایک ہی گھر میں شادیانے بھی بجتے ہیں اور انہی انسانوں کے حوالے سے ماتم بھی ہوتا ہے۔ قہقہے ،آنسو ایک ہی کہانی ہے۔ جو ایک نے کھویا ،اسے دوسرے نے پایا اور عجب بات ہے کہ جسے ایک تلاش کرتا ہے ،دوسرا اسی سے نجات چاہتا ہے۔
سارا منظر اور پس منظر ایک ہی نظارہ ہے۔
سارا کھیل ایک ہی کھیل ہے۔ انسان پر اس میں مختلف مراحل آتے ہیں۔ انسان ختم ہو جاتے ہیں ،ڈرامہ جاری رہتا ہے۔ افراتفری ہے۔ ہر انسان پریشانی میں ہے لیکن پریشانی کے باوجود ہر انسان اپنے سامان کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ لوگوں نے سامان کو پکڑ رکھا ہے اور سامان نے لوگوں کو۔ انسان کی ملکیت اس کی مالک ہو گئی ہے۔ ہم جس کو قابو کرتے ہیں ،وہ ہمیشہ پکڑ لیتا ہے۔
کسی چیز کو روکنے کیلئے خود رکنا پڑتا ہے۔ اگر ہم کسی چیز کے ساتھ الجھیں تو ہم اپنے آپ سے الجھتے ہیں۔ ہم آزاد نہ کریں تو ہم آزاد نہیں ہو سکتے۔ اس سارے ڈرامے میں سارے کھیل کا مصنف جب چاہے ڈرامے کو تکمیل تک پہنچا دے۔ ہر انسان اپنے آپ کو ساتویں ایکٹ میں محسوس کرتا ہے کہ ابھی کھیل ختم ہوگا۔ یہ کھیل شروع ہوتے ہی ختم ہونے والا تھا۔
 آغاز ہی سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔
انجام نوشتہ دیوار ٹھہرا۔ ہم استقامت چاہتے ہیں۔ ہمیں عارضی زندگی ملی۔ ہم کسی مقام پر دو متصل لمحات تک بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ کچھ ہوتے ہوتے کچھ اور ہو جاتا ہے۔ کچھ کہتے کہتے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ فریاد لب تک آتے آتے اپنا مفہوم بدل لیتی ہے۔ دن رات کے خوف سے گزرتا ہے اور رات صبح کے انتظار میں کٹ جاتی ہے۔ ایسی بھی راتیں آتی ہیں کہ رات کٹ جاتی ہے اور سورج نہیں نکلتا۔
ایسے بھی دن آئے کہ سورج ڈوب گیا ،روشنی باقی رہی۔ ایسے ساتھ بھی ملے جو پاس پاس رہے ،ساتھ ساتھ رہے ،قریب رہے اور کبھی قریب نہ محسوس ہوئے۔ نگاہوں میں رہ جانے والا ذرا فاصلہ برسوں کی مسافت میں طے نہ ہو سکا۔ ساتھ چلنے والے ہزار بار اجنبی نکلے اور اپنے قافلے سے بچھڑ گئے۔ چلتے چلتے ساتھ بدل جاتا ہے اور طے کرتے کرتے راستے تبدیل ہو جاتے ہیں۔
کبھی سر پر آسمان گرتا ہے ،کبھی پاؤں تک سے زمین نکل جاتی ہے۔ کبھی انسان ،انسان پر مر رہا ہوتا ہے اور کبھی انسان ،انسان کو مار رہا ہوتا ہے۔ آنکھ کھول کر چلیں تو آنکھ بند ہونے کی تمنا پیدا ہوتی ہے۔ آنکھ بند کر دیں تو آنکھیں کھول کر چلنے کا ارادہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسا جلوہ ہے کہ جسے پوری طرح دیکھا بھی نہیں جا سکتا اور پوری طرح چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔
شاہین کی خوراک معصوم فاختہ کا گوشت ہے۔ وہ اپنی خوراک کھا رہا ہوتا ہے اور ہم اپنے آپ میں لرز جاتے یں۔ ایک دفعہ کسی بکری سے پوچھا گیا کہ ”مائی بکری! تو لاغر کیوں ہو گئی؟“ بکری نے اداس ہو کر جواب دیا ”تمہیں کیا بتاؤں میں نے خواب میں شیر کا جلوہ دیکھ لیا۔“ بس اتنی سی بات ہے۔ جس نے شیرہ کا جلوہ دیکھ لیا ،اس کی صحت خراب ہو گئی۔ دیکھنے والا ضرور متاثر ہوتا ہے۔
یہ سارا دبستان ایک ہی مالک کی ملکیت ہے۔ وہ ایک طرف ایسے ایسے ستارے بناتا ہے کہ انسان کے تصور سے بھی بڑے اور کہیں اتنی باریکیوں میں تخلیق ہوتی ہے کہ انسانی نظر کی مجال نہیں کہ الیکٹرون کے اندر ہونے والے جلووں کو دیکھ سکے۔
یہ ساری صنعت ایک ہی ذات کی صناعی ہے۔ ایک ہی جلوہ ہے جو ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ کوئی انسان اس کے بغیر نہیں اور وہ ہر انسان کے علاوہ ہے۔
اسی سے سب کچھ ہے اور وہ کسی سے نہیں۔ وہ سب کا باعث ہے ،اس کا کوئی باعث نہیں۔ وہ قاسم ہے ،مقسوم نہیں۔ وہ کاتب ہے ،مکتوب نہیں۔ وہ خالق ہے ،مخلوق نہیں ،وہ مارتا ہے ،مرتا نہیں۔ وہ پیدا کرتا ہے ،وہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ وقت کا خالق ہے اور خود وقت سے باہر ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ خود ہی جانتا ہے۔ ہم قلیل علم رکھتے ہیں۔ اتنا علم جتنا اس نے عطا فرمایا۔
اس نے ہمیں جو بنایا ،سو بنایا۔ اس نے ہمیں جو کہا ،سو کہا۔ احسن تقویم سے اسفل السافلین تک ہمارے تمام مقامات ادھر سے ہیں۔ ہم تو صرف ظلوماً جہولا ہیں۔ ہم خود تو ”ہم“ نہیں ہیں… ہم تو اس کا شاہکار ہیں… ہمیں ناز بھی ہے… ندامت بھی… شرمندگی بھی ہے اور فخر بھی… ہمارا حاصل ہماری محرومیاں ہیں… ہم پھیلتے پھیلتے سمٹ جاتے ہیں… ہم چلتے چلتے رک جاتے ہیں… ہم ہنستے ہنستے رونے لگ جاتے ہیں… ہم الوداع کرتے کرتے رخصت ہو جاتے ہیں… ہم عجب لوگ ہیں۔
ہم پیمانے بناتے رہتے ہیں لیکن خود کو ماپنے کا وقت نہیں رکھتے… شاید حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ ہم آئینے بناتے ہیں… آئینوں میں خود نہیں جھانکتے۔ ہم توقعات رکھتے ہیں کہ لوگ ہمارے معیار پر پورا اتریں ،ہمارے تقاضوں کو پورا کریں لیکن ہم خود کسی کی خواہش پر پورا نہیں اترتے…
ہم اپنی خامیوں کو تقدیر بھی کہہ لیتے ہیں اور اپنی قسمت کو تو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ہم بھی عجب ہیں۔ ہمارے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہم ایک رات شبینے میں گزارتے ہیں۔ درود و سلام کی مجالس بپا کرتے ہیں۔ مراقبے اور سرور میں محویت تلاش کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے قریب ہوتاہے۔ ہم اللہ کے قریب ہوتے ہیں اور دوسری رات دوسری قسم کی رات ہوتی ہے۔ ہم لوگ لوک رس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم پر وجد بھی طاری ہوتا ہے۔ ہمارے پاؤں میں طبلے کی تال پر حرکت بھی ہوتی ہے۔
دھمال ہماری فقیری کا نشان ہے۔ ہم تضادات کا مرکب ہیں۔ 
ہمارے ظاہر اور باطن میں فرق رہتا ہے۔ ہم جن لوگوں کا نام ادب سے لیتے ہیں ،ان کی زندگی کو نہیں اپناتے۔ ہم صداقت کی تبلیغ کرتے ہیں اور عمل اپنی تبلیغ سے باہر ہوتاہے۔ غالباً نیکی اور اسلام کو صرف تبلیغ کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ کام کے وقت یعنی عمل کے وقت ہم رشوت لیتے اور دیتے ہیں۔
یہ بجا ہے کہ ہم میں سے کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ رشوت وصول کرکے کام نہ کرنے والا بس کالی بھیڑ ہے۔ سچ پوچھو تو ہم نے ایک اعلیٰ قوم بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ آخر کب تک خوابوں کے سہارے جیا جا سکتا ہے۔ اب ہم حقیقت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ یہ ملک ہمارے لئے بنا ہے۔ ہم اس کیلئے نہیں ہیں… ہم سب ایک دوسرے کو خدمت کے نام پر دھوکا دیتے ہیں۔
ہم کاریگر ہیں۔ ہم خود کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ آنے والے خطرات کو ہم آناً فاناً آنکھیں بند کرکے ٹال دیتے ہیں۔ ہم شاید الٹی گنتی کرنے والے ہیں… ہم کیا کرنے والے ہیں…؟
لیکن ایسے نہیں۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ ابھی ٹمٹماتے ہوئے چراغوں میں کچھ تو باقی ہے۔ ابھی امید ختم نہیں ہوئی۔ آواز آ رہی ہے کہ مایوس نہ ہونا ۔انتشار ختم ہو جائے گا۔
آرزوؤں کا ہنگامہ دور ہو جائے گا۔ ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ جیسے اندھیرے میں دو فوجیں ٹکرا رہی ہوں۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا ہو رہا ہے۔ کون ہے جو سیاہی گھول رہا ہے۔ کون ہے جو انسان کو انسان سے دور کر رہا ہے۔ کون ہے جو استعداد سے زیادہ بوجھ ڈال رہا ہے۔ کون ہے جس نے اس قوم کو خدا کے خوف سے زیادہ غریبی کے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ صرف غور کرنے کی بات ہے۔
موت سے پہلے انسان مر نہیں سکتا اور وقت مقررہ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب یہ مان لیا کہ موت کا وقت مقرر ہو چکا ہے تو پھر ہی ہنگامہ کیا ہے۔ انسان کے ایمان کو کیا ہو گیا۔ بے مقصد قیام کی تمنا آخر کہاں پہنچائے گی اس قوم کو۔ مقصد نہ ہو تو زندگی کیا ہے؟ جب یہ معلوم ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے تو یہ ساری سیاست ،سارے اخبار ،سب پراپیگنڈہ ،یہ سب کیا ہے؟ یہ مناظرے ،یہ مقابلے ،یہ مباہلے اور یہ مجادلے کیا ہیں؟ ہر چیز کو عزت کے ساتھ رہنے دیا جائے تو اپنی عزت بھی قائم رہتی ہے۔
ساتھ والے مکان میں ہونے والے واقعات ہم کو متاثر نہیں کرتے۔ ہمارے ساتھ ہونے والے واقعات سے کون متاثر ہوگا۔
جب یہ معلوم ہو چکا کہ رزق مقرر ہو چکا۔ ہر ذی جان مخلوق کا رزق اللہ نے اپنے ذمہ لگا رکھا ہے… اب یہ بے چینی کیا ہے؟ یہ قرضہ جات کیا ہیں؟ یہ سود اور منافع کیا ہیں؟ اللہ کا واضح ارشاد ہے کہ زمین پر جو بھی مخلوق ہے ،اس کا رزق اس کے پاس ہے اور اللہ خزانوں کا خالق ہے ،خزانوں کا مالک ہے۔
زمین و آسمان کے خزانے اس کے اپنے ہیں۔ زمین و آسمان کے لشکر اس کے اختیار میں ہیں۔ وہ جو چاہے جیسے چاہے ،کرے… ہم اور ہماری سوچ بس اپنے بے دست و پا ہونے کے ثبوت ہیں۔
کیا انسان نے غور کرنا چھوڑ دیا کہ سارا ماضی سمٹ کے اتنا رہ گیا ،جتنا ہمارے علم میں ہے اور ہمارے علم میں آنے والا ماضی مختصر ہے اور ہمارے حال کی تمام مصروفتیں اسی ماضی کے حوالے سے ہیں۔
ہماری عقیدتیں ،ہمارا دین ،ہماری عبادتیں ماضی میں دیئے گئے منشور سے عبارت ہیں۔ ہماری تاریخ پرانی تاریخ سے ماخوذ ہے۔ ہمارا علم پرانے علم سے برآمد ہوا۔ ہمارا حال اور ہمارا ماضی صرف ایک ہی زمانہ ہے۔ ہمارا مستقبل ،جب تک وہ مستقبل ہے ،ایک واہمہ ہے ایک خواب ہے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے گا ،وہ مستقبل نہیں ہوگا۔ وہ حال ہوگا اور ”مستقبل حال ہوگا“ یہ عجب بات ہے۔
ماضی حال ہے ،مستقبل حال ہے اور حال بھی حال ہے۔ پھر ماضی کی عقیدت کیا ہے اور مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ یہی راز ہے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حال یادوں کا نام ہے ،منصوبوں کا نام ہے لیکن بات بہت قابل غور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو واقعہ ہو چکا ،جب مجھے اس کا علم ہوتا ہے تو میرے لئے وہ واقعہ ہو رہا ہوتا ہے۔ میرا ماضی سب دنیا کا ماضی ،میرے لئے حال ہے۔
گزرا ہوا واقعہ گزرتا ہی نہیں ہے۔ آج بھی ہم دن مناتے ہیں اور اس دن کو آج کا دن کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ کل کا دن تھا۔ کچھ راتوں کو ہم آج کی رات کہتے ہیں حالانکہ وہ کل کی رات تھی۔ کوئی دن جب دوبارہ ہی نہیں آتا تو دن منانے کی بات بہت ہی قابل غور ہے۔ کوئی تاریخی واقعہ کسی قیمت پر دوبارہ ویسے نہیں رونما ہوتا اس کی اہمیت کیا ہے؟
کچھ لوگوں نے گزشتہ کل میں کچھ فیصلہ کیا۔
متفقہ فیصلہ ،اس لئے وہ ہم تھا۔ اب اس اہمیت کو یاد رکھنے کی بجائے کیوں نہ متفقہ فیصلے ہی کر لئے جائیں۔ نئی اہمیت پیدا ہو جائے گی۔ تاریخ کو یاد رکھنے کے بجائے تاریخ بنانے کی فکر کرنا چاہئے۔ اسلام صرف روایت کا نام نہیں ،صرف احکام اور ارشادات کا نام نہیں ،مسلمانوں کے متفقہ عمل کا نام بھی اسلام ہے۔ پرانے مسلمان اور ہم مسلمان ایک ہی مسلمان ہیں۔
ان کا کعبہ ہی ہمارا کعبہ ہے۔ ان کے زمانے کا قرآن ہمارے ہی قرآن ہے۔ وہ اللہ یہ اللہ ہے۔ ہر وہ چیز جو موجود تھی ،موجود ہے۔ اگر روح قائم ہو جائے تو وجود ضرور قائم ہو جائے گا۔ وجود کا ٹوٹنا روح کے انتشار کا نام ہے۔
اگر حال محفوظ ہو جائے تو سارا مستقبل محفوظ۔ کیونکہ یہی عمل ہمیشہ رہے گا۔ اسی طریقے سے آئندہ طریقہ بھی بنتا ہے۔ اسی اسلام نے آئندہ کا اسلام بننا ہے۔
یہی کعبہ ہمیشہ کا کعبہ ہے۔ ہم غور کیوں نہیں کرتے۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ اسلام کا پرچار کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا بھی خوف رہتا ہے کہ ہم پر بنیاد پرستی کا الزام نہ آئے۔ اگر اسلام پرستی کو بنیاد پرستی کہا جائے اور حق پرست کو بنیاد پرست کہہ لیا جائے تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس کی تردید کر دی جائے۔
ہم نے اس بات پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور ہمیں کہاں سے جانا ہے اور ہمارے ذمہ کیا کام ہے۔
ہم صرف ہنگامے کرنے والی قوم بن گئے ہیں۔ ذرا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ مشرق اور مغرب دو مختلف سمتیں نہیں ہیں۔ یہ ایک ہی سمت ہے۔ ہر مقام بیک وقت مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ ہر مقام اعلیٰ بھی ہے اور ادنیٰ بھی۔ سورج نہ کہیں سے نکلتا ہے اور نہ کہیں ڈوبتا ہے۔ رات دن ہمارے اپنے نام ہیں۔ غم خوشی ہمارے اپنے نام ہیں۔ نہ ہمیں کوئی دیتا ہے نہ چھینتا ہے ۔
نہ ہم ماضی میں ہیں نہ مستقبل میں۔ ہم حال ہیں۔ سدا بہار حال۔ موت میں زندگی اور زندگی میں موت۔ غم میں خوشی اور خوشی میں غم۔ قرب میں بعد اور بعد میں قرب۔ وصال میں فراق اور فراق میں وصال کی لذتیں ہی ہمارا منصب ہے۔ ہم جتنا فاصلہ طے کرتے ہیں ،مرکز ہمارے ساتھ ہی طے کرتا ہے۔ کسی شے کا حاصل کرنا اس کے خیال کرنے سے ہے۔ منزلیں دوڑنے سے حاصل نہیں ہوتیں ،پروگراموں سے حاصل نہیں ہوتیں۔
 بس ٹھہر جاؤ اور نوازش کا انتظار کرو۔ نوازش ضرور ہوگی۔ حق والے کا حق ادا کر دو اور یہی تمہارا حق ہے۔ رونے والے کے آنسو پونچھو کیونکہ یہی تمہارا غم ہوگا۔ تیز چلنے والے کو روکو کیوکہ یہی تمہارے قافلے کا فرد ہے۔ سست رہنے والے کو محبت کے ساتھ تیز کرو۔ وہی معزز ساتھی ہے۔ محروم کی مدد کرو۔ مظلوم سے تعاون کرو۔ سب کی سب کے ساتھ نسبت ہے۔
سب لوگ ایک ہی لوگ ہیں۔ جو ایک نے کھویا ،وہی دوسرے نے پایا۔ یہ نہ پوچھو کہ وہ حق سے کیوں محروم ہوا۔ تم یہ دیکھو کہ تم نے حق سے زیادہ کیوں حاصل کر لیا۔ تیرا حاصل ہی اس کی محرومی بن گیا۔ اپنے حاصل کی ترتیب نو اور تقسیم نو کرو۔ اپنی وضاحتوں کو واضح کرو۔ اپنے ہونے کو نہ ہونے سے پہلے اس وقت سے بچاؤ کہ تم کسی اور طاقت کے سامنے جوابدہ کر دیئے جاؤ گے۔
ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کا گواہ کوئی بھی نہ ہو تو ہم اپنے گواہ خود ہیں۔ ہم اپنے آپ کو خود ہی تباہ کرتے ہیں اور عروج کی تمنا میں ہم زوال میں جا گرتے ہیں۔
اس زمین پر ہونے والا یہ سفر ہمارا پہلا سفر ہی درحقیقت ہمارا آخری سفر ہے۔ جو ہو رہا ہے۔ پہلی بار لیکن آخری بار۔ احتیاط سے ،غور کے ساتھ ،منشا کو پہچان کر ،بنانے والے کی مرضی کے مطابق سفر کو جاری رکھنا چاہئے۔
ہم سے پہلے آنے والوں نے راستے پر نشانات چھوڑے ہیں۔ وہ ہمارے لئے ہیں کیونکہ ہم سے پہلے ہونے والا سفر بھی ہمارا ہی سفر ہے۔ ہماری غلطی سے سب پر الزام آئے گا۔ ہم تابدار ہوں گے تو سارا اسلامی سفر سب مسافر روشن ہوں گے۔ ہمارے دامن پر لگنے والا داغ سب کی ندامت کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم سب سے ہیں اور سب کیلئے ہیں۔ اپنے آپ کو اپنے لئے اور اپنوں کیلئے محفوظ رکھنا چاہئے اور اپنوں کو اپنے لئے اور سب کیلئے زندہ رکھنا چاہئے اور سب اپنے ہیں۔
ان کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے والے اپنے بھائی ہیں اور کلمے کی وحدت میں پائے جانے والے لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں۔ بھائیوں کے ساتھ برابر کا سلوک ہونا چاہئے۔ یہ کلام ،اللہ کا کلام ،کلام مجید ،جو ایک ذاتﷺ پر نازل ہوا ،سب کیلئے ہے۔ ماضی ،حال ،مستقبل کے مسلمانوں کیلئے۔ اس کا خطاب ہر زمانے سے آزاد۔ اس کے مطابق کیا ہوا عمل ہر زمانے کیلئے مفید ہے۔ ہمارا خدا اور ہمارے خدا کی محبت ہر زمانے میں حی و قیوم ہے۔ دریافت کرنے کی بات ہے۔ آج بھی ذوق یقیں میسر آ جائے تو۔
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
یہی تو ایک بہت بڑا راز ہے اور جس نے اس راز کو سمجھ لیا وہ مر گیا اور جو نہ سمجھ سکا وہ مار دیا گیا۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif