Episode 37 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 37 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

بیزاری
انسان نے انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگ اس کی نگاہ سے گر گئے اور وہ خود انسانیت سے گر گیا… آج کا انسان اپنے علاوہ کسی کو کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں۔ وہ صرف ایک حقیقت ماننے کو تیار ہے… اپنا وجود… اس کی نظر میں باقی مخلوق غیر اللہ ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو معتبر مانتا ہے… ایسے عقیدے کا بھی کیا اعتبار…
آج ہر آدمی ہر دوسرے آدمی سے بیزار ہے۔
دراصل خود پسندی اور خود پرستی کا منطقی نتیجہ بیزاری ہے… جس آدمی سے جو بات کرو ،الٹا ہی جواب ملے گا۔ فرد افراد سے بیزار ہے ،طبقہ طبقوں سے حکومت رعایا سے تنگ آ گئی ہے… رعایا حکومت سے اکتا چکی ہے۔ رشتے اذیت بنتے جا رہے ہیں… خون کے رشتے خونی رشتے بنتے جا رہے ہیں… بڑوں نے چھوٹوں پر مصیبت ڈالی ہوئی ہے ،چھوٹے بڑوں کیلئے عذاب بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

عقیدہ معتقدوں اور معتقد اپنے عقیدے سے علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ سورج اپنی کرنوں سے بیزار ہے اور کرنیں اپنا سورج چاٹ رہی ہیں۔
عجب بات ہے۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے اور پروگرام ختم نہیں ہوتے… ہونی ہوتی نہیں اور انہونی ہوتی جا رہی ہے۔ وقت کے حساب سے رات رخصت ہو چکی ہے، لیکن سورج ابھی تک نہیں نکلا۔ سفر ختم ہو گئے ،لیکن منزلیں نظر نہیں آتیں۔
مسافر ختم ہو گئے ،لیکن مسافرت باقی ہے۔ عجب حادثہ ہے ،انسان چلتے چلتے مٹ گیا۔ مگر فاصلہ نہیں مٹتا۔ دوست دوستوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ دشمن دشمنوں سے مل رہے ہیں۔ وفا کو حماقت سمجھا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ اس میں دوسروں کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
آج کے دور کیلئے ”تسلیم“ کا لفظ ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے… کوئی شعبہ اپنی کسی غلطی کو نہیں مانتا… دوسروں کی کسی خوبی کو ماننا تو جیسے عذاب ہو… اور نتیجہ یہ ہے کہ سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
تبلیغ زوروں پر ہے ،تسلیم کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ نئی عبادت گاہیں بن رہی ہیں۔ بڑے بڑے فانوس معلق ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور لاؤڈ سپیکر نصب ہیں۔ روح عبادت ہی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ وقت ہی کچھ ایسا ہے۔ اللہ کی عبادت کرنے والے اللہ کی مخلوق سے بیزار ہیں۔ یعنی اللہ سے پیار ہے اور اللہ کے کام سے ،اس کے آرٹ سے ،اس کے فن سے ،اس کی مخلوق سے یہ لوگ بیزار ہیں۔
اللہ انسان پیدا کرتا ہے ،انسانوں سے پیار کرتا ہے اور یہ لوگ عبادت کے بہانے انسانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ سے زیادہ اپنی عبادت سے پیار ہے۔ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔
ابلیس خدا سے پیار کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس کی عبادت کرتا تھا ،لیکن اس کا حکم ماننے سے انکار کر گیا۔ اس نے تکبر کیا ،کفر کیا۔ اس لئے کہ اسے انسان کی اہمیت کا شعور حاصل نہیں ہوا۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسے مصور سے پیار ہے ،لیکن اس کی بنائی ہوئی تصویروں سے پیار نہیں تو اس شخص کو کیا کہا جائے۔
یہ کائنات اور اس کی تمام رعنائیاں ،اس کے چاند ،ستارے ،سورج ،پہاڑ ،میدان ،دریا ،سمندر ،بادل ،انسان ،حیوان ،چرند پرند ،ظاہر مخفی مخلوق ،اس کے جمادات، نباتات سب خلق کا عمل ہے اور خالق کا ہر عمل خالق کی طرح محترم اور معزز ہے۔
عقیدے اور اعتقادات انسانوں کو مزید انسان بنانے میں کام آتے ہیں لیکن انسان ہونا شرط ہے۔ ہم شاید انسان ہونے سے ،انسان بنے رہنے سے بیزار ہیں۔ ہم ہر چیز سے بیزار ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ ہمارے پاس نہ تلاش ہے نہ حاصل… یہ بیزاری انسان کی روح تک آ پہنچی ہے اور یہی معاشروں کی تباہی کا باعث ہے۔ اس بیزاری کی وجہ سے ہر آدمی ایک خوفناک تنہائی کا شکار ہے۔
ایک دور تک پھیلے ہوئے صحرا میں تنہا مسافر کی تنہا رات کی طرح۔ ہم جب تک دوسروں کو قبول نہیں کرتے ،ان کا احترام نہیں کرتے ،ان کو خالق کی مخلوق کے طور پر عزت سے نہیں دیکھتے ،تب تک ہمیں بات سمجھ میں نہیں آ سکتی۔
آج کی بیزاری کا یہ عالم ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا ”بھئی تم نے وہ کہانی سنی ہے۔“ دوسرے نے بیزار ہو کر جواب دیا ”نہیں میں نے دوسری کہانی سنی ہے۔
“ اور یوں بات کو وہیں دفن کر دیا۔ کسی زمانے میں لوگ موسم کا حال بیان کرکے ایک دوسرے کے حالات جان لیتے تھے۔ ایک دوسرے سے تعارف کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے تھے۔ لیکن آج کوئی انسان کسی انسان کے قریب آنا چاہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خطرہ خطرے کے قریب آ رہا ہے۔
استاد شاگردوں سے بیزار ہیں اور شاگرد اساتذہ ہے… علم کی تمنا ختم ہو گئی ہے۔
لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن علم کے قریب نہیں جاتے۔ پیشہ ور تعلیم کی تمنا نے انسانوں کے درمیان بڑے فاصلے پیدا کر دیئے ہیں۔ انسان مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر مریض کے مال سے محبت کرتے ہیں اور مریض کی ذات سے بیزار ہیں۔ مریض ڈاکٹروں سے تنگ ہیں لیکن بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑی رونقیں ہیں۔
انسان کو انسان سے کوئی پیار نہیں۔ مال کی محبت نے انسان سے انسانوں کی محبت چھین لی ہے۔
ترقی کی انتہا یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں تباہ کن ایجادات کر چکی ہیں۔ زمین اور آسمان خطرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ خطرہ صرف انسان کیلئے ہے۔ انسان کا وجود خطرے میں ہے۔ قومیں قوموں سے بیزار ہیں۔ ملک مال سے۔ اس بیزاری نے روس کو کیا دن دکھائے ہیں۔ کتنا بڑا عروج اور کتنا بڑا زوال… امریکہ اب تمام قوت اور خود فریبی کے باوجود اس قسم کے خطرے اور حالات سے دوچار ہے۔
غرور اور انسانوں سے بیزاری انسان کو آخر برباد کر دیتے ہیں۔ مغربی تہذیب اپنے سفر کے شاید آخری حصے میں پہنچ گئی ہے۔ یہ آشیانہ اپنے ناپائیدار ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہے۔
اب بھی دنیا کی امید اور انسان کے مستقبل کا امکان تہذیب مشرق میں ہے۔ مادہ پرستی نے انسانوں میں بیزاری پیدا کی۔ ایک روحانی زندگی ہی اس بیزاری کا علاج ہے۔ ابھی مشرق میں کچھ چراغ جل رہے ہیں۔
روشنی باقی ہے۔ لوگ روح کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مادہ پرستی کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس مقام پر ہر ذی ہوش آدمی کا فرض ہے کہ وہ غور کرے۔ دولت سے محبت کی بیماری سے شفا پائے۔ انسان سے محبت کا آغاز کرے۔ دلوں میں پیدا ہونے والے فاصلوں کو کم کرے۔ خدا سے محبت اور اس کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بنائے ہوئے انسانوں سے پیار کرے۔
جب تک انسان انسان کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا ،وہ سکون اور چین میں داخل نہیں ہوگا۔
یہ کائنات بہت مربوط ہے۔ اللہ نے ایک انسان کو آنکھ عطا کی ہے تو دوسرے کوخوبصورت چہرہ عطا فرمایا ہے۔ جب تک یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے کے قریب نہ ہوں ،جلوہ پیدا نہیں ہوتا ،بس آئینہ ،آئینے کے سامنے ہو تو نظارہ ملتا ہے۔ حسن تخلیق یہ ہے کہ قوت سماعت اپنی قوت سماعت محتاج ہے ،قوت گویائی کی۔
دوسروں کی قوت گویائی۔ یہ دوسرے لوگ بہت اہم ہیں ،اپنے لئے۔ اپنے ہونے کیلئے۔ یہ نہ ہوں تو ہم کیا ہیں۔ جاننے والے بزرگ کہتے ہیں کہ آج کل عالم یہ ہے کہ کفر بھی ”اپنی صداقت“ چھوڑ چکا ہے اس لئے اسلام میں بھی وہ جذبہ نہیں پیدا ہو رہا۔
اپنے اپنے مقام پر ہر چیز بدلتی جا رہی ہے۔ تعمیر اپنی بنیادوں سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ صاف ہے۔
اس بیزاری کو دور کرنے کا طریقہ سوائے احترام آدمیت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ جو لوگ خدا سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور مخلوق خدا سے بیزار ہیں ،ان لوگوں نے اس بیماری کا آغاز کیاہے۔ ہم سب ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر غالب آنا چاہتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے محبت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔
حالانکہ ہم سب ایک ہی ہیں۔ ایک خالق کا عمل… ایک طرح سے زندگی میں داخل ہونے والے… ایک جیسا سفر کرنے کے بعد ایک جیسی موت چکھنے والے… ایک دوسرے سے بیزار کیوں ہیں؟ مسافروں کے درمیان مسافرت کے دوران کیا جھگڑا اور کیا بیزاری؟ اپنے دین اور اپنے عقیدے پر چلتے جائیں اور اس سعادت سے محروم ہونے والوں کی خدمت کرتے جائیں تو شاید ایک اچھا وقت قریب آ جائے۔
ایک دفعہ جب حضور اکرمﷺ لوگوں کو وضاحت فرما رہے تھے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کی کیا اہمیت ہے تو ایک صحابی نے عرض کیا ”یا رسول اللہﷺ! کیا غیر مسلم کو بھی کھانا کھلانا ثواب کا باعث ہے۔“ آپﷺ نے سختی سے فرمایا ”بھوکے انسان کو کھانا کھلانا ہے ،بھوکا تو بس بھوکا ہی ہے۔ مسلمان ہو خواہ یہودی۔ جہاں کوئی انسان بھوکا ہو اس کو کھانا کھلایا جائے۔
آج ہم دیکھتے ہیں اگر کوئی غریب دوائی کیلئے پیسے کا سوال کرے تو ہم اس سے کہتے ہیں کہ پہلے تیسرا کلمہ سناؤ۔ ضرورت دوائی کی ہے۔ وقت تبلیغ کا نہیں ہے۔ تبلیغ کیلئے لاؤڈ سپیکر دن رات بول رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکروں پر ٹیپ ریکارڈ بول رہے ہیں۔ شور پر شور مچا رہے ہیں۔ وقت بے وقت سب کچھ کہا جا رہا ہے۔ انسان کو اتنا کچھ سننے کو مل رہا ہے بس خدا کی پناہ۔
مسجدوں میں تبلیغ ،جلسوں میں تبلیغ ،شادی میں تبلیغ ،نماز جنازہ پر تبلیغ ،ہر آدمی ہر دوسرے آدمی کو تبلیغ کر رہا ہے۔ اتنی آوازیں سن کر انسان کے پاس سوچنے کا وقت نہیں اور عمل کا وقت اور بھی مشکل ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ انسان انسان کے قریب آ جائے اور ایک متفقہ لائحہ عمل کے ذریعے قوم کو سکون کی منزل کی طرف گامزن کر دیا جائے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ قوم حزب اقتدار اور حزب مخالف میں تقسیم رہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ زندہ باد اور مردہ باد کے علاوہ اور کچھ نہ کیا جائے؟ کیا بیزاری سے بچت کی کوئی راہ نہیں؟
یہی وقت دعا ہے کہ اے اللہ ہم سب پر رحم فرما۔
ہمیں خود پسندی کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ تو ہر لحاظ سے اپنی قدرتوں سمیت اکمل و اعلیٰ ہے۔ تیری بنائی ہوئی ہر چیز ایک مصلحت رکھتی ہے اور سب سے خوبصورت مخلوق انسان ہے۔ اے اللہ ہمیں انسانوں کی عزت کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں دوسروں کی حقیقت ماننے کا جذبہ دے۔ جو لوگ میرے اعتقاد پر نہیں چلتے ،وہ ایک اپنی حقیقت رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق دے۔
جو لوگ ہمارے خلاف بولتے ہیں ،ان کی بات تحمل سے سننے کا حوصلہ عطا فرما اور وہ جو ایک اچھے وقت کے انتظار میں بیٹھے ہیں ،ان کے حسن انتظار کو ایک کامیاب منزل عطا فرما۔ وہ دور نصیب کر دے ہم تیری عبادت کریں اور تیرے بندوں سے محبت… سورج اپنی کرنوں سے بیزار نہ ہو اور کرنیں اپنے سورج کو چاٹ نہ لیں۔ لوگ جس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں اس کا سایہ چرا کر غائب نہ ہو جائیں۔ مروت اور محبت کے زمانے نازل فرما۔ ہمیں مال ،شہرت اور اقتدار کے نشے کی بجائے سکون ،مروت ،محبت اور خدمت کے جذبات سے نواز دے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif