Episode 38 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 38 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

معلوم اور نامعلوم
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے… اور مغرب میں غروب ہوتا ہے… سورج ڈوب جائے تو رات آ جاتی ہے… تاریکی اپنے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے… اور پھر صبح ہوتے ہی وہی عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے…
سب جانتے ہیں کہ سورج اور زمین کے مدار کی نسبت سے موسم بدلتے ہیں، بہار میں پھول کھلتے ہیں ،خزاں میں پت جھڑ ہوتی ہے ،ایک خاص موسم میں پرندے ایک خاص انداز سے آشیانے بناتے ہیں ،بڑے بڑے خوبصورت آشیانے اور پھر آشیانے خالی رہ جاتے ہیں اور پنچھی اڑ جاتے ہیں… کسی نامعلوم منزل کی طرف…
کون نہیں جانتا کہ آسمان سے نور نازل ہوتا ہے ،حسن اترتا ہے ،روشنی آتی ہے اور بارشیں ہوتی ہیں۔
بارش اور روشنی نہ ہو تو زمین ،زمین نہ رہے۔ سب جانتے ہیں کہ زمین کا حسن آسمان کی عطا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ روشنی کے اس عظیم پھیلاؤ کے باوجود کچھ مقامات ازل ہی سے تاریک چلے آ رہے ہیں… یوں؟ ابر رحمت برستا ہی چلا جاتا ہے اور کچھ لوگ بوند بوند اور قطرے قطرے کو ترستے ہی رہتے ہیں۔ ایک کھیت میں جل تھل ہوتا ہے اور ساتھ والا بے آب عذاب سے جل جل جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟
ایک خاص مقرر شدہ لمحے میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک اتنے ہی خاص اور مقرر شدہ لمحے میں مر جاتی ہے۔ آدمی مر جاتے ہیں اور زندگی پھر بھی زندہ رہتی ہے۔ یہ کیا راز ہے؟ایک بچہ پیدا ہوتے ہی حسرتوں اور مایوسیوں کی گود میں ڈال دیا جاتا ہے اور دوسرا بچہ… فراوانیوں سے کھیلتا ہوا ،زندگی کے درد اور کرب سے نا آشنا پروان چڑھا دیا جاتا ہے۔
انسان برابر ہیں لیکن معلوم نہیں کہ کیسے برابر ہیں۔ 
ہم نے تو موت کے یکساں عمل کے باوجود قبروں کو یکساں حالت میں نہیں دیکھا۔ ایک مزار پر تو ہجوم عاشقاں نے میلے لگا رکھے ہیں اور دوسرا مزار تو ”مزار غریباں“ ہی رہتا ہے۔ یہ کیا راز ہے کہ آباد اور مہذب اور متمول شہروں کے اندر خانہ بدوشوں کے پھٹے ہوئے خیمے موجود ہوتے ہیں… یہ کیا بات ہے کہ میڈیکل سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے اور ہسپتالوں میں مریض بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
انسان قہقہے لگاتے لگاتے کراہنے لگ جاتا ہے… معلوم عمل میں نامعلوم عمل شروع ہو جاتا ہے۔
یہ تو معلوم ہے کہ بچے ایک جیسے ہوتے ہیں ،ساخت کے اعتبار سے۔ لیکن ایک گھر میں پلنے والے جڑواں بھائی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ احساس مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایک انسان شعر کہنے لگ جاتا ہے اور دوسرا ،ہمیشہ دوسرا ہی رہتا ہے۔ یہ کیا کرشمہ ہے کہ ایک لقمے سے خون بھی بن جاتا ہے ،ہڈیاں بھی ،بینائی بھی ،رعنائی خیال بھی… اور حسن و جمال بھی… لقمے سے کیسے کیسے کرشمے پیدا ہوتے ہیں… کیوں؟
بے رنگ زمین میں ہم بے رنگ بیج بوتے ہیں ،اسے بے رنگ پانی دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد اس سے رنگ رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔
وہی پانی پتوں میں سبز ہو جاتا ہے اور گلاب میں سرخ… کیا پانی ،بیج اور مٹی اپنا خاص شعور رکھتے ہیں؟
آج بھی اسی بے جان زمین میں جب کوئی مردہ بطور امانت دفن کیا جائے تو وہ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میت کے پھول تک نہیں مرجھاتے… کیا زمین سماعت بھی رکھتی ہے؟سب جانتے ہیں کہ گائے ایک خوبصورت جانور ہے… مسلمان اس کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔
ہندو اس کی پرستش کرتے ہیں۔ گائے دودھ دیتی ہے ،سب کو معلوم ہے۔ دودھ کی افادیت… دودھ کو لوگ نور بھی کہہ لیتے ہیں۔ گائے کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے ،لیکن اتنا کچھ معلوم ہونے کے بعد بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ دودھ کی نہر کیسے جاری ہوتی ہے۔ پاکیزگی ہی پاکیزگی… نور ہی نور… صحت ہی صحت… یہ سب کیسے ہے؟
اور تو اور ایک معمولی سی مکڑی کو لیں ،جو مٹی نگلتی ہے اور مٹی اگلتی ہے، لیکن اس اگلنے والی مٹی سے ریشم کی ایک تار کا نکلنا اور پھر اس تار کے ذریعے ایک ایسا خوبصورت جالا بننا جو جیومیٹری کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔
خوبصورت اور دیدہ زیب۔ یہ اس کی فطرت ہے ،لیکن اتنی خوبصورت کہ بیان سے باہر اور اسی مکڑی کے جالے کے حوالے سے تاریخ اسلام کا ایک عظیم واقعہ کہ مکڑی کے جالے نے ایک عظیم ترین زندگی کے محفوظ رہنے کا جواز بنایا اور اسی کمزور جالے سے ایک قوی دلیل برآمد ہوئی۔ یہ سب کیسے ہے؟
ہم نے دیکھا کہ ایک مکھی پھولوں سے رس اکٹھا کرتی ہے اور پھر ایک نامعلوم عمل کے ذریعے اس سے شہد بناتی ہے۔
ایک قیمتی اور عظیم خوراک ،جس میں لوگوں کیلئے شفا لکھ دی گئی ہے۔ یہ سب کیسے ہے؟ مکھی کو ،ایک ان پڑھ مکھی کو ،اتنی بڑی تعلیم کہاں سے ملی کہ بڑے بڑے معلم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسے کس نے سکھایا؟
ہم سب کو معلوم ہے کہ ایک معمولی سا پانی کا قطرہ ایک بے جان سیپ کے باطن میں اتر جاتا ہے اور پھر وہی سیپ اس میں جان ڈالتی ہے اور اس قطرے کو ایک ایسے انوکھے اور نرالے عمل سے گزارتی ہے کہ وہی معمولی قطرہ ایک گوہر تابدار بن جاتا ہے۔
سیپ میں شعور مخفی رکھا گیا ہے؟ یہ بجا ہے کہ سائنس نے موتی کلچر کئے ہیں ،لیکن صراف کے پاس جاتے ہی قلعی کھل جاتی ہے۔ نقل دو کوڑی کا اور اصل دربے بہا۔ میاں محمد نے کیا خوب فرمایا ہے#
کچ وی منکاتے لعل وی منکا اکو رنگ دوہاں دا
جد جاون صرافاں کول اے فرق ہزار کوہاں دا
(اصل اور نقل کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے ،لیکن جاننے والے کی نگاہ میں ان میں ہزار ہا میلوں کے فاصلے ہوتے ہیں)
ہم علم رکھتے ہیں کہ محنت سے انسان کو مقصد حاصل ہو جاتا ہے ،لیکن یہ نہیں معلوم کہ تمام محنتیں کیوں بار آور نہیں ہوتیں۔
کامیاب لوگ بھی محنت کرتے ہیں اور ناکام بھی۔ امیر محنت کرتے ہیں اور غریب اس سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ غریب رہتے ہیں۔ کیا کوشش کے علاوہ کوئی اور عمل بھی انسان پر کارفرما ہے؟ کیا اسے نصیب کہتے ہیں؟ نصیب کیوں ہوتا ہے؟ انسان اپنے نصیب سے کیوں باخبر نہیں ہوتا؟ کیا نصیب ظالم بھی ہو سکتا ہے؟ یہ معلوم نہیں۔
ساکن فضاؤں میں خاموش زندگی کے دوران اچانک زلزلے کا ہنگامہ کیا ہے؟ بستیاں زیر و زبر ہو جاتی ہیں۔
پختگیاں تہہ و بالا کر دی جاتی ہیں۔ ہنسنے والی زندگیاں بے سبب ہی ملبے تلے دب کر مر جاتی ہیں۔ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ پہاڑ ،خاموش پہاڑ ،پتھروں کے ڈھیر کب سے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی حقیقت کیا ہے۔ پتھر ہیں لیکن ان پتھروں کے درمیان عجب کھیل ہوتا ہے۔ پانی ہے ،آگ ہے اور مٹی ہے۔ مٹی میں ملی ہوئی دھاتیں ہیں۔ سونا ،چاندی ،تانبا ،غرضیکہ ہر طرح کی قیمتی دھاتیں۔
یہ بے نام سے پہاڑ پتھروں کا ڈھیر اپنے اندر ،اپنے پہلو میں ،بیش بہا قیمتی خزانے لئے بیٹھے ہیں۔ لکڑی کے نہ ختم ہونے والے خزانے،معدنیات کے نہ ختم ہونے والے ذخیرے ،سنگ سرخ ،سنگ سیاہ اور سنگ مر مر… خزانے ہی خزانے۔ نہ ختم ہونے والے سٹور کہیں نمک کی نہ ختم ہونے والی کان اور کہیں کوئلے کے ذخیرے… اور حیران کن بات کہ انہی کوئلوں کے ذخیروں کے آس پاس بیش بہا قیمتی ہیرے پائے جاتے ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ چمکتے دمکتے ہیرے دراصل کاربن ہی کی ایک شکل ہے۔ کاربن کو یہ خوبصورت شکل اختیار کرنے کا شعور کیسے مل گیا؟ انسان عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا۔
ہمیں معلوم ہے کہ سمندر گہرے اور وسیع پانی کا پھیلاؤ ہے ،لیکن اس وسیع پھیلاؤ کے اندر جانے والے نے عجیب و غریب کرشمے دریافت کئے ہیں۔ جن کو دیکھ کر انسان عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ان سب کرشمہ کاریوں کی وجہ سائنس معلوم نہیں کر سکی۔
انسان کو یہ تو معلوم ہے کہ ایک چھوٹی سی آنکھ پل بھر میں بے شمار مناظر دیکھ سکتی ہے۔ زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا سلسلہ آنکھ کی دسترس میں ہوتا ہے۔ انسان کی بینائی کیا کچھ نہیں دیکھتی لیکن انسان اگر اپنی بینائی کو دیکھنا چاہے تو وہی بے بسی ،لاعلمی۔
ہمیں معلوم ہے کہ جو ادوار اور جو زمانے ختم ہو چکے ہیں ،وہ ختم ہو گئے۔ جو گزر گئے وہ گزر گئے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ختم ہونے والا ختم ہی نہیں ہوتا۔ ختم ہونے والے واقعات ہماری تعلیم کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ تعلیم موجودہ زمانے کا علم کہلاتی ہے۔ گویا ناموجود زمانہ موجود زمانے کا علم ہے۔ ایک طرف ہمارا مشاہدہ ہمارا علم ہے اور دوسری طرف ہمارا مطالعہ ہمارا علم ہے اور کبھی کبھی ہمارا غور اور ہمارا مراقبہ بھی ہمارا علم ہوتا ہے۔
اگر گزری ہوئی شے کو اور گزرے ہوئے زمانے کو یکسر نکال دیا جائے تو ہمارے علم کے پلے کیا رہ جاتا ہے۔ تمام ادب ،تمام فلسفہ ،تمام تاریخ ،تمام عمرانیات اور تمام مذہیات اور سیاسیات بھی اپنے مفاہیم اور معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارا دین عہد گزشتہ کی تعلیم سے ماخوذ ہے۔ ہمارے عقیدے عہد گزشتہ سے متعلق ہیں۔ ایک جلیل القدر پیغمبر نے خواب دیکھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا۔ آپ نے اپنے فرزند سے خواب بیان کیا۔ آداب فرزندی سے آشنا بیٹا بولا ”آپ وہ کریں ،جو آپ کو حکم ہوا۔“ بیٹے کو لٹایا گیا۔ چھری چلائی گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے بیٹے کی جگہ ایک دنبہ پایا گیا۔ چلو یہ واقعہ تو ہوا سو ہوا۔ بہت قدیم زمانے کا واقعہ ہے ،لیکن یہ واقعہ آج تک ہوتا جا رہا ہے۔
اسی واقعہ کی یاد میں آج تک قربانی ہو رہی ہے۔ یہ ماضی کیوں نہیں ماضی ہوتا؟ بھولا ہوا دور کیوں نہیں بھولتا؟ گزر ہوا زمانہ کیوں نہیں گزرتا؟ رلانے والے صدمات گزر گئے لیکن وہ ابھی تک کیوں رلاتے ہیں؟ کربلا کا واقعہ بہت پرانا ہے ،لیکن کربلا ہر دم تازہ ہے۔ کون ہے جو ماضی کو حال بنا رہا ہے؟ وہ نظر کے سامنے ہے ،وہ بھی ہمارا اپنا اور جو نظر کے سامنے نہیں ہے ،وہ بھی ہماری نگاہ میں ہے۔
یہاں تک کہ آنے والے زمانے بھی کچھ لوگوں کی نگاہوں میں ہوتے ہیں۔ کوئی انسان قدسیوں کے پاس پہنچ جاتے ہے اور ان سے سنتا ہے کہ وہ خاص راز آشکار ہونے والا ہے۔
وہ راز کیا ہے جو بیان ہوتا جا رہا ہے اور آشکار نہیں ہوتا۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ ایک راز ہے لیکن راز کیا ہے؟ اس سے سب بے خبر ہیں کیونکہ وہ تو ابھی آشکار نہیں ہوا۔ سب کہتے ہیں کہ بہت جلد کچھ ہونے والا ہے ،لیکن کیا؟ اس بارے میں سب خاموش ہیں۔
ہماری زندگی ماضی اور مستقبل کے بارے میں غور کرتے گزر جاتی ہے یعنی حال ،ماضی اور مستقبل کے بے ہنگم سنگم میں رہتا ہے۔ ہم آزاد ہونے کے باوجود اتنے بے بس کیوں ہیں کہ ہم نہ ماضی سے نجات پا سکتے ہیں اور نہ مستقبل کے خیال سے باہر نکل سکتے ہیں؟ کیا ہم جکڑ کر رکھ دیئے گئے ہیں؟ کیا ہماری آزادی اور نجات کی کوئی صورت نہیں؟ جو نہیں ہے ،ہمارے لئے تو وہی ہے۔ ماضی گیا ،ختم ہو گیا لیکن نہ جاتا ہے ،نہ ختم ہوتا ہے۔ مستقبل ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ،لیکن ہمارے ساتھ کون باتیں کرتا ہے؟ ہمارے خواب کون بناتا ہے؟ ہماری امیدیں ،ہمارے خدشات کون مرتب کرتا ہے؟
ہمیں اتنا کچھ معلوم ہونے کے باوجود کتنا کچھ معلوم نہیں… کیوں؟

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif