Last Episode - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

آخری قسط - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

آخری خواہش
آخری خواہش کے اظہار کا موقع بھی بڑے نصیب کی بات ہے اور اس موقع کے فراہم کرنے کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،میرے مالک! کہ تو نے مجھے ہوش عطا کئے رکھا ،اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم ہوتا رہا ،لیکن افسوس تو صرف یہ ہے کہ میں تیری نعمتوں کا بھرپور استعمال کرنے کے باوجود تیرے سامنے سجدہ ،شکر تو کجا، تیرے لئے کلمہ شکر تک ادا نہ کر سکا۔
میں بھی کتنا ناشکر گزار ہوں کہ تو مجھے مانگنے پر اور بن مانگے نعمتوں سے نوازتا رہا۔ میری زندگی کا تمام سرمایہ تیرے ہی کرم کا اظہار ہے۔ مجھے شعور بخشنے والے مولا! تو نے مجھے ظاہری باطنی بینائیوں سے نوازا۔ تو نے مجھے کیا کیا نہ عطا کیا۔ تو نے مجھے نیک بزرگوں سے وابستہ رکھا اور پھر وہی بات کہ میں اپنے آپ کو اتنا زیادہ اہل ثابت نہ کر سکا جتنا کہ شاید مجھے کرنا چاہئے تھا۔

(جاری ہے)

لیکن یہ کیا کہ میں تجھ سے ایسے ہی ہم کلام ہو گیا۔ لو میرے مالک! میں آنسوؤں سے وضو کرتا ہوں اور پہلے تیرے سامنے سجدہ بجا لاتا ہوں۔ یہ سجدہ تیری تسلیم کا سجدہ ہے ،تیری محبت کا سجدہ ہے ،تیری نوازشوں کا شکر کا سجدہ ہے اور اس بات کے اعتراف کا سجدہ ہے کہ میں تیری عبادت میں اپنی شرمسار پیشانی کو سجدوں سے سرفراز نہ کر سکا۔
میرے مالک! یہ وقت جو اس وقت مجھ پر آیا ،اس نے مجھے جہاں ایک طرف روشنی عطا کی ہے ،وہاں اس لمحے نے مجھے خوف زدہ کرنے کی بھی کوشش بھی کی ہے ،لیکن میں تیرے سامنے گزارش کرتا ہوں کہ اگر اسے غرور اور گستاخی نہ کہا جائے تو مجھے کچھ خوف نہیں۔
”حرف بے نیازی سرزد“ ہو رہا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ تیری رحمتوں پر بے انتہا بھروسہ ہے۔ اپنی ہستی میں یہ وجود اگرچہ خاکی ہے لیکن یہ مٹی تیرے کرم کے آسرے میں اپنے آپ سے بلند ہوتی جا رہی ہے۔
میرے اللہ! مجھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے معاف فرما دے۔ میں تیرے دربار میں سوائے ندامت کے چند آنسوؤں کے اور کچھ نہیں لا سکا۔ میرے پاس خجالت اور ندامت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انہی چند موتیوں کا حقیر نذرانہ پیش کرتا ہوں اور وہ بھی ایک ٹوٹے ہوئے پیمانے میں اور یہ ہمیشہ بار بار ٹوٹا ہے۔ تیرے آسمان کے تارے ایک ایک مرتبہ ٹوتے ہوں گے اور یہ سینکڑوں بار ٹوٹنے والا پھر تیری رحمتوں کے سہارے قائم ہے۔ بہرحال آج میں اعتراف کرتا ہوں ،کیونکہ اس وقت جبکہ دنیا کی نگاہ میں آخری وقت ہے ،میرے اور تیرے سوا اور کوئی نہیں۔
ایسی تنہائی مجھے زندگی میں پہلی بار نصیب ہوئی۔ ماضی کی تمام خواہشیں آج ندامتیں بن رہی ہیں اور مجھے یہ جان کر بہت ہی افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے کبھی کبھی تیرے دربار میں جو رو رو کے دعائیں کی ہیں ،وہ بھی حصول گناہ کیلئے ثابت ہوئیں۔ میرے اللہ! میں کیا کرتا رہا ہوں۔ میں نے تجھ سے دولت مانگی اور تو نے عطا فرمائی ،لیکن اسی دولت کے سہارے میں نے تیرے بندوں کو اذیتیں دیں۔
ان کی انا مجروح کی۔ ان پر زندگی کی آسانیاں کم کر دیں۔ میرے مالک! تیرا احسان میں نے تیرے ہی دربار میں تیرے ہی روبرو تیری بغاوت کیلئے استعمال کیا۔ کاش! میں اس وقت مر گیا ہوتا جب میں گناہ سے حاصل کی ہوئی دولت اور غریبوں یتیموں کے حقوق غصب کرنے سے حاصل ہونے والی دولت کے سہارے تیرے دربار میں آیا۔
میں نے بظاہر حج کیا ،لیکن تجھے معلوم ہے اور مجھے بھی یاد آ رہا ہے کہ اس حج میں تیری محبت شامل نہیں تھی ،یہ میری ایک سیاسی اور سماجی ضرورت تھی۔
مجھے بہت افسوس ہے کہ دین کے نام پر میں دنیا کے کاموں میں مبتلا رہا۔ کہیں میں نے دینی جماعت بنائی اور یہاں تک کہ ظلم کیا کہ میں نے اس میں ایسی ایسی باتیں کر دیں جو درحقیقت نہیں تھیں۔ میں نے فرضی مکاشفات بیان کرکے سادہ لوح انسانوں کو اپنی انا کی تسکین کیلئے متاثر کیا۔ میں نے بڑا ظلم کیا۔ میں نے جھوٹے خواب بیان کئے۔ میں نے فرضی مراقبے بیان کئے۔
میں نے جعلی مقامات پر اپنے آپ کو فائز بتایا۔ میں نے بڑا ظلم ہے اور ان باتوں پر مجھے کل تک خوشی تھی کہ میں نے لوگوں کو بے وقوف بنایا ،لیکن آج میرے مولا! تیرے دربار میں جھوٹ بولنے کی تو گنجائش ہی نہیں اور سچ بولتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے لیکن یہ آخری وقت کم از کم مجھے بیباکی ضرور عطا کر رہا ہے کہ میں اعلان کر دوں کہ ان تمام لوگوں کیلئے جو میرے طلسماتی بیانات کے جال میں پھنس گئے تھے۔
ان تمام لوگوں سے آج معافی چاہتا ہوں۔
لوگ کتنے سادہ لوح ہیں کہ کسی کے روحانی مقام کے بارے میں افواہیں سن کر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ کہیں کسی ڈبہ پیر کے دام میں آ جاتے ہیں ،کہیں کسی سپاہی پیر کے ،کہیں کسی کے فریب میں ،کہیں کسی کے فریب میں۔ حالانکہ تو نے یہ کھول کے بتایا ہے کہ عاقبت اپنے اعمال پر ہے۔ دوسرے کے مقامات پر نہیں۔ یا اللہ! یہ وقت اس لئے بھی میرے لئے قیمتی سا ہے کہ لوگوں کی نگاہ کے مطابق یہ بستر مرگ ہے۔
لیکن میں جانتا ہوں کہ یہی وقت میری بیداری کی صبح صادق کا وقت ہے۔ آج تیرے میرے درمیان کسی تکلف کا کوئی پردہ نہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تو میرے اتنا قریب ہے جتنا کہ باقی رہنے والی ذات ذوالجلال ایک فانی انسان کے قریب ہو سکتی ہے۔ میرے اللہ! مجھے وہ زمانے بھی یاد آ رہا ہے ،جب میں نے بظاہر تیری عبادت بھی کی۔ بڑے زور و شور سے تیزی نمازیں پڑھیں۔
بڑے دم خم سے میں نے محافل ذکر میں شمولیت کی۔ اللہ ہو کی ضرب لگانے کیلئے میرے پاس بڑے جواز تھے۔ میں لوگوں کو متاثر کرنا چاہتا تھا کہ انہیں پتہ چل جائے کہ میں بڑا عابد اور زاہد اور ذاکر ہوں۔ اے اللہ! اس ریاکاری کیلئے مجھے معاف کر دیا جائے۔ وہ نمازیں ہی تھیں ،لیکن ریاکاری کی۔ وہ عبادت ہی تھی ،لیکن نمائش کیلئے۔ میں نے تیری عبادت کی ،لوگوں کیلئے ،سماج کیلئے اور کبھی کبھی تو سیاسی جلسوں میں باجماعت ریاکاری کا مرتکب ہوا۔
میرے اللہ! میں بہت بڑا ظالم انسان تھا لیکن آج تیرے دربار میں پہنچ کر توبہ کی توفیق حاصل کرکے یہ معلوم ہوا کہ تیری عطا ہماری خطا سے بہت زیادہ ہے۔ بلکہ تیری عطا کے سامنے کسی خطا کا ذکر ہی کیا ،لیکن خطا کا ذکر اور اس پر استغفار کے مواقع ملنا بھی بڑے نصیب کی بات ہے اور تو نے مجھے یہ خوش نصیب لمحہ عطا کیا ہے۔ اس شکر کیلئے بھی میرے پاس وہی آنسو ہیں جو پہلے ندامت کی تسبیح بیان کر رہے تھے۔
میرے اللہ! میں اس بات کا بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے رونے والا بنایا اور اس بات کا شکر ہے کہ آج میں کسی تمنا یا حسرت کیلئے نہیں رو رہا۔ آج میں ان تمام غلطیوں اور کوتاہیوں پر جن میں ریاکاری کی عبادتیں بھی شامل ہیں ،ان کیلئے افسوس کر رہا ہوں اور تو نے افسوس کا جو موقع عطا کیا ،اس کیلئے اپنی مسرت کا اظہار ان اشکوں سے کر رہا ہوں جو اب میری آئندہ زندگی کیلئے چراغاں کا کام کریں گے۔
یہ بستر مرگ کی توبہ نہیں کیونکہ میرے حواس قائم ،میری ہوش قائم ،میرا سانس قائم ،میرے دل کا احساس زندہ ،میرے خون کی گردش سلامت ،میری یاد داشت زندہ ،میرا اپنے پروردگار پر ایمان تابندہ۔ میں ابھی نہیں جانتا کہ میرے لئے آئندہ کتنا عرصہ زندہ رہنے کا موقع عطا ہو جائے۔ میں اسی بات کیلئے شکر ادا کر رہا ہوں کہ اے میرے مولا! تو نے مجھے توبہ کی توفیق موت سے پہلے عطا کر دی۔
تو توفیقیں عطا کرنے والا ہے۔ میرے مولا! آج میں تیرے ساتھ چند باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو اور یہ دل پھر تیرے عالی دربار میں سرنگوں ہو جائے۔
مجھے وہ دن یاد ہے ،جب میں نے کاروبار شروع کیا۔ کاروبار میں خوب ترقی ہوئی اور میرے بیانات میں خوب جھوٹ کی ملاوٹیں ہوئیں۔ میں نے اپنے گاہکوں کو اپنی ظاہری عابدانہ شخصیت کے رعب سے لوٹا اور اس وقت میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
دراصل میں اپنے آپ کو لوٹ رہا تھا۔ لوگوں کا سرمایہ تو حاصل کر رہا تھا لیکن میں اپنی آبرو لوٹ رہا تھا۔ اپنی عاقبت خراب کر رہا تھا ،اپنے مستقبل میں زہر گھول رہا تھا۔ میرے مولا! میں نے بہت سے پیشے بدلے اور ہر پیشے کا مقصد تھا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بیوقوف بنایا جائے اور انہیں رنگین دھوکے دیئے جائیں۔ میں نے زمینیں خریدیں ،زمینیں بیچیں ،مٹی سے سونا بنایا لیکن آج جبکہ اور کوئی انسان پاس نہیں ،میں جان رہا ہوں کہ اگر تو نے توبہ قبول نہ کی تو میرا چھپا ہوا سونا گرم کرکے اسی سے مجھے داغا جائے گا۔
میرے مولا! مجھے بچا! میرے اپنے چھپائے ہوئے جرائم کی زد سے۔ یوں تو میں نے کسی کو براہ راست قتل نہیں کیا لیکن میں لوگوں پر زندگی کے ذرائع تنگ کرتا رہا ،ان سے آسانیاں چھینتا رہا اور اپنے پاس وہ مال جمع رکھا ،جس کی مجھے کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ میں کتنا بے وقوف تھا کہ میں دوسروں کے مال کی حفاظت کرتا رہا اور آج اپنا حال دیکھ کر تیرے سامنے بے بسی کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنی سرمایہ دارانہ ذہنیت کی حماقت پر تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔
میرے اللہ! مجھ پر رحم فرما۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں نے سیاسی زندگی اختیار کی۔ لوگوں سے ان کی خدمت کے بہانے تقویت لے کر انہیں کے خلاف استعمال کی۔ غریبوں نے مجھے طاقتور بنایا اور میں نے ان لوگوں کی زندگی میں کوئی روشنی نہیں کی۔ میرے اللہ! میں آج تسلیم کرتا ہوں۔ کاش میں حکومت کرنے کی بجائے خدمت کرنے کی خواہش کرتا کیونکہ خدمت مجھے تیرے قریب رکھتی اور حکومت اپنی انا پروری کی وجہ سے تجھ سے دور کر گئی۔
میرے اللہ! اس بات کی معافی چاہتا ہوں۔ آج میرے پاس کوئی دعا نہیں کہ میں اپنے کسی منصوبے کی کامیابی کیلئے کچھ عرض کروں ،صرف اور صرف اپنی کوتاہیوں کی معافی۔ میرے اللہ! میری یہ دعا ہے ،ڈوبتے سورج کی آخری دعا کہ مجھے عطا فرما وہ نعمت جو آج تک میں مانگ نہیں سکا۔ تو جانتا ہے کہ مجھے کس چیز کی ضرورت تھی۔ تو جانتا ہے کہ وہ کیا نعمت اور کیا دولت تھی جس کا سوال مجھے بڑی دیر پہلے کر دینا چاہئے تھا۔
لیکن میرے پاس یہ شعور نہیں تھا۔ میری مراد ہے کہ میرے اللہ! مجھے ڈوبنے سے پہلے اپنے محبوبﷺ کا جلوہ دکھا ،یہی جلوہ… مجھے آخری نعمت کی تمنا کے طور پر درکار ہے۔ تو نے مجھے بہت کچھ دیا ،مجھے یقین ہے کہ تو نے مجھے معاف فرما دیا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ جس پر تیرا رحم ہوتا ہے ،اسی کو توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ مجھے اس بات کا قوی یقین ہے کہ تیری رحمت کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔
بخشش کے طلب گار بس ندامت کے اظہار پر ہی سرشار کر دیئے جاتے ہیں۔ جس نے منجدھار میں تجھے پکارا ،اس کا بیڑہ ہمیشہ پار ہوتا ہے۔ میرے مالک! مجھے سمجھ آ رہی ہے کہ پکار تیرے قرب کا اظہار ہے۔ میرے مالک! میں نے پکار کی ہے ،تیرے دربار میں سوال کیا ہے کہ وہ جلوہ مجھے عطا فرما۔ ہاں یہی جلوہ۔ تیری مہربانی کیلئے میرے سجدے حاضر ،میرے دل کے سجدے حاضر ،میری روح کے سجدے حاضر۔
میرے پاس انتہا کی چیز انکساری ہے اور تیرے پاس بندوں کیلئے انعام اپنے محبوبﷺ کے جلوے ہیں۔ جلوہ سب تیرا ہی ہے۔ مظہر انوار ذات محبوبﷺ ہے۔
میرے مالک! آج اتنا مبارک لمحہ تو نے عطا فرمایا کہ پھر میرے اندر ایک تمنا اور پیدا ہو گئی۔ جی چاہتا ہے کہ اب تمنا کا اظہار نہ کروں لیکن مجبور ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جن جن لوگوں سے جو جو کچھ کیا ،ان کے پاس جا کر دست بستہ معافی طلب کی جائے۔
پس میرے مولا! اس ڈوبتے سورج کو ڈوبنے سے بچا۔ مجھے پھر اپنے سفر پر روانہ کر۔ مجھے کھوئے ہوئے مواقع کے باوجود ان لمحات کو پھر سے گزارنے کی توفیق دے ،جو گزر چکے ہیں۔ بہت کچھ چھن گیا لیکن ابھی اور بہت کچھ باقی ہے۔ اے دعائیں قبول کرنے والے ،تیرا شکریہ کہ میں اب آوازیں سن رہا ہوں۔ ڈاکٹروں نے میرے لواحقین سے کہا کہ مبارک ہو ،مریض بچ گیا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ کیا ہوا تھا اور کیا ہو گیا اور اب اور کیا کچھ ہونا باقی ہے۔
تیرا شکر ہے میرے مولا… اس عظیم احسان کا شکر
ختم شد

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif