Episode 1 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 1 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”آذر لندن آ رہا ہے آنٹی“
فریال کانپ کر رہ گئی… اندر باہر آذر آذر ہونے لگی۔
”آذر…“ وجود کانپ کر آذر نامی آواز بن گیا آواز اس کے وجود سے باہر نکل ہی نہ سکی۔
”شام چار بجے تک پہنچ جائے گا اسٹیشن…“ ثانیہ گھبرائی ہوئی چور آواز میں اسے بتا رہی تھی ”آفس کے کام سے دو دن سے اسکاٹ لینڈ میں ہے… اسے آج لندن آنا ہے… “آواز اور چور ہو گئی فریال کے وجود پر دباؤ اور بڑھ گیا ایسا دباؤ جو شدید ترین اوّل و آخر خواہش کی تکمیل سے اندر باہر بڑھ جاتا ہے اور قریباً قریباً موت کا سا لگتا ہے۔
”آپ سے ملنے نہیں آ رہا آنٹی! اپنے کسی کام سے آ رہا ہے… آپ اسے دور سے دیکھ لیجئے گا… اگر اسے معلوم ہوا کہ میں نے آپ کو اس کے آنے کا بتایا ہے تو وہ بہت ہنگامہ کرے گا… پلیز آنٹی…“
”خدارا ثانیہ“… فریال نے اسے کہنا چاہا… فریال جیسی عورت سے تم ایسی درخواست کیسے کر سکتی ہو… کیا تم ایک عورت نہیں ہو… عورت کو چھوڑو ماں نہیں ہو… کیسے کہہ رہی ہو دور سے دیکھ لیجئے گا… اتنی لمبی جدائی کاٹنے والی ماں سے کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے…؟؟ لیکن فریال نے ثانیہ سے وعدہ کر لیا کہ وہ چھپ کر آذر کو دیکھے گی ملے گی نہیں… اس پر نظریں گاڑے رکھے گی اسے سینے کے ساتھ نہیں بھینچ لے گی ایک ماں سات سال بعد نظر آنے والے اپنے بیٹے کے ساتھ یہ سب کرے گی؟؟
نہیں… وہ اس سے لپٹ جائے گی… اسٹیشن کی بھیڑ میں آذر نے اسے پھر بھی دھتکارا تو… تو وہ اس کے پیروں میں گر جائے گی… ایک ماں اپنے بیٹے کے پیروں کے ساتھ لپٹ جائے گی… وہ سات سال بعد ملنے والی اس حیات کو موت بننے نہیں دے گی… جس وقت وہ گھر چھوڑ کر گیا تھا اس وقت وہ اٹھارہ سال کا تھا… فریال کیلئے چھوٹا سا بچہ… اب وہ خود ایک بچی کا باپ بن چکا تھا۔

(جاری ہے)

اتنا لمبا عرصہ… اتنے بہت سارے دن… اتنی لمبی لمبی راتیں اس نے آذر… آذر کرتے گزاری تھیں… روتے… روتے دیواروں سے سر مارتے… آذرکو بلند بانگ آوازیں دیتے… جیسے وہ یہیں کہیں قریب ہی کے میدان میں کھیلنے گیا ہو یا اس سے ناراض ہو کر کمرے میں چھپ کر بیٹھا ہو… جیسے وہ اس کا رونا سن رہا ہو اور اس پر ترس کھانے والا ہو… اس کا رونا اس نے کئی بار سنا… اس پر ترس اس نے کبھی نہیں کھایا… وہ نادر کا بیٹا تھا اور وہ ثبوت بھی دیتا تھا۔
فریال اس کی ماں تھی اور اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
ثانیہ سے جھوٹا وعدہ کرکے وہ فوراً اسٹیشن کی طرف لپکی گھر کو لاک کئے بغیر… چولہے پر ابلنے کیلئے رکھے دودھ کو بند کئے بغیر بلڈنگ کی سیڑھیاں اس نے دیوار کا سہارا لئے بغیر پار کی… بس کا انتظار اس نے فضول سمجھا اور ٹیکسی لے لی… وہ ایک ایسے چھوٹے بچے کی طرح لگ رہی تھی جو ڈھیر سارے من پسند رنگوں کے غبارے ہاتھ میں پکڑے والدین کے ساتھ پہلی بار آئسکریم کھانے جا رہا ہو۔
ایسا بچہ جس کی آئسکریم کھانے کی خواہش شاز ہی پوری ہوتی ہے… مسلی گئی ہر خواہش کا یہ بچہ اسٹیشن کی بھیڑ میں متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا،آذر کو چار بجے آنا تھا وہ گیارہ بجے ہی وہاں آ چکی تھی اس نے پھر سے ثانیہ کو فون کیا۔
”کیا وہ لندن کیلئے نکل چکا ہے“ وہ ایک بار پھر سے تصدیق چاہتی تھی کہ ہاں آذر لندن ہی آ رہا ہے… آج ہی آ رہا ہے۔
”ابھی تو وہ اسکاٹ لینڈ میں ہی ہوگا… آپ کو بتایا تھا نا کہ وہ… آپ کہاں ہیں…“ اچانک چونک کر وہ پوچھنے لگی۔
”میں اسٹیشن…“ خوشی کے معنی آج کوئی اس سے پوچھتا۔
”اتنی جلدی آ گئیں آپ آنٹی… میں نے غلطی کی آپ کو بتا کر…“ ثانیہ کو افسوس ہوا… یہ افسوس اسے تب نہ ہوتا اگر وہ فریال کی جگہ ہوتی…“
”آنٹی پلیز! گھر جایئے… اتنا وقت ہے… ابھی آپ یہاں کیا کریں گی…؟؟
”میں بہت خوش ہوں تم میری فکر نہ کرو…“ اسے خدشہ تھا کہ وہ چار بجے سے پہلے بھی آ سکتا ہے… وہ اپنا ارادہ بدل سکتا ہے سو جلدی آنے میں کیا حرج ہے۔
وہ اسٹیشن کے بیرونی دروازے کے پاس آگئی۔ ایسی جگہ جہاں سے وہ ہر آنے… جانے والے کو دیکھ سکتی تھی… اسٹیشن کے اندرآذر اس کی نظروں سے کھو سکتا ہے مگر یہاں کھڑے آذر اس سے بچ کر نہیں گزر سکے گا۔ 
وہ قریب ہی ایک دیوار کے ساتھ ٹک کر کھڑی ہو گئی اور آنے جانے والوں پر نگاہ باندھ لی وہ گزرنے والوں کی طرف دیکھتی اور پہچانے سے پہلے ہی مسکرانے لگتی۔
اسے یہ ڈر بھی تھا کہ اس کے پلک جھپکنے کے دوران ہی کہیں آذر اس سے بچ کر نہ نکل جائے وہ ایک لمحے کیلئے بھی نظریں ادھر ادھر کرنا نہیں چاہتی تھی۔
گیارہ سے بارہ اور بارہ سے ایک ہوا… دیوار کے ساتھ ٹک کر کھڑے اس پر سے خوشی و غم کے موسم برس کر گرے،دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا لیکن اسے بھوک پیاس محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ کاؤنٹر تک جائے اور اسکاٹ لینڈ سے آنے والی ٹرین کا پوچھے لیکن اسے خوف تھا کہ ”ٹرین لیٹ ہے یا سرے سے آہی نہیں رہی“ جیسی خبریں سننے کو مل سکتی ہیں جبکہ ایسی خبروں کا کوئی امکان نہیں تھا…لیکن اس کا خوف کہہ رہا تھا کہ یہ سب ہو سکتا ہے وہ وہم کو دل میں جگہ دینا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ دل میں جگہ بنا رہے تھے۔
اس کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں۔ اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا تھا کہ آذر اس سے ملنے نہیں آ رہا اور وہ وہاں ایسے انتظار کر رہی تھی جیسے آذر نے اسے فون کرکے وہاں آنے کیلئے کہا ہو۔
تکلیف اور خوشی نے اس کے چہرے پر شکنوں کو نمایاں کر دیا تھا یہ شکنیں لندن آنے کے بعد بڑھی تھیں لیکن آذر کے جانے کے بعد ایک جال بن گیا تھا ان کا… آذر کی اپنی ماں سے نفرت اتنی بڑھ گئی کہ وہ اسے سزا دینے کیلئے گھر ہی چھوڑ گیا۔
اچھی سزا تھی جو فریال نے خوب کاٹی… وہ ایک بدکردار عورت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا… ایسی عورت جس کی وجہ سے اس کا باپ ہمیشہ کیلئے اسے چھوڑ گیا… وہ ایک بری عورت تھی… بدکردار بیوی… اور نالائق ماں… وہ بار بار اسے بتا گیا تھا کہ وہ کون ہے… وہ عورت کے نام پر دھبہ ہے۔ 
آذر کی ماں
نادر کی بیوی
فریال نامی عورت
###

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed