Episode 9 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 9 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”تم تو ملے نہیں،کاش! آج مجھے موت مل جائے… اگر تم کسی کونے سے لپک کر میری طرف نہ آؤ تو موت آ جائے۔“
وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی… خود کو گھسیٹ رہی تھی،اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا،کمزوری اور نقاہت سے زیادہ اسے صدمے نے نڈھال کر دیا تھا۔ اس کا پچیس سالہ بیٹا اس ماں سے ملنا نہیں چاہتا تھا جس نے اٹھائیس سال اپنے پیاروں سے دور صرف اس کیلئے اکیلے اس ملک میں گزار دیئے تھے،جس کیلئے اس نے رات دن محنت کی تھی… پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تھا۔
”کیسا لگتا ہے اٹھائیس سال کی ریاضت اور دکھوں کے بعد بھی ناکام ہی ہونا… ساری محنت،محبت اور ایمانداری کے بعد ناکام ہونا…؟؟“
وہ میں روڈ پر بنی دکانوں کے آگے سے گزر رہی تھی… دکانیں جہاں لوگ خریداری کیلئے آتے ہیں… جہاں سے وہ بہت کچھ خرید کر لے جاتے ہیں… کچھ نہ کچھ تولے ہی جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

کاش! وہ بھی آذر کو خرید سکتی… محبت خرید لیتی کہ آذر اس سے کرتا،اعتبار خریدتی کہ آذر کو اس پر اعتبار آ جاتا… کاش دکانیں کچھ تو سود مند کاروبار کر سکتیں… کچھ تو دے سکتیں۔

برطانیہ کا تاج… لندن جگمگا رہا تھا اور اس کی آنکھیں بھی… قریب سے گزرنے والے اسے دیکھ رہے تھے… وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی… نومبر کی سرد راتوں میں گرم آنسو… آئے گئے موسموں میں ایک ہی موسم… دکھ کا موسم۔
###
”میری ٹیسٹ رپورٹ پر سائن آپ نے کئے ہیں؟“ آذر اس وقت 9th اسٹینڈر میں تھا وہ کچن میں کام کر رہی تھی جب وہ اپنے کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرکے دندناتا ہوا اس کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا۔
خود سے تو وہ اپنی ڈائری،رپورٹس،نوٹس دکھاتا نہیں تھا اسے،وہ خود ہی اس کا بیگ چیک کرتی رہتی تھی۔
”ہاں…!“
کیا میں نے آپ سے کہا تھا سائن کرنے کیلئے؟“
”تمہیں کہنا چاہئے تھا… یہاں میرے ہی سائن ہوتے تھے۔“
”یہاں میرے ڈیڈ کے سائن ہوتے تھے۔“
”سائن میں ہی کرتی رہی ہوں آذر۔“
”آپ تو اور بھی بہت کچھ کرتی رہی ہیں… تب میں بچہ تھا اب نہیں…“
”کیا کرتی رہی ہوں میں؟؟“
”میری کسی چیز کو ہاتھ مت لگایا کریں۔
“ اس نے رپورٹ کارڈ پھاڑ کر پھینک دی۔
”تمہیں معلوم ہے آذر! تم میرے ساتھ کیا کر رہے ہو…؟؟ اپنی ماں کے ساتھ…؟؟“ صدموں میں سے ایک صدمہ اسے پھر سے ملا۔
”آپ کو معلوم ہے آپ نے کیا کیا میرے اور ڈیڈ کے ساتھ؟؟“
”کیا کیا… بتاؤ مجھے…؟؟“
”آپ نے ہر وہ کام کیا جس سے ڈیڈ نے آپ کو منع کیا…“
”اس نے کبھی مجھے پیسے کما کر گھر چلانے اور تمہیں پالنے سے تو منع نہیں کیا“
”پیسے آپ اپنے گھر والوں کیلئے کماتی تھیں… انہیں بھیجتی تھیں،انہی کی فکر تھی آپ کو… جن عورتوں کے دل اپنے گھر،اپنی اولاد میں نہیں لگتے وہ ساری دنیا کو اپنائے رکھتی ہیں“
”اکیلے ہی زندگی گزار رہی ہوں کون ہے جسے اپنایا ہے؟“
”مجھ سے اپنی ذاتیات کی تفصیل مت پوچھیں… میں گناہ گار عورتوں کے گناہوں پر بات کرنا نہیں چاہتا…“
”جس عورت نے مردوں کی طرح حلال رزق کمایا… اپنے بیٹے کیلئے اکیلے زندگی گزار دی… وہ گناہ گار ہے؟؟“
”آپ کو شوق تھا سنگل ہونے کا… آزاد رہنے کا…“
”آزاد رہنے کا نہیں… مار پیٹ سے بچنے کا شوق تھا… برا شوق نہیں تھا آذر…“
”برے کاموں سے کوئی آپ کو روکے بھی نا؟ آذر کے پاس ہر سوال کا جواب تھا۔
”گوگی ٹھیک کہتی تھی… نادر تمہارے اندر زہر بھر رہا ہے۔“
”دنیا آپ سے ٹھیک کہتی ہے آپ کو ٹھیک نہیں کہتی…“ آذر نے زہر میں بجھا طنز کیا… وہ طنز ہی کرتا تھا… طنز بھری نظروں سے اسے دیکھتا تھا… وہ اس کیلئے دوسرا نادر بن چکا تھا وہ صرف اسے ہاتھ سے مارتا نہیں تھا،گالی نہیں دیتا تھا… اور یہ دونوں کام وہ اپنے طرز عمل سے کرتا تھا… فریال اسی پر بلبلا اٹھتی… وہی کام جو وہ کرتی رہتی تھی جو اسے ڈھنگ سے کرنا آتا تھا۔
###

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed