Episode 11 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 11 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

تین دن ہسپتال میں رہ کر گوگی اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی،وہ پاگل ہو رہی تھی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ آذر اسے چھوڑ کر بھی جا سکتا ہے… وہ اس سے نفرت کرتا تھا ٹھیک ہے کیا اتنی نفرت کرتا تھا کہ اس کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتا تھا وہ پاگلوں کی طرح ہر ایک سے یہی سوال کرتی تھی کہ اسے کوئی اس کا قصور بتا دے… گوگی کے گھر سے وہ پاگلوں کی طرح نکل جاتی… اُس نے لندن کی سڑکوں… گلیوں… دکانوں میں لوگوں کو روک روک کر آذر کا پوچھا… گوگی… گوگی کے بچے… نعمان اس کے پیچھے بھاگتے اور وہ آذر کے پیچھے بھاگتی۔
اس کے ہر ملنے جلنے والے نے آذر کو ڈھونڈنا چاہا مگر وہ نہیں ملا وہ گم ہوتا تو ملتا۔ وہ تو خود ہی کہیں چلا گیا تھا اٹھارہ سال کا تھا کہیں بھی جا سکتا تھا اس کی ماں کا پہلے بھی اس پر حق نہیں تھا اٹھارہ سال کے آذر پر تو قطعاً نہیں تھا۔

(جاری ہے)


فریال خالی ہاتھ رہ گئی
ماتم کناں اور مفلوج
نعمان نے ہر طریقے سے اسے ڈھونڈنا چاہا مگر وہ نہیں ملا اس کے دوست لاعلم تھے… اور اس کے دوست تھے ہی کتنے… بس ایک دو سرسری سی شناسائی والے… جس طرح کی نفسیات کا وہ حامل ہو چکا تھا اس کیلئے مشکل ہی تھا اچھے دوست بنانا۔
فارغ وقت میں نعمان اپنی بہن کیلئے اسے ہی ڈھونڈتا پھرتا،سارا لندن… برطانیہ کھنگال ڈالا مگر آذر نہیں ملا۔
فریال ضد کرکے گوگی کے گھر سے اپنے گھر آ گئی… اس کی بگڑتی جسمانی اور ذہنی حالت کی وجہ سے نعمان بھی اسی کے ساتھ رہنے لگا۔
 ”ایک بار آذر کو لے آؤ… اس سے کہو مجھ سے نفرت ہی رکھے مگر میرے سامنے رہے… اس کی ماں اس کے بغیر مر جائے گی۔
وہ ہر روز نعمان اور گوگی کی منت کرتی… آدھی آدھی رات کو اٹھ کر باہر بھاگتی… ایک رات گوگی اور نعمان نے اسے رات دو بجے ٹیوب اسٹیشن کی بھیڑ میں بمشکل تلاش کیا وہ دائیں بائیں گھوم گھوم کر ایسے متلاشی تھی جیسے ابھی بھی اس کا چھوٹا بچہ کھو گیا ہو… وہ دونوں اسے بہت مشکلوں سے قابو کرکے واپس لائے… مرد ہو کر بھی نعمان رونے لگا… اس نے فریال کو سینے سے لگا لیا اور اسے جھوٹی تسلیاں دیتا رہا… وہ جانتا تھا جو خود چھوڑ کر جاتے ہیں وہ خود سے پلٹ کر کم ہی آتے ہیں وہ اپنی ماں کی طرف سے بدگمان تھا اور نجانے یہ بدگمانی کب دور ہوتی… ہوتی بھی یا نہیں۔
آذر کی جدائی سے وہ موت کے دھانے پر جا پہنچی… نعمان چاہتا تھا کہ وہ پاکستان چلی جائے مگر وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔ ”میں خالی ہاتھ رہ گئی“ وہ کئی کئی بار یہی بڑبڑاتی ”نادر سب لے گیا“۔
نادر نامی حیوان اس کا سب کچھ شکار کر گیا تھا اگر گوگی اور نعمان نہ ہوتے تو وہ خود کشی کر لیتی،اس نے جاب چھوڑ دی،سارا وقت وہ آذر آذر کرتی جانے کہاں کہاں اسے تلاش کرتی رہتی… جانے کہاں کہاں کن کن لوگوں سے ملتی۔
ایک دن اس نے نعمان کو بتایا کہ چند لوگ ہیں جو آذر کو تلاش کر دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
”کون لوگ آپی…؟“ اسے اپنی آپی پر بہت ترس آیا وہ آذر کے چلے جانے پر صبر کرنے کیلئے تیار نہیں تھی… کیونکہ وہ ایک ماں تھی،مرنے والوں پر صبر آ جاتا ہے کھو جانے والوں پر نہیں۔
”ایک سیاہ فام گروپ ہے…“ فریال نعمان کو تفصیل بتانے لگی۔
”کن کن لوگوں سے ملتی ہیں آپ… بہت خطرناک لوگ ہوتے ہیں یہ… خدا کیلئے آپی ان سب سے دور رہیں۔“
”نادر سے زیادہ خطرناک نہیں ہونگے… وہ قتل اور غنڈے ہی کیوں نہ ہو… مجھے میرا بچہ دے رہے ہیں مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔“
وہ آذر کو تلاش کرنے کیلئے تیار تھے مگر وہ اتنے زیادہ پیسے مانگ رہے تھے کہ اس کے بنک اکاؤنٹ میں رکھے تھوڑے سے پیسوں سمیت،اس کے گھر کی ایک ایک چیز بک بھی جاتی تو بھی وہ رقم ادا نہیں کر سکتی تھی۔
نعمان اور گوگی اسے سمجھا رہے تھے مگر وہ سمجھ نہیں رہی تھی۔
اس نے دوبارہ سے ڈبل جاب شروع کر دی،پانچ دن ایک کمپنی میں گارمنٹس کی پیکنگ میں اور دو دن ایک انڈین ہوٹل میں کچن ہیلپر کے طور پر… وہ زندگی میں خود پر آنے والے ہر برے وقت سے زیادہ محنت کرنے لگی… اس نے ایک ایک پاؤنڈ بچانا شروع کر دیا… وہ گن گن کر نوالے کھاتی کہ کھانے پر زیادہ خرچ نہ آئے… اپنی دوا لینی اس نے بند کر دی… ڈاکٹر کے بتائے گئے ٹانک… سیرپ اور فوڈ سپلیمنٹ اس نے مکمل طور پر بند کر دیئے کبھی کبھار لیے جانے والے گرم کپڑے جوتے… اس نے ان کا خیال ہی دل سے نکال دیا… وہ سانس لینا بھی چھوڑ دیتی اگر اس سے آذر مل جاتا تو…
اس کی کمر جھک سی گئی اور بالوں میں سفیدی تیزی سے پھیلنے لگی وہ اٹھارہ سال کے کئی بھاگے ہوئے بچوں کی صدیوں کی پھٹکار زدہ بڈھی نظر آنے لگی… سر پر اسکارف لپیٹے… گندا مندا کوٹ جسے اسے دھونے کی فرصت ہی نہیں تھی میں ملبوس وہ ہر دیکھنے والی آنکھ سے مخاطب یہ کہتی تھی کہ مجھ پر ترس کھاؤ،رحم کرو ۔
ہر لمحہ اس کے وجود میں آذر آذر ہوتی… وہ رات و دن یہ خواب دیکھتی کہ وہ اس سے آکر لپیٹ رہا ہے… راتوں کو اس کی ہچکیوں اور صداؤں سے نعمان اٹھ بیٹھتا… اسے سینے سے لگاتا تسلی دیتا… اس کے آنسو صاف کرتا… لیکن آذر نامی جنون اس میں بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
ایک عرصہ لگا فریال کو ایڈوانس کی رقم جمع کرنے میں،گوگی اور نعمان سے بھی پیسے ادھار لئے… گھر کا کچھ سامان بیچا… اپنی جمع شدہ رقم میں ان پیسوں کو شامل کیا اور انہیں جا کر دے آئی ایڈوانس دینے کے تین ماہ بعد فریال کو آذر سے متعلق معلومات ملنے لگیں۔
لندن سے وہ سیدھا فرانس گیا تھا… فرانس کی یونیورسٹی سے دو سالہ ڈگری لینے کے بعد اس نے وہیں کسی کمپنی میں ڈیڑھ سال تک جاب کی پھر وہ سویڈن چلا گیا کچھ عرصہ وہاں قیام کے بعد وہ وہاں سے بھی چلا گیا… کہاں چلا گیا…؟؟ وہ معلوم کر رہے تھے اور ظاہر ہے یہ معلومات کہ ’اب وہ کہاں ہے‘ فریال کو مکمل ادائیگی کے بعد ہی ملنی تھیں۔
نعمان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پیسے برباد کر رہی ہے ان لوگوں کو دے کر وہ لوگ اسے الو بنا رہے ہیں۔
”بننے دو مجھے اُلو… ماں بن گئی ہوں… اب دیکھنا! کیا کیا نہیں بنتی…“ وہ کسی کی کوئی بھی دلیل نہیں سنتی تھی،اس کے ماں باپ پاکستان سے فون کر کرکے اصرار کرتے تھے کہ وہ ان کے پاس آ جائے… لیکن وہ آذر کی تلاش میں دنیا کے ہر کونے تک جا سکتی تھی لیکن اس کی تلاش کو ترک کرکے قبر میں بھی جانا نہیں چاہتی تھی… وہ ہر صورت اسے پانا چاہتی تھی… خوابوں میں وہ اسے بے تحاشا چومتی تھی… اور خوابوں میں ہی وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی تھی اس کے پاؤں پکڑتی تھی… وہ اس کے سامنے آ جائے تو وہ تب بھی یہی کرے… بے شک آذر اسے دھتکار دے… وہ جانتی تھی وہ اس سے محبت کبھی نہیں کرے گا… وہ اس کی دھتکار کیلئے ہی تیار تھی۔
اس کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی کئی کئی دنوں تک بیمار رہتی تھی لیکن چھٹی نہیں کرتی تھی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی… اس کا وجود ہر وقت کائیں کائیں کرتا رہتا تھا… پیاسے کوے کی سی کائیں کائیں… پیاس جو وجود کے ہر مسام سے پھوٹے… وجود وہ جس کی تکمیل کسی دوسرے وجود سے ہوئی ہو…
”آپی! اب بس کر دیں… بہت برباد کر لیا خود کو…“
وہ بیماری میں بھی جاب پر جا رہی تھی نعمان کی آواز رندھ گئی۔
”آذر کے ملنے تک مجھے اور کر لینے دو… میں اس سے ملے بغیر نہیں مرونگی… وہ میری جمع پونجی ہے… ایسے کیسے اسے میں دنیا میں بانٹ دوں…“
”وہ آپ کا ہوتا تو آپ کو چھوڑ کر نہ جاتا آپی…“

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed