Episode 14 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 14 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

آذر کو آفس کے کام سے اسکاٹ لینڈ بھیجا گیا تھا،برطانیہ سے باہر رہ کر بھی اس نے ہمیشہ نادر کو تلاش کرنے کی کوشش ہی کی تھی،اسے کچھ خبریں ملیں کہ وہ پاکستان جا چکا ہے تو اس نے وہاں بھی معلوم کروایا مگر ناکام رہا… اس کے دودھیال والوں کو بھی کوئی خبر نہیں تھی نہ ہی ان کا نادر سے کوئی رابطہ تھا… ان کا خیال تھا کہ وہ مر چکا ہوگا اور اس بات پر آذر بری طرح سے بھڑک گیا… کوئی ایسے سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ اس کا باپ مر چکا ہوگا… وہ یقینا کہیں اور ایک بہت اچھی زندگی گزار رہے ہونگے،اپنے تلخ ماضی سے دور…
اسی کوشش کے دوران اسے نادر کی دوسری بیوی کے بارے میں کچھ معلومات ملی تھیں کہ وہ لندن میں ہیں ان کے پرانے ریسٹورنٹ سے اسے ان کا کچھ اتا پتا ملا تھا… اسے دو تین مختلف علاقوں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ وہاں ہو سکتی ہے… ایک گھر سے وہ ہو آیا تھا وہ وہاں نہیں تھیں،اسے یقین تھا کہ پاپا اسی کے ساتھ ہونگے یا ہو سکتا ہے ملک سے باہر کہیں اور ہو لیکن کم از کم اس کا رابطہ تو ہو ہی جائے گا۔

(جاری ہے)

دوسرے مطلوبہ ایڈریس کو ڈھونڈنے میں اسے کچھ وقت لگا مگر اسے مل ہی گیا۔ وہ ایک بڑا اور شاندار گھر تھا،اس کے پاپا کا گھر… نادر کا گھر اس کا گھر جس کیلئے وہ روتا رہا تھا جس کیلئے اس نے ایک اذیت ناک بچپن اور لڑکپن گزارا تھا جس کا اس نے پاگلوں کی طرح انتظار کیا تھا اس نے ہر شخص میں اسے ہی تلاشا تھا کہ کہیں تو وہ مل جائے… اس کا پیار اپنے باپ کیلئے جنون کی حدوں تک تھا بچپن میں بھی وہ اس کے گھر آنے کی گھڑیاں گنا کرتا تھا… وہ اس کے جاتے ہی فوراً ہی فریال سے پوچھنا شروع کر دیتا تھا کہ پاپا کب آئیں گے… پاپا اس کیلئے اس گھر میں ایک بڑی مسرت تھی… وہ کبھی کبھار ہی سہی لیکن اس کے ساتھ گیمز کھیل لیتا تھا… اسے پارک میں لے جاتا تھا… اسے گود میں بیٹھا کر ڈھیروں باتیں کرتا تھا اس کی باتیں سنتا تھا… وہ نادر کا لاڈلا تھا اور نادر کہتا تھا کہ آذر میں اس کی جان ہے… اور وہ جان اس کی ماں نے نکال لی۔
ذرا سے گھبرائے ہوئے انداز سے اس نے بیل بجائی،اس سے اب صبر نہیں ہو رہا تھا… بس وہ چاہتا تھا کہ پاپا نظر آ جائیں اور وہ ان سے لپٹ جائے۔
خوبصورت اور اسمارٹ سی ایک خاتون دروازے پر آئی،آذر نے پہچان لیا یہ وہی خاتون تھیں جنہیں اس نے نادر کے ساتھ شاپنگ سنٹر میں دیکھا تھا جب تک وہ بھاگ کر فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور تک آیا وہ دونوں اس کی نظروں سے گم ہو چکے تھے،اس کے بعد پھر اسے کبھی نادر نظر نہیں آیا۔
خاتون مسکرا کر سوالیہ انداز لئے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
”میں آذر ہوں… پاپا ہیں…؟؟ اسے یقین تھا پاپا کی یہ بیوی اسے ضرور جانتی ہوگی۔
”میرے پاپا نادر جمال…“ آذر فخر سے مسکرایا کہ دیکھئے خاتون نادر جمال کا جوان بیٹا ان سے ملنے آیا ہے،خاتون کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”وہ یہاں کیوں ہوگا؟؟ بے حد تحمل سے جواب دیا اسے سر سے پاؤں تک دیکھا آذر الجھ گیا۔
”آپ ان کی بیوی…؟؟“
”تھی… ایک عرصہ ہوا ہماری طلاق ہو گئی“ بہت مضبوط انداز و اطوار کی مالک تھیں خاتون،آذر کو سمجھ نہیں آیا کہ طلاق پر افسوس کا اظہار پہلے کرے یا صرف نادر کا ہی پوچھے۔
”اور پاپا…؟؟“ اس نے نادر کا ہی پوچھا۔
وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی… ”اندر آ جاؤ“ … ”ساتھ ہی اس کیلئے راستہ چھوڑا… وہ اندر آ گیا… ڈرائنگ روم تک آتے لاؤنج پر ایک نظر ڈالتے اس نے دو کم سن لڑکا،لڑکی کو فلم دیکھتے دیکھا… وہ دونوں بیحد سکون سے فلم دیکھ رہے تھے… لڑکی پیزا کھا رہی تھی اور گھر میں تازہ تازہ بیک کئے گئے کیک کی خوشبو پھیلی تھی۔
”تو تم بھی نادر کے بیٹے ہو…؟؟ اسے ذرا دیر اور دیکھ کر وہ بولی… وہ آذر کو تم سے اختلاف تھا… پھر اس نے سوچا کہ ان کی اس دوسری بیوی سے بھی ۔ان کا کوئی بیٹا ہوگا ہاں شاید وہی جو باہر بیٹھا ہے۔
آذر نے سر ہلا دیا۔
”تم اس کے کون سے بیٹے ہو؟ سوال تھا یا پڑتال… آذر سمجھا نہیں۔“
”کون سے؟؟“ وہ حیران ہوا،حیرانگی سے ہی پوچھا۔
”ہاں! کس بیوی کے کون سے بیٹے؟؟“
”پہلی بیوی کا پہلا بیٹا! میں ان کا ایک ہی بیٹا ہوں… آپ کے بچوں کے علاوہ…“
”تمہیں یقین ہے آذر کہ تم اس کے اکلوتے بیٹے ہو میری ایک بیٹی کے علاوہ؟؟“
”جی…“ آذر کو یقین ہی تھا خاتون کا انداز اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
”اور تمہیں یقین ہے کہ تم اس کی پہلی بیوی سے ہی ہو۔“
آذر کو غصہ آ گیا۔
”میں فریال کا بیٹا ہوں… وہ ان کی پہلی بیوی تھیں اور آپ دوسری…
”میں اس کی آٹھویں بیوی تھی آذر …“ انہوں نے تحمل سے کہا آذر کا تحمل جاتا رہا،اسے خاتون کی عقل پر گمان ہوا… وہ جیسے سن کر بھول گیا کہ اس نے کیا سنا اور بے یقینی سے وہ خاتون کی طرف دیکھتے کہنے لگا ” پھر سے کہنا کیا کہا؟؟ جو کہا وہ سچ ہی کہا نا…؟ معلوم بھی ہے کیا کہہ رہی ہیں؟؟
اس طرح کے صدمے سے وہ پہلی بار دوچار ہوا تھا۔
”اب بتاؤ اپنی مدر کا نمبر؟؟ وہ بہت نرم،لہجے میں بات کر رہی تھیں لیکن پھر بھی آذر کو ان کے لفظ لفظ سے نفرت ہو رہی تھی… آذر تو ایسے خاموش ہو گیا تھا جیسے نہ کچھ بولے گا نہ پوچھے گا نہ سنے گا… سوال اتنی تکلیف دیتے ہیں… جواب اتنا غضب ڈھالتے ہیں۔
”میں نے ایک دو بار نام سنا تھا فریال کا… شاید وہ تیسری بیوی تھی نادر کی…“ وہ اس کے بولنے کا انتظار کرتے خود سے ہی بتانے لگی۔
”اب وہ کہاں ہیں؟؟ کس بیوی کے گھر؟؟ آذر کو یہی سوال مناسب لگا۔
”گھر؟؟“ وہ حیران ہوئی… ”وہ حکومت کے گھر میں ہے… جیل میں…“
اتنا بڑا صدمہ… آذر کا سر گھوم گیا… آنکھیں یکدم نم ہو گئیں… اس کا باپ جیل میں ہے… اور اسے معلوم ہی نہیں ہو سکا وہ نادر کو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈتا رہا اور وہ جیل میں… لاؤنج میں چلتی فلم کی آواز شاید ان دونوں میں سے کسی ایک نے اونچی کر دی تھی… فلم کی چنگھاڑتی آوازوں سے اسے اپنا سر پھٹتا ہوا محسوس ہوا… خاتون نے اس کی طرف دیکھا اور دانستہ اٹھ کر چلی گئی… آذر بہت دیر اکیلا بیٹھا رہا…کچھ دیر بعد وہ کافی اور کیک لے کر آئی۔
”جب میں نے اس کے ساتھ شادی کی تھی اس وقت میں بھی اس کی پہلی بیوی ہی تھی… پہلی سے شاید نادر کا مطلب تھا پہلی برطانوی شہری خاتون… باقی سب پاکستانی تھیں…“
اس خاتون کا لفظ لفظ واقعی ہی نفرت انگیز تھا کیا کیا کہہ رہی تھی جانتی نہیں تھی کہ کسی پر کتنا ظلم کر رہی ہے… آذر اپنی آنکھوں کی نمی کو سنبھالتا رہا۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed