Last Episode - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

آخری قسط - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”اس وقت میرا ایک پانچ سال کا بیٹا تھا دو سال پہلے ہی میں بیوہ ہوئی تھی وہ مجھے اچھا لگا تھا… وہ روزانہ میرے ریسٹورنٹ آتا تھا… دوستی کر لی تھی اس نے مجھ سے… میرا اپنا گھر تھا… اپنا ریسٹورنٹ تھا… صرف ایک شوہر ہی نہیں تھا… میں نے اسے ایک اچھا انسان سمجھ کر شادی کی… وہ اچھا انسان صرف شادی سے پہلے تک ہی رہا… مجھے صرف ایک شوہر چاہئے تھا لیکن اسے صرف ایک بیوی نہیں چاہئے تھی اسے پیسوں کی مشین چاہئے تھی… نہ جانے میں کیسے اس کے جال میں آ گئی،اتنا عیاش اور بے غیرت انسان میری زندگی میں کیسے شامل ہو گیا… ریسٹورنٹ کے اکاؤنٹ میں ہیر پھیر کرتا تھا پوچھا تو مجھے مارنے لگا… ایک بار… دو بار… ہر روز مارنے لگا… اصلیت سامنے آنے لگی تھی اس کی… مزید چھان بین کروائی تو مجھے اس کے ایک اور گھر کا پتا ملا جہاں وہ اپنی ساتویں بیوی کو بیاہ کر لایا تھا اور جسے وہ جانوروں کی طرح مارتا تھا… تنزیلہ کچھ پڑھی لکھی تھی اور سمجھ دار تھی… ہم دونوں کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا نادر کی اصلیت کا پتا لگانے میں… وہ پاکستان سے کم عمر لڑکیاں بیوی بنا کر لاتا تھا… یہاں ان سے رات دن کام کرواتا تھا اور ان کے سارے پیسے اپنے پاس رکھتا تھا،لڑکیاں ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی ہوتی تھیں۔

(جاری ہے)

جنہیں ٹھیک سے اپنا پاسپورٹ بھی پڑھنا نہیں آتا تھا… اپنی بیویوں کو ماں تو وہ بننے ہی نہیں دیتا تھا پھر بھی چار بچوں کا باپ بن گیا ان میں سے ایک میری بیٹی بھی ہے پولیس کے پکڑنے سے پہلے ہی وہ بیرون ملک بھاگ گیا… اس دوران فریال کا نام سننے میں آیا تھا مگر اس سے ملاقات نہیں ہو سکی۔
”فریال“ آذر کے دل و دماغ میں یہ نام گونجنے لگا بہت دیر سے گونجا… کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی… آنکھوں کی نمی نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔
”اس پر شادی کے نام پر غیر قانونی طور پر لڑکیوں کو ایکسپورٹ کرنے کا ہی الزام نہیں تھا،وہ ڈرگ سپلائر بھی تھا،ایک دو بیویوں سے اس نے یہ کام بھی کروایا تھا… خدا نے صرف شکل ہی اچھی دی تھی اور کچھ اس کی بول چال اچھی تھی ورنہ کوئی اس پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتا۔“
”آذر نے کہا تھا… اسے چاہا تھا… اپنی ماں کو دھتکارا تھا اتنے سال وہ فریال نامی عورت سے نفرت کرتا رہا۔
پاکستانی لوگوں کو بہت شوق ہوتا ہے جلد از جلد بیٹیوں کا بوجھ اتار پھینکنے کا… اتنی ہی بوجھ ہوتیں ہیں تو پیدا کیوں کرتے ہیں… کرتے ہیں تو گھروں میں ہی مار کر دفن کیوں نہیں کر دیتے،نادر جیسی قبریں کیوں دیتے ہیں… دو لڑکیاں جو اس کے ہاتھوں ڈرگ سپلائر بنی… انہوں نے جیل کاٹی… کس پاداش میں انہوں نے جیل کاٹی… نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ انہیں کس کے ساتھ بیاہا جا رہا ہے نہ ہی یہ کہ ان کا شوہر ان سے کیا کرنے کیلئے کہہ رہا ہے… ان سب کا نقصان ان کی کم علمی اور کم ہمتی کی وجہ سے ہوا… ان کے خاندان کی جہالت کی وجہ سے…
”فریال کا نقصان کیوں ہو…؟؟ صرف ایک آذر کی وجہ سے“
”بیرون ملک اس کے فرار ہونے کے کچھ عرصہ بعد مجھے خبر ملی کہ وہ امریکہ میں ڈرگ سپلائی کرتے ہوا پکڑا گیا ہے… وہ نو عمر ایشیائی لڑکوں کے ساتھ ایک اچھا خاصا بڑا گروپ چلا رہا تھا وہاں… اب وہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہا ہے… کیس اور جرم کوئی بھی ہو… سزا وہ فلم کی بھگت رہا ہے… اپنے گناہوں کی… بہت سوں کو اس نے زندہ درگور کیا… زندہ لاشیں بنا ڈالا انہیں… درندہ تھا وہ تو۔
”زندہ لاشیں جیسے… جیسے… فریال… زندہ درگور ہوئی… اس نے کس جرم کی سزا بھگتی…؟؟ آذر کی ماں ہونے کی…؟؟“ آذر الٹ پلٹ ہو گیا،نظروں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی… منظر دھندلنے اور کانپنے لگے۔
”میں چند ماہ پہلے ہی لندن شفٹ ہوئی ہوں… بیٹے کی یونیورسٹی کی وجہ سے… ورنہ اس شہر سے میری بہت سی تلخ یادیں وابستہ ہیں… خاص کر وہ پہلی مار جو نادر کے ہاتھوں کھائی… وہ گالیاں جو سنی… اس سے پہلے میں نے کبھی خود کو اتنا شرمندہ نہیں دیکھا تھا۔
”تھوڑے سے عرصے کی چند ماریں… بس… اور وہ اتنے سالوں کی ماریں…“ آذر نے سوچ ہی لیا… لیکن یہ سب کچھ اس نے بہت دیر سے سوچا۔
”کس کیلئے کھائی مار… جبکہ میں اس کی ایک پائی کی بھی محتاج نہیں تھی… اس کے جوتے کھانے کیلئے پیدا نہیں ہوئی تھی میں…“ کیا مضبوط انداز تھا خاتون کا۔
”میں تمہارے لئے اس کی مار بھی کھا لیتی آذر! اگر وہ تمہارا ذہنی سکون نہ برباد کر رہا ہوتا… میں کھاتی رہتی وہ مار… وہ تمہیں اپنے جیسا بنا رہا تھا… میں کیسے اسے یہ کرنے دیتی…“
”تم اسے ڈھونڈنے آئے ہو… حیرت ہے… لگتا ہے تمہاری ماں نے تمہیں اس کی اصلیت نہیں بتائی… یا پھر اس نے تمہارے سامنے تمہارے باپ کا عظیم پتلا بنا کر پیش کیا ہوگا… ورنہ تم اس سے ملنے کبھی نہ آتے… وہ انسان کے نام پر دھبہ ہے تو باپ کے نام پر تو اس سے کہیں زیادہ ہے…“
ایک کپکپاہٹ شروع ہوئی اس کے اندر… لرزتی پلکوں سے اس نے عین سامنے بیٹھی خاتون کی طرف دیکھا،جو خوبصورت اور پرسکون تھیں… اپنی عمر سے کم ہی نظر آ رہی تھیں،ایک اس کی ماں تھی… وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہو چکی تھی۔
”ہائے…“ وہ سات سال کا تھا جب نادر کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد وہ اس کے ساتھ سوئے ساری رات کراہتی رہی تھی۔
”ہائے نی ماں!“ وہ بڑبڑاتی رہتی۔
اس کے کان کے پردے پھٹنے کے قریب تھے یہ آوازیں… فریال کی کراہیں… آہیں… یہ اس کے کانوں میں کیسا صور پھونک رہی تھیں۔
”آذر آنٹی کا رونا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا… صرف ایک بار ان سے مل لو… ایک بار ان کی بات سن لو… وہ تمہاری ماں ہیں… انہیں ایک بار ہی سہی یہ حق تو دو… “
”کیا تمہیں ان کی حالت پر ترس نہیں آتا… ان کا رونا سن کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی… تم کیسے بیٹے ہو ان کے۔
جس دن تمہاری اصل نادر سے ملاقات ہو گئی اس دن تم دیواروں سے لپٹ لپٹ کر روؤ گے… وقت ہے ابھی آذر اپنی ماں کو سمجھ جاؤ… اسے اپنی باتوں سے ذلیل نہ کیا کرو… وہ عورت ذلیل ہونے کیلئے نہیں پیدا کی گئی کہ ایک ہی خون کے دو مرد اسے اس بری طرح سے پامال کریں گے،تمہاری ہی خاطر اس نے دوسری شادی نہیں کی اور وہ کرے گی بھی … اپنی ماں کی سانجھ بنو آذر…“ گوگی آنٹی نے کئی بار اسے سمجھایا… لیکن واقع وہ ایک ڈھیٹ انسان کا ڈھیٹ ہی خون تھا… اس نے اپنے باپ کے خون کا اثر لینا ہی منظور کیا۔
”کاش! تم ایک بار اپنی ماں کو ماں کی نظروں سے دیکھ لو… اپنی ماں کو گالی دے دو آذر ان نظروں سے مت دیکھو… تمہاری ماں تمہاری منت کرتی ہے…“
آگہی عذاب ہے… خاص کر اس صورت میں جب اس سے آگاہ ہوا جائے۔
اس کی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا… اس کی جذباتی حالت سے خاتون گھبرا گئی۔
”میں شرمندہ ہوں آذر… تمہیں بہت تکلیف دی میں نے… لیکن یہ سب تم نے ہی…“
”شرمندہ تو میں ہوں آنٹی… آپ تک آنے میں بہت دیر کر دی… اور آپ تک آنے میں ہی کیوں… میں نے اپنے ہی گھر جانے میں بہت دیر کر دی…“ وہ بمشکل خود کو قابو میں رکھ کر کھڑا ہو گیا۔
”امریکن جیل میں فون کرکے میں نے معلوم کیا تھا نادر کا… چاہو تو تم بھی…“ اس کے کھڑے ہوتے ہی وہ فوراً بولی۔ آذر نے ایک زخمی نگاہ ان پر ڈالی اور وہ خاموش ہو گئی۔
”میرا مقصد تمہیں تکلیف دینا ہرگز نہیں تھا…“ گھر سے باہر نکلتے اس نے ان کے یہ آخری الفاظ سنے… اس کی حالت دیکھ کر وہ اسے سچ بتا کر بھی شرمندہ ہو رہی تھیں… اس کی ماں نے بہت بار بلکہ ہر بار اسے ایسی ہی حالت سے بچانے کیلئے سچ سے دور رکھا تھا…
سڑک روشن… لیکن سنسان تھی اور وہ کھل کر رو سکتا تھا،دیواریں نہیں تھیں جن سے لپٹتا ہاں پچھتاوا بہت تھا… چلتے چلتے وہ تھک کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا… اس نے اپنے سر کو تھام لیا اور آنسوؤں کو گرنے دیا… پہلی بار یہ آنسو اس کی اپنی ماں کیلئے گر رہے تھے… پہلی بار اسے اپنی ماں کی حقیقت معلوم ہوئی تھی… وہ اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ سب سمجھ نہ سکتا،لیکن وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا… وہ بس نادر سے محبت اور فریال سے نفرت ہی کرتے رہنا چاہتا تھا۔
”ثانی…!“ بہت دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ثانیہ کو فون کیا ”ماں کا نمبر ہے تمہارے پاس۔؟“
نمبر ملتے ہی اس نے فوراً فون کیا… فریال کے فون پر بیل جا رہی تھی۔
”ماما…“ کال ریسیو ہوتے ہی وہ بولا۔
”اب کون سا حساب لینے کیلئے فون کیا ہے تم نے…؟“ نعمان کی کرخت آواز سنائی دی اُسے…
”آئی سی یو میں ہے وہ آ جاؤ اسے مرتا دیکھنے کیلئے تم بھی…“
لمبی سنسان سڑک کو اس نے پاتال کی طرف جاتے دیکھا۔
###
فریال کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا وہ آئی سی یو میں تھی،نعمان نے ایک سخت سی شکایتی نظر اس پر ڈالی اور بنا بات کئے ایک طرف ہو گیا… کوئی بھی اس کی طرف لپک کر نہیں آیا… گوگی آنٹی،ان کے شوہر… ان کے تینوں بچے تک موجود تھے وہاں… وہ سب اس کی ماں کیلئے پریشان تھے رو رہے تھے وہ اُسے قہر آلود نظروں سے گھور رہے تھے… وہ ٹھیک کر رہے تھے کم کر رہے تھے۔
اولاد کے نام پر تنہا زندگی کیسے گزاری جاتی ہے اس ہجر کی تصویر بنی فریال اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی،خدا جانے اب اس کے پاس کتنی سانسیں بچی تھیں… ان گنی چنی سانسوں تک اسے لانے والا وہی تھا… اس کا اکلوتا بیٹا۔“
آذر نے جرمنی فون کرکے ثانی اور نمل کو جلد سے جلد آنے کیلئے کہہ دیا۔
دو دن بعد جب فریال نے ہوش میں آکر دیکھنا شروع کیا تو اسے آذر اپنا ہاتھ چومتا نظر آیا… وہ بار بار اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں اور ہونٹوں کے ساتھ لگا رہا تھا۔
”ماما! وہ محبت سے پکار رہا تھا۔“
اس نے سوچا تھا کہ وہ آذر سے لپٹ جائے گی مگر آذر اس سے لپٹ رہا تھا،اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کا ماتھا چومے گی اور آذر اس کی پیشانی چوم رہا تھا… سوچ کی تعبیر الٹ ہوئی مگر بہت خوب ہوئی۔
لوگ کہتے ہیں مائیں معاف کر ہی دیتی ہیں۔ انہیں معاف کرنا ہی پڑتا ہے،کیونکہ وہ اس محبت کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہیں جو وہ اپنی اولاد سے کرتی ہیں،ماں وہ تختی ہے جس پر اولاد کچھ بھی لکھ سکتی ہے مگر ماں صرف ”محبت“ لکھتی ہے۔
#…#…#

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed