Episode 8 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 8 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

آزادی کے بیس کیمپ کے قائدین کے ان چار اہداف کا اثر کنٹرول لائن کی دوسری جانب بھی ہے جس کی واضح مثالیں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، غلام نبی آزاد اور سوزکی تقریریں، مکالمے اور زہر آلود بیانات ہیں جن سے ان کی منافقت، قوم سے غداری اور مٹی سے نفرت عیاں ہوتی ہے۔ یوں تو تحریک آزادی کشمیر کا آغاز اس روز سے ہوا جب یوسف شاہ چک نے سرینگر میں سنی شیعہ فسادات پر توجہ نہ دی اور فرقہ واریت کی وباء نے آن واحد میں وادی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چک خاندان نے اپنے مسلکی جذبات کو حکومتی فرائض پر حاوی کر لیا اور سنی عالم دین قاضی محمد عیسیٰ کو سری نگر میں ہاتھی کے پاوٴں تلے کچل کر سزائے موت دے دی۔ بلبل کشمیر حبہّ خاتون جو اپنے باکمال اوصاف اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ایک غریب گھرانے سے شاہی محل تک پہنچی اور والئی کشمیر کی ملکہ بنی، کا شوہر اپنی محبوب ملکہ کے خوابوں کو تعبیر نہ بخش سکا اور ہزاروں سال پرانی روایات کے حامل اور بدھ مت، شومت اور ناگ تہذیبوں کے امین وطن پاک کشمیر کے عوام کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کی بے انصافیوں، اقربأ پروری اور مسلکی تنگ نظری سے بچاوٴ کی خاطر اپنی آزادی کو غلامی میں بدل لیں۔

(جاری ہے)

چک بادشاہوں کی نا اہل قیادت سے تنگ آکر کشمیری علمأ کا وفد دہلی دربار پہنچا اور مغل بادشاہ اکبر کی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے اسے کشمیر پر فوج کشی کی دعوت دی۔
کشمیری قائدین کا جو وفد اکبر کے دربار میں پہنچا اس میں شیخ یعقوب صرفی، صوفی بابا داوٴد خاکی اور حیدر خان چک کے نام سرفہرست ہیں۔ تسخیر کشمیر کی اس دعوت پر اکبر نے مرزا قاسم امیر البحر کو ساٹھ ہزار کی ایک جری فوج دیکر بھمبر، پونچھ، اوڑی اور بارہ مولہ کے راستے کشمیر بھیجا جس کی قیادت کشمیری جرنیل حیدر خان چک ہی کررہا تھا۔
مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد کشمیری افواج کو غیر مسلح کیا اور آئندہ کسی کشمیری کو نہ صرف فوج میں بھرتی کرنے پر پابندی لگادی بلکہ کشمیریوں کو ہتھیار رکھنے سے بھی منع کردیاگیا۔ سارے کشمیر کی زمین بحق سرکار ضبط کرلی گئی اور کسانوں کے مالکانہ حقوق ختم کر دیئے گئے۔ مغلوں نے کشمیر میں تعمیر و ترقی کے کارہائے نمایاں تو انجام دیئے مگر شخصی آزادی اور اہل کشمیر کے قومی وقار اور خودداری کو ہمیشہ کیلئے مسخ کردیا۔
مغلوں نے کشمیریوں کو بکر والوں، قالین بافوں، خوانچہ فروشوں، گھریلو ملازمین اور باربرداروں کی قوم بنا کر انہیں اپنی تاریخ اور قومی تشخص سے بیگانہ کردیا۔ 167سالہ مغلیہ دور کے فریب سے نجات حاصل کرنے کیلئے کشمیریوں کا ایک وفد محمد شاہ کشمیری کی قیادت میں ملتان پہنچا اور 1753ء میں احمد شاہ ابدالی کو تسخیر کشمیر کی دعوت دی۔
اس بار حیدر خان چک کی جگہ خواجہ ظہیر اور میر مقیم افغان افواج کی رہنمائی کرتے ہوئے کشمیر پہنچے جن کا سپہ سالار عبداللہ خان ایشک اقاصی تھا۔
کشمیری قائدین نے افغانوں کو نجات دہندہ سمجھ کر مغلوں سے خلاصی حاصل کرنے کے لئے بلایا مگر بقول شاعر
ناگہاں چوں بلائے دامن گیر
شاہ اقاصی رسید در کشمیر
افغان بلحاظ مذہب تو مسلمان تھے مگر ان کے مظالم نے درندوں پر بھی خوف طاری کردیا۔ افغانوں نے کشمیری خواتین پر بغیر اجازت کے شادی پر پابندی عائد کردی یعنی اگر کوئی جوان لڑکی افغانوں کو پسند نہ آتی تو وہ کسی کشمیری سے شادی کرلیتی۔
افغان سپاہی کی تلوار ہمیشہ بے نیام رہتی اور ایک ایک سپاہی اپنی خدمت کے لیے کئی لونڈیاں اور غلام رکھتا۔ عام آدمی پر ٹیکسوں کا اس قدر بوجھ ڈالا گیا کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے اور راتوں کو چھپ چھپ کر پنجاب کی طرف ہجرت کرتے۔ اس دور میں بڑی تعداد میں کشمیری پنجاب کے ضلع سیالکوٹ، گجرات، گجرانوالہ، جہلم اور کچھ بہار اور بنگال کی طرف چلے گئے۔
اس دور کے شاعر وں، ادیبوں اور دانشوروں نے افغان حکمرانوں کے ظلم و ستم اور بربریت کی بدترین مثالوں کو قلم بند کیا اور اس 66سالہ تاریک دور کو کشمیریوں کی مسلسل نسل کشی کا دور لکھا۔
افغانوں کے ظلم و بربریت کے 66سال پورے ہوئے تو کشمیری قائدین کا تیسرا وفد اپنے آبادواجداد کا توشہء غیرت لیکر رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچا اور سکھوں کو دعوت تسخیر دی۔
پریم ناتھ بزاز کے مطابق دہلی اورملتان جانے والے وفود اور سکھوں کے سامنے آزادی کا سودا کرنے والے وفد میں صرف اتنا فرق تھا کہ پہلے وفود مسلمان کشمیریوں پر مشتمل تھے جبکہ خالصہ دربار میں جو کشمیری وفد پہنچا اس میں ہندوپنڈت اور مسلمان کشمیری برابر شریک ہوئے۔ کشمیری قائدین کی دعوت پر سکھوں نے کشمیر پر حملہ کیا تو مقامی لوگوں نے سکھوں کی مدد سے افغانوں سے تو نجات حاصل کرلی مگر حکمرانوں کے ظلم و تشدد میں کوئی فرق نہ آیا۔
مشہور کشمیری مورٴخ محمد دین فوق کے مطابق افغان دور ایک تلخ گھونٹ تھا تو سکھ زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے۔ افغان عید شب برات منانے اور نماز روزے کی حد تک کشمیریوں کو مسلمان سمجھتے ہوئے چھوڑ دیتے مگر سکھوں نے مسجدوں کو اصطبلوں میں بدل دیا ، مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی اور خانقاہوں، درس گاہوں اور دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کو قفل لگادئیے۔
معمولی جرائم پر سرعام پھانسیاں دی جاتیں اور سزا پانے والوں کی لاشیں کئی کئی روز تک بازاروں میں لٹکی رہتیں۔ گاوٴکشی پر پابندی عائد کردی اور مسلمان کشمیریوں کو چمڑے کا جوتا پہننے سے منع کردیا تاکہ لوگ ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں نہ جاسکیں۔ سکھ حکمرانی کے 27سالہ دور میں کشمیری مغلوں اور افغانوں کے مظالم بھول گئے اور سکھوں سے نجات حاصل کرنے کا سوچنے لگے۔
اس سے قبل کے سکھ دور کا خاتمہ کسی بغاوت یا جدوجہد کی صورت میں ہوتا پنجاب میں سکھ عروج کو زوال نے دبوچ لیا۔ 1846ء میں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دی اور تاوان جنگ میں کشمیر 75لاکھ نانک شاہی کے عوض جموں کے مقامی راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ یوں ہزاروں سالہ خودمختاری غلامی کے 260سال گزارنے کے بعد 75لاکھ روپوں کے عوض بک کر ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جو غلامی ہی کی ایک نئی صنف تھی۔
ڈوگرہ راج جس کا دائرہ ایک صدی پر محیط ہے مقامی شخصی حکمرانی کی ایک بدترین مثال ہے۔ کشمیر پر ڈوگرہ حکمرانی کو برطانوی ہند کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی چونکہ جب بھی کشمیریوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف آواز اٹھائی برطانوی ہند نے ڈوگروں کی حفاظت اور امداد کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال کر عوام کی آواز کو دبا دیا۔ ڈوگرے مقامی حکمران تھے مگر جبرواستبدادا نہیں سکھوں، افغانوں اور مغلوں سے ورثے میں ملا تھا۔
ڈوگرہ راج اور اس سے قبل مغل اور افغان دور میں ایک واضع فرق یہ تھا کہ کشمیر پر مسلط گورنر مسلمان ہوتے تھے جو اپنی حکومتوں کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے کی خاطر کشمیری عوام پر ظلم ڈھاتے۔ یہ گورنر چونکہ مقامی لوگ نہیں ہوتے تھے اس لئے ان کا عوام سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ڈوگرہ راج کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حکمران مقامی تھے اور ان کا عوام سے بھی کسی نہ کسی صورت رابطہ رہتا مگر جبروتشدد میں وہ اپنے پیش روحکمرانوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja