Episode 9 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 9 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

1947ء میں تقسیم ہند کا وقت آیا تو اہلیان کشمیر کی امیدیں بھر آئیں مگر حسب سابق کشمیری قائدین کے وفود دہلی اور راولپنڈی کی طرف چل نکلے۔ اس سے قبل کہ وہ باہمی مشورے سے وقت اور حالات کے دھارے کا رخ اپنی جانب کرتے، انہوں نے سب کچھ دوسروں کے در پر رکھ دیا اور اپنی قسمت کا فیصلہ سیاست کے نیم حکیموں کی مرضی و منشاء پر چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ قبل آزادکشمیر کے پہلے صدر بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان(مرحوم) کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں موصوف نے فرمایا کہ 1947ء میں مجاہدین نے جو حکمت عملی اپنائی وہ غلط تھی۔
مجاہد فورس کے کمانڈروں نے اپنی ساری قوت مظفر آباد، اوڑی اور بارہ مولہ کی طرف لگادی اور مجاہدین سرینگر پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اگر اس وقت جنگی حکمت عملی کا درست تعین ہوتا تو بڑی قوت میرپور سے بھمبر اور پھر آگے جموں اور نوشہرہ کی طرف لگائی جاتی۔

(جاری ہے)

اس مجاہد فورس کو جہلم، گجرات، سیالکوٹ سے لگاتار کمک ملتی اور مجاہدین آسانی سے جموں پر قبضہ کرلیتے۔

اس لمحے اگر بھارت میدان جنگ میں آدھمکتا تب بھی مجاہدین با نہال پر آسانی سے قبضہ جمائے رکھتے اور نوشہرہ کے گردو نواح کے علاقہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں کامیاب رہتے۔ بھارت کی جانب سے ممکنہ مداخلت کو آسانی سے روک کر قبائلی لشکر کو کسی بہتر منصوبہ بندی اور ریٹائیرڈ فوجی افسران کے زیر قیادت پونچھ، سرینگر اور بانہال کے شمال میں بھیجا جاتا تاکہ وہ مقامی کشمیری آبادی کو تکلیف پہنچائے بغیر ڈوگرہ افواج کو کنٹرول کرتے۔

حیرت کی بات ہے کہ سردار صاحب نے پچاس سال گزارنے کے بعد اس حقیقت کا اعتراف کیا جبکہ ایک عام آدمی بھی کشمیروار کونسل کی جنگی حکمت عملی کو دیکھ کر فیصلہ کرسکتا ہے کہ یہ کونسل عقل سے خالی لوگوں کا ایک جتھہ تھا جو محض خانہ پری کیلئے تشکیل دیا گیا جن کا کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔ سردار ابراہیم کے بیان سے منسوب وکٹوریہ سکوفیلڈ نے "کشمیرآن کراس فائیر"میں بڑی دلچسپ حقیقت کا انکشاف کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد ایک عام قاری اس بات کا اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ تحریک کسی بھی طرح کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی تھی۔
وکٹوریہ کے مطابق سردار صاحب نے فرمایا کہ دوسری عالمی جنگ میں ریاست جموں و کشمیرکے 71666لوگوں نے برٹش انڈین آرمی کی جانب سے حصہ لیا جن میں 60402مسلمان فوجیوں کا تعلق میرپور اور پونچھ سے تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت بھی برادری ازم کی لعنت سے اہلیان کشمیر کے دل و دماغ بالکل پاک اور صاف نہ تھے اور سردار صاحب کو سبھی لوگ اپنا قائد اور لیڈربھی نہ مانتے تھے۔
برادری ازم کے جراثیم کئی سال پہلے ہی پنجاب کے نودولتیے سیاسی گھرانوں اورکانگریسی چالبازوں نے بطور خاص کشمیر بھجوائے تاکہ کشمیریوں میں سادگی، باہم دوستی اور بھائی چارے کی فضا ختم ہوجائے اور وہ برادریوں کے نام پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوکر اپنے ازلی اور ابدی دشمن سے توجہ ہٹا لی۔ یہی حال لاہوری پریس کا بھی تھا ۔جناب حمید نظامی شیخ عبداللہ کی حمایت کرتے تھے اور مسلم کانفرنس کو رجعت پسند جماعت کہتے تھے۔
نوائے وقت،انقلاب، احسان اور زمیندار جیسے بڑے اخبار 1946ء میں کھل کرشیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے حمایتی بن گئے جس کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچا۔ان حالات میں سرینگر سے شائع ہونے والا روزنامہ ہمدرد واحد اخبار تھا جو مسلم کانفرنس کا حامی تھا۔ یاد رہے کہ یہ اخبار جناب پریم ناتھ بزاز نکالتے تھے جسکا مطالعہ حضرت قائد اعظم  بھی کرتے تھے۔
قائداعظم  نے اس اخبار کی حمایت میں مضمون لکھا اور پریم ناتھ بزاز کا شکریہ بھی ادا کیا۔ آزادکشمیر جسے آزادی کا پلیٹ فارم بناکر تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کا منصوبہ بنتا، ابتدا ہی سے یہ پلیٹ فارم طوائف الملوکی کی نظر ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آزادی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کی جگہ کاغذی لیڈروں، پاوٴنڈمافیا اورٹن قائدین نے لے لی۔
شہزور خان، آغا جان، سردار شمس خان، سردار راج ولی خان، راجہ شیر خان، راجہ اکبر خان، کیپٹن بابر خان، کیپٹن حسین خان، لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان اور نائیک سیف علی جنجوعہ سے لے کر تادم تحریر لاکھوں شہیدوں کی قربانیاں بھلادی گئیں اور کشمیری قوم کو آزادی کے ان متوالوں اور آزادی کی شمع روشن رکھنے کی خاطر اپنے خون کا عطیہ پیش کرنے والوں کے ناموں کی پہچان بھی نہ رہی۔
چیچنیا، بوسنیا ، افغانستان، انگلینڈ، آئیرلینڈ حتیٰ کہ فرانس، روس اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کو وطن و قوم کی آزادی کے لئے قربانیاں دینے والوں کی یادگاریں اور کتبے جگہ جگہ نظر آئینگے۔ آپ جب ان ممالک میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے جو نام آپ کو پڑھنے کو ملتا ہے،جو مجسمہ آپ دیکھتے ہیں، جو دروازہ اور پل آپ پار کرتے ہیں، جس ائیرپورٹ اور بندرگاہ پر آپ اترتے ہیں وہ کسی نہ کسی ہیرو سے منسوب ہوتا ہے۔
کشمیر جوکہ تین سودس سالوں سے غلام در غلام چلا آرہا ہے۔ جس کی سات نسلیں آزادی کی جنگ لڑچکی ہیں۔ جس کے شہدأ کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ ہے میں آپ جب داخل ہوتے ہیں تو یہاں آپ کے استقبال کے لئے کوئی شہزور، شمس خان، حسین خان، راجہ شیر خان، مظفر خان، راجہ اکبر خان اور سیف علی جنجوعہ شہید نہیں ہوتا۔ آپ کو ان نامو ں کی تختیاں، آزادکشمیر کے تعلیمی نصاب میں ان کا ذکر یا ان سے منسوب کوئی بڑی یادگار نظر نہیں آتی۔
آپ اگر شہیدوں اور غازیوں کے چمنستان پونچھ میں داخل ہوں تو آپ کو مجاہد اوّل گیٹ سے جبکہ بھارتی اور ڈوگرہ فوج کا غرور توڑنے والے مجاہدوں کے دیس میرپور میں داخلے کے وقت باب سلطان سے گزرنا پڑتا ہے۔ باب سلطان پر اٹھنے والے اخراجات اور مدت تعمیر بھی ایک تاریخی کارنامہ ہے جس کا ذکر یہاں ضروری نہیں۔ باب سلطان سے آگے قد آدم تصویروں کا ایک بازار نظر آتا ہے جن میں حالیہ اور سابقہ وزرأ،وزراء اعظم اور سیاسی لیڈروں کی تصویریں کیکروں کے جھنڈ میں بڑی شان سے سجائی گئی ہیں۔
ان سے آگے میرپور شہر (جسے منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد جدید طرز پر تعمیر کیا گیا ہے) میں داخل ہونے سے پہلے بھٹو پارک اور بینظیریونیورسٹی کی دیوار ہے جس کی کوئی بڑی وجہ نظر نہیں آتی۔ آپریشن جبرالڑ سے شملہ معاہدے تک کوئی بڑا واقع تاریخ میں نہیں جو اس تاریخی پارک اور کاغذی یونیورسٹی کی وجہ کی تشریح کرے۔ کوٹلی میں داخلے کے وقت کہیں نائیک سیف علی جنجوعہ نشان حیدر یا ہلال کشمیر کا کتبہ یا دروازہ بھی نظر نہیں آتا بلکہ جنگلوں میں سڑک کے کنارے کچھ چیڑ کے درختوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے تنوں پر کچھ وزرأ کی تصویریں ٹھونکی ہوئی ہیں جس سے حکومت کی کشمیر پالیسی اور تحریک آزادی کشمیر کے ٹھیکیداروں کی تشہیر کی ایک جھلک دکھلائی دیتی ہے۔
تحریک آزادی کشمیر سے سرکاری قیادت کا خلوص نہ صرف وزرأ کی شاہانہ زندگیوں سے جھلکتا ہے بلکہ ان کے کردارو گفتار سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ تحریک میں ان لوگوں کا کیا کردار ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja