Episode 12 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 12 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

باغ، راولاکوٹ اور پلندری میں سردار صاحب کا اپنا قبیلہ موجود تھا اور اس وقت ان کے خلاف کوئی اپوزیشن بھی نہیں تھی۔ مری بیٹھنے کے بجائے وہ چاہتے تو پنجاب اور صوبہ سرحد کا دورہ کرتے۔ خان عبدالقیوم خان سے رابطہ کرکے بہتر کوالٹی کا اسلحہ اور ایمونیشن اکٹھا کرتے اور ان کے پاس جو ساٹھ ہزار ریٹائیرڈ فوجی موجود تھے انہیں مختلف یونٹوں میں تقسیم کرتے اور ایک باقائدہ فورس بنا کر کمانڈروں کو مری بلاتے اور انہیں اپنے منصوبے سے آگاہ کرتے۔
اس سلسلہ میں وہ میرپور، کوٹلی اور بھمبر کے سابقہ فوجیوں سے بھی رابطہ کرتے اور اپنے منصوبے سے آگاہ کرتے تاکہ ایک وسیع علاقے پر کم وقت میں قابض ہوکر اپنی عسکری اور سیاسی پوزیشن بہتر کر لیتے۔ مقامی کمانڈروں کی تعیناتی کے بعد ان لوگوں کے ذریعے وہ سابقہ فوجیوں پر مشتمل دستے تیار کرتے اور ان میں اسلحہ تقسیم کرکے انہیں مناسب موقع پر مسلح کاروائیوں کا حکم دیتے۔

(جاری ہے)

اگر نکیال اور پنجن سے خچر سوار پیغام رسان دوسرے روز پلندری اور تیسرے روز مظفر آباد پہنچ سکتا تھا تو کوٹلی، میرپور اور بھمبر کو ایک سیکٹر بنا کر اور باغ، راولاکوٹ، پلندری، ہجیرہ اور پونچھ کو دوسرا اور مظفر آباد کو تیسرا سیکٹر بنا کر مقامی کمانڈ سسٹم کے ذریعے تحریک کو بہتر اور منظم طریقے سے چلایا جاسکتا تھا۔ اسی طرح قبائلی لشکریوں پر بھی مقامی کمانڈروں کا کنٹرول ہوتا اور وہ ان کے ماتحت یا پھر ان کی رہنمائی میں لڑتے تو جولغزشیں قبائلیوں سے سرزد ہوئیں ان سے بچا جاسکتا تھا۔
سردار صاحب نے پاکستانی فوج کے مسلمان افسروں اور سیاسی قیادت سے بھی خاطر خواہ رابطہ نہیں کیا۔ خان آف قلات، نواب آف بہاولپور، نواب آف ٹانک سمیت درجنوں جاگیرداروں اور نوابوں کے پاس اپنی انفٹری اور توپخانہ موجود تھا۔ اگر کشمیری لیڈر کسی منصوبہ بندی کے ساتھ ان سرداروں کے پاس جاتے تو ان میں سے کوئی نہ کوئی انہیں ایک دو فیلڈ گنیں، چند سو گولے، دوچار مشین گنیں اور دو تین سو رائفلیں دے دیتا۔
اگر نہ دیتا تو آج ہم ان لوگوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہوتے۔ اسی طرح خان عبدالقیوم خان کے علاوہ لاہور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں کئی متوسط گھرانے اور شخصیات موجود تھیں جن کا تعلق کشمیر سے تھا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو مالی مدد بھی کرسکتے تھے جس سے بہتر اسلحہ اور ایمونیشن خریدا جاسکتا تھا۔ سردار صاحب خوش قسمت لیڈر تھے کہ ان کے پاس اپنی ہی مٹی کے ساٹھ ہزار سے زیادہ تربیت یافتہ فوجی موجود تھے جو دوسری عالمی جنگ کے آزمودہ کار سپاہی تھے۔
اگر سردار صاحب ان کا بہتر استعمال کرتے تو قبائلی لشکریوں کی کشمیر میں ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ انہیں جموں کی طرف بھجوایا جاتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
ادارہ مطالعہ کشمیر آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد نے جناب ڈاکٹر محمد سرور عباسی کی خود نوشت" تحریک پاکستان کے سیاسیات کشمیر پر اثرات" میں جن حالات اور واقعات کا ذکرہے ان میں سردار ابراہیم صاحب کی خود نوشت کی نسبت منصوبہ بندی کا کچھ واضع عکس دکھائی دیتا ہے۔
عباسی صاحب کے مطابق سردار ابراہیم صاحب حالات کی سنگینی کے پیش نظر اپنے دوساتھیوں راجہ عبدالحمید آف مظفرآباد اور سلطان حسن علی خان کے ہمراہ پہلے لاہور اور پھر کوہ مری پہنچے۔ کوہ مری پہنچ کر سردار صاحب نے مسلم کانفرنس کے پونچھ سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کا اجلاس بلایا اور آزادی کشمیر کا منصوبہ تیار کیا۔ مصنف کے مطابق ان اجلاسوں میں ہزارہ اور راولپنڈی کے سرکردہ اشخاص بھی آتے تھے۔
شرکاء پیر آف مکھڈ شریف کی کوٹھی میں جمع ہوتے اور تحریک آزادی کی منصوبہ بندی ہوتی۔ ان جلاسوں میں جن اہم شخصیات کی شمولیت کا ذکر ہے ان میں سردار عبدالقیوم خان، مولوی غلام حیدر آف جنڈالہ، کیپٹن حسین خان شہید کے علاوہ مری اور راولپنڈی کے کچھ اصحاب، کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر خان اللہ داد خان، مری کے نائب تحصیلدار راجہ سلطان مقصود کا بھی ذکر ہے۔
ڈاکٹر عباسی کے مطابق ہتھیار اور ایمونیشن تین سرکردہ کمانڈروں یعنی سردار عبدالقیوم خان، کیپٹن حسین خان شہید اور کیپٹن خان محمد خان میں تقسیم کرکے انہیں بتدریج باغ، راولاکوٹ اور پلندری سیکٹر کا کمانڈر مقرر کیا گیا اور تینوں کمانڈروں نے دس روزکے اندر اپنے علاقے فتح کرلئے۔ گوکہ کتابوں میں اس کا ذکر نہیں مگر بزرگ مجاہدین کے مطابق پلندری سے ڈوگرہ فوج خود ہی پسپا ہوگئی چونکہ آزاد پتن پر راجہ سخی دلیر نے شب خون مار کر قبضہ کر لیا تو ڈوگروں کے حوصلے پست ہوگئے۔
راجہ سخی دلیر نے سرساوہ، سنہسہ، کوٹلی، کھجورلہ، رٹہ اور ناڑ سے بہت سے سابقہ فوجیوں کو اکٹھا کیااور اپنی مدد آپ کے تحت ان علاقوں میں ڈوگروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ راجہ سخی دلیر خان برٹش ائیر فورس کے سابقہ چیف ٹیکنیشن تھے۔ وہ گوریلہ جنگ کے اصولوں پر کاروائی کرتے اور کمانڈو ایکشن کرکے دشمن کے سپلائی ڈپو اور کیمپوں پر حملہ آور ہوتے۔
جب سخی دلیر نے دریائے جہلم کا مغربی کنارہ غیر محفوظ بنادیا تو ڈوگروں کیلئے ان علاقوں بشمول پلندری اور بارل میں رہنا مشکل ہوگیا۔
راجہ سخی دلیر نے میرپور کے راجہ دلاور)بریگیڈیر دلاور( میجر راجہ افضل اور میجر راجہ عبدالرحمان سے رابطہ کیا اور پلندری کے سیکٹر کمانڈر خان محمد خان کو بھی میرپور آنے کی دعوت دی۔
خان صاحب کی فورس چونکہ تازہ دم تھی اور بہتر سمت سے حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھی اس لئے میرپور چھاوٴنی پر قبضہ آسان ہوگیا۔ اگرچہ میرپور میں محصور ڈوگرہ فوج کو جموں اور نوشہرہ سے کمک مل رہی تھی اور اس سلسلہ میں ڈوگرہ اور بھارتی افواج کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر بھرپور کوشش میں تھیں کہ کسی نہ کسی طرح میرپورپر قابض رہا جائے۔ مگر میرپور کی طرف جموں اور نوشہرہ سے جتنی بھی امداد بھیجی جاتی اسے مقامی مجاہدین نے بھمبر، سما ہنی اور سراہ سے آگے نہیں جانے دیا بلکہ گھات لگا کر دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja