Episode 14 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 14 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

سردار حجازی کے مطابق کرنل خان محمد خان صاحب کو قائد تحریک سردار ابراہیم خان نے میرپور اور کرنل شیر احمد خان کو کوٹلی کا کمانڈر مقرر کیا۔ سردار صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کشمیر روائتی طورپر ایک قبائلی رسم و رواج کا حامل خطہ ہے اس لئے جہاں کسی شخص کی برادری یا قبیلہ نہ ہو وہاں پاوٴں جمانا مشکل ہوجاتا ہے۔ سردار عبدالقیوم خان کے مطابق کشمیر کا اولین المیہ ذہانت ہے۔
لوگ ہر کسی کو باآسانی لیڈر نہیں مانتے۔ کرنل خان محمد خان اور کرنل شیر کی کوٹلی اور میرپور میں کوئی برادری نہیں تھی اور نہ ہی علاقہ کے عوام ان سے واقفیت رکھتے تھے۔ بقول جنرل اکبر کے اس وقت سردار ابراہیم صاحب بھی اتنے مقبول نہیں تھے اور نہ ہی عام آدمی ان سے واقف تھا۔ اس لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کے نامزد کمانڈروں نے میرپور اور کوٹلی از خود فتح کر لیے۔

(جاری ہے)

اگر سردار صاحب نے میرپور اور کوٹلی کیلئے کمانڈر مقرر کئے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ مظفرآباد اور بھمبر کے لئے بھی کمانڈر مقرر کرتے۔ قبائلی لشکریوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دیتے اور پاکستان آرمی اور صاحبان اقتدار سے بھی رابطہ کرتے۔ سردار حجازی صاحب میجر راجہ افضل، میجر راجہ عبدالرحمن، راجہ اکبر خان،راجہ دلاور خان آف میر پور ،کرنل راجہ محمود خان آ ف تھروچی ، راجہ بڈھا خان آف سما ہنی ، راجہ رحم علی خان آف بڑوھ، لیفٹنٹ راجہ مظفر خان شہید آف پنجن ستارہ جرأت (دوبار) ذیلدار راجہ ولائت خان سفید پوش آف نرماہ، ذیلدار محمد خان جرال اور سردار فتح محمد خان کریلوی کو بالکل ہی بھول گئے۔

سردار حجازی کی تاریخ اور آزاد کشمیررجمنٹ کی تاریخ جسے آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر نے شائع کیا ہے میں بھی واضح تضاد ہے۔ یہ تضاد ان واقعات کی حقیقت سے دوری کا بھی غماز ہے چونکہ ان کا حقیقت سے واسطہ نہیں۔ سردار حجازی کے مطابق سردار محمد ابراہیم خان نے ایک لشکر جرار دے کر جناب کرنل خان محمد خان کو میر پور فتح کرنے بھیجا جبکہ سرکاری تاریخ کے حصہ اول صفحہ 246پر درج ہے کہ ماہ اکتوبر 1947ءء میں کرنل خان اور حوالدار فقیر محمد خان آف جنڈالی ضلع پونچھ جو کہ پونچھ بس سروس کے مالک تھے میرپور آئے اور بلاہ گالہ (موجودہ میرپور شہر) کے مقام پر گھات لگا کر ڈوگرہ فوج کی ڈاک سروس کے موٹر سائیکل سوار سے سٹین گن اور موٹر سائیکل چھین لیا۔
کرنل خان اور حوالدار فقیر محمد نے اس سٹین گن کی مدد سے گوبندپور کے پولیس سٹیشن پر چھاپہ مارا جہاں سے نورائفلیں اور ایمونیشن ان کے ہاتھ لگا جس سے کرنل خان نے ایک والنٹیئر فورس تیار کی جو کہ بعد میں سدھن بریگیڈ بن گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ دو آدمی پونچھ سے میرپور آتے ہیں جہاں ان کی کوئی جان پہچان نہیں۔ پھر ایکشن فلموں کی طرح وہ موٹر سائیکل اور سٹین گن چھین لیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک فورس ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے جسے وہ سدھن بریگیڈ کا نام دیکر ایک بڑا اور قدیم شہر جو کہ ایک تربیت یافتہ فوج کی چھاوٴنی بھی ہے پر چند دنوں کے اندر قبضہ بھی کر لیتے ہیں۔
سردار حجازی کی تحریر میں پونچھ شہر کے محاصرے اور ناکامی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کہ جن لوگوں نے گیارہ دنوں میں پلندری، راولاکوٹ، باغ، ہجیرہ اور ملحقہ علاقے ڈو گرہ فوج سے آزاد کروا لیے وہ پونچھ جیسے محصور اور امداد سے محروم قصبے کو فتح کیوں نہ کر سکے ۔غیر جانبدار مبصرین اور مجاہدین کے مطابق کیپٹن حسین خان کی شہادت کے بعد سردار عبدالقیوم خان اور دیگر کمانڈروں میں اختلافات پیدا ہوگئے چونکہ ہر کمانڈر اپنے مفاد اور ذاتی تشہیر کی جنگ لڑنا اور ہیرو بننا چاہتا تھا۔
سردار عبدالقیوم کا تعلق باغ سے تھا اور وہ برٹش آرمی میں لانس نائیک کے عہدے پرتھے۔1945ءء میں وہ برٹش آرمی سے فارغ ہو کر آئے اور 1948ءء تک وہ پونچھ سولجر بورڈکے دفتر میں بحثیت کلرک خدمات سر انجام دیتے رہے۔سردار صاحب نے سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ کے محکمے میں نوکری کی تھی اور انہیں لڑاکا دستوں کی کمان کا بھی تجربہ نہ تھا۔ سردار عبدالقیوم کی اپنی برادری (ڈھونڈ راجپوت جو اب عباسی کہلاتے ہیں) اتنی بڑی نہ تھی کہ وہ سدھن بٹالین اور بریگیڈ وں کی طرح کوئی ڈھونڈ فورس قائم کرتے اس لئے مجبوراً انہیں باغ کے نارمہ، ملدیال، تیزیال، سادات اور دیگر راجپوت قبیلوں کا سہارا لینا پڑا۔
کیپٹن حسین خان شہید کی طرح کرنل خان اور دیگر کمانڈر برٹش آرمی کے اعزازی کمیشنڈ افسر اور نان کمیشن افسر تھے جن کا جنگی تجربہ سردار عبدالقیوم خان سے بدر جہا بہتر تھا۔ سدھن قبیلے سے تعلق کی وجہ سے انہیں اپنے ہی قبیلے کے ریٹائیرڈ فوجی دستیاب تھے جس کی وجہ سے انہیں سدھن کمپنیاں، بٹالین اور بریگیڈ بنانے اور اپنی اپنی پسند کے عہدے تخلیق کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔
سدھن آرمی کی نسبت سردار عبدالقیوم کی فوج کم تھی اس لئے انہیں مجاہد اوّل کے لقب پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کی مرتب کردہ تاریخ میں سردار عبدالقیوم کو بھی ایک بٹالین کی قیادت کا اعزاز بخشا گیا ہے مگر ان کی فتوحات کا ذکر مختصر اور مشکوک انداز میں کیا گیا ہے۔ دیگر مصنفین نے بھی مجاہد اوّل اور ان کی باغ بٹالین کا ذکر کیا ہے جو شیر کیمپ کے علاقے تک گئی جب وہاں کوئی ڈوگرہ فورس موجود نہ تھی۔
اوڑی کی جانب قبائل نے پیش قدمی کی تو باغ بٹالین اور مجاہد اوّل پونچھ کا محاصرہ کرنے والی فورس میں شامل ہوگئے مگر سدھن کمانڈروں اور عہدیداروں نے انہیں ساتھ ملا کر کسی بڑے ایکشن کی منصوبہ بندی نہ کی۔ پونچھ کے محاصرے کے کچھ ہی روز بعد پاکستان آرمی کے کچھ افسر اور ایک مختصر فورس پونچھ محاذ پر جا پہنچی اور عملاً کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ لگتا ہے کہ مجاہد اوّل نے کمان کی تبدیلی اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی آمد کے بعد کا منظر اپنی مستقبل بینی سے بھانپ لیا اور محض ایک برائے نام بٹالین کے قیادت کو ریاست کی قیادت پر قربان کردیا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja