Episode 15 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 15 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

بعض تحریروں میں لکھا ہے کہ مجاہد اوّل اچانک محاذ جنگ سے چلے گئے اور سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا تاکہ مستقبل کے سیاسی محاذ پر وہ عظیم کامیابیاں سمیٹ سکیں۔ مجاہد اوّل اصل میں سیاستدان ہی تھے سپاہی نہ تھے۔ اگر وہ پونچھ کے حصار پر بیٹھے رہتے تو کرنل خان اور دیگر کی طرح کبھی ایم ایل اے اور وزیر بھی نہ بن پاتے اور ان کا مجاہد اوّل کا خطاب بھی ان کے نام نہ آتا۔

پونچھ کا محاصرہ اور ناکامی مجاہدین پونچھ کے لئے ایک سانحہ نہ سہی مگرتحریک آزادی کشمیر کی ناکامی کا ایک اہم موڑ ہے۔ پونچھ پر یلغار نہ کرنا، جموں محاذ پر توجہ نہ دینا اور بارہ مولہ کے باہر بیٹھ کر سیاسی محاذ کھولنا اور گلگت و بلتستان میں برسر پیکار مجاہدین سے رابطہ نہ رکھنا ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس جواب نہیں۔

(جاری ہے)

  انقلاب پونچھ کے مصنف کے خیالات و افکار سے پتہ چلتا ہے کہ اصل انقلاب پونچھ میں آیا اور پونچھ تک ہی محدود رہا۔اسی طرح مصنفین پونچھ اور دیگر قلمکاروں نے جموں اور نوشہرہ سیکٹر کا ذکر کبھی سرسری انداز میں کیا یا پھر سرے سے کیا ہی نہیں۔ کسی بھی مصنف نے راجہ بڈھا خان آف سماہنی، چوہدری رحم علی خان آف بڑھو کے علاوہ بھمبر، برنالہ اور کوٹ جیمل کے مجاہدین کا ذکر ہی نہیں کیا اور نہ ہی گجرات میں بسنے والے کشمیریوں کی قربانیوں کا ذکر کیا جو انہوں نے مناور پر حملے کے دوران پیش کیں۔
مناور (چھمب) پر مجاہدین کی یلغار اور ناکامی تاریخ آزادی کشمیر کا اہم اور منفرد واقع ہے جس کی وجہ سے مہاراجہ کشمیر اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے مسلم کش منصوبے کی قلعی کھل گئی اور لاکھوں مسلمان تہہ تیغ ہونے سے بچ گئے۔ بھمبر ہی کے مقام پر مجاہدین نے پہلا بھارتی جنگی جہاز مار گرایا اور پائلٹ اور معاون پائلٹ مجاہدین کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔
میرپور کے بعد بھمبر گیریژن ڈوگرا افواج کا مضبوط گڑھ تھا جس کی تسخیر کے بغیر میرپور سے کیل تک سارا علاقہ پھر سے ڈوگرہ اور بھارتی دسترس میں آسکتا تھا۔ بھمبر گیریژن کی تسخیر تحریک آزادی کشمیر کا ایک اہم موڑہے مگر مصنفین پونچھ نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی۔
تحریک آزادی کشمیر کو ناکام بنانے اور سیوک سنگھیوں کی جموں کیمپ میں مقیم تین لاکھ مسلمانوں جن میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی کو گولیوں کا نشانہ بنوانے میں الفرقان بریگیڈ کا اہم کردار ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ کسی کشمیری مصنف اور سیاستدان نے الفرقان بریگیڈ کے قیام اور سیالکوٹ جموں محاذ پر تعیناتی اور خاموش تماشائی کے کردار پر کچھ نہیں لکھا۔ کشمیر وار کونسل جس کے سربراہ سردار ابراہیم خان تھے یا دوسری وار کونسل جس کی قیادت سردار شوکت حیات کررہے تھے کے کسی رکن یا ممبر نے الفرقان بریگیڈ کا کبھی ذکرہی نہیں کیا۔
تاریخ تحریک آزادی کشمیر کی اہم دستاویزات لیفٹیننٹ کرنل حق مرزا مرحوم اور لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید (ستارہ جرات دو بار)کی ڈائریاں ہیں جو میدان جنگ میں ہی لکھی گئی۔
حق مرزا نے 1947ءء سے 1950ءء، 1965ءء اور 1971ءء کی جنگوں میں حصہ لیا اور 1965ءء کی جنگ میں جبر الٹر فورس کا بھی حصہ رہے۔ حق مرزا کے تحریر اور مصنفین پونچھ اور دیگر میں بڑا فرق ہے۔ حق مرزا کے علاوہ کسی بھی مصنف اور کشمیر یات پر تحقیق کرنے والے سکالر نے رام پیاری محل گجرات جہاں جنگ آزادی کشمیر کا پہلا فورسز ہیڈ کوارٹر معرض وجود میں آیا کا ذکر نہیں کیا۔
جنرل زمان کیانی، بریگیڈ ئیر حبیب الرحمن، میجر اکمل، میجر محمد حسین(سابقہ INA) کو بھی کچھ اس انداز سے درگزر کیا گیا تاکہ مفاد کا جہاد کرنے والوں کی اہمیت کم نہ ہوپائے۔ تحریک آزادی کشمیر کو ڈھائی اضلاع تک محدود رکھنے اور اسے انقلاب پونچھ کا نام دینے والوں نے جسطرح اس تحریک کی اہمیت اور مقاصد کو دھچکا لگایا اتنا ستم بھارتیوں نے بھی نہ کیا ۔
پلندری اور راولاکوٹ کو ڈوگروں کے تسلط سے آزاد کروانے میں جوکردار کیپٹن حسین خان شہید نے ادا کیا اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کیپٹن حسین خان کی شہادت کے بعد ان کا کوئی جانشین اس عظیم مجاہد کے مشن کو پائیہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا اور تولی پیر کی فتح کے بعد پونچھ کے محاصرے کو ہی آخری فتح تصور کر لیا گیا۔
میری ناقص تحقیق کے مطابق کرنل خان صاحب کی نہ تو سردار محمد ابراہیم خان اور نہ ہی سردار عبدالقیوم خان سے بنتی تھی۔
وہ سخت طبیعت کے مالک تھے جنہوں نے پلندری میں اپنے طورپر کچھ ایکشن کئے اور وہاں سے فارغ ہوکر میرپور میں برسرپیکار مجاہدین کی دعوت پر اس علاقہ میں اپنے دو سو ساتھیوں کے ہمراہ آئے۔ میرپور میں ان کے بیشمار ساتھی موجود تھے جن کے ساتھ وہ عرصہ تک برطانوی فوج میں نوکری کرتے رہے۔ میرپور وارد ہونے کے بعد کٹھار، چومکھ، چمہال اور علاقہ بینسی کے (وینس) راجپوتوں نے کرنل خان کی بھرپور مدد کی اور ان کے سدھن بریگیڈ کا حصہ بنے۔
سردار حجازی اور آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کے شعبہ تاریخ نے اپنی اپنی تحقیق میں راجہ محمد اکبر خان جیسے مجاہد کا ذکر نہ کرکے اپنی تحقیق کو ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ راجہ صاحب کے متعلق کرشن دیو سیٹھی لکھتے ہیں کہ "ماضی بعید سے قطع نظر اگر گزشتہ صدی کا جائزہ لیا جائے تو کئی بڑی شخصیات کے نام فوراً ذہن میں آجاتے ہیں۔ ان ہی حضرات میں ایک نامی گرامی نام راجہ محمد اکبر خان کا ہے جنہوں نے شخصی راج اور تاناشاہی کے خلاف اور غریب اور دبے کچلے عوام کے حقوق کے طرف داری میں ساری عمر جہاد کیا اور ہمالیائی عزم و استقامت کے ساتھ تا دم آخر اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔"

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja