Episode 16 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 16 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

کرنل خان، راجہ محمد اکبر خان مرحوم جن کا انتقال 2اکتوبر1946ءء کو ہوچکا تھا کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ دونوں نے عرصہ تک اکٹھے برطانوی فوج میں ملازمت کی اور وہ راجہ صاحب کے قدر دانوں میں سے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر جذبہ حریت کی ایک بے مثال داستان ہے جسے بدقسمتی سے قیادت میسر نہ آسکی۔ جو لوگ قائدبن کر ابھرے ان میں سے کچھ مادیت کا شکار ہوگئے اور دیگر بے اتفاقی کے بھنور میں جھکڑے گئے۔
ڈھائی اضلاع کی حکومت نے ڈھائی سوسالہ تحریک آزادی کو میدان جنگ سے اٹھا کر چند نام نہاد سیاستدانوں کے گھروں میں بند کردیا۔ حیرت ہے کہ کروڑوں جانوں کا نذرانہ دینے والے شہدأ کی قربانیوں کو یکسر بھول کر اپنی اپنی پسند کے بتوں کی پوجا کرنے والے دانشوروں نے حقیقت سے آنکھیں چرا کر سیاسی سراب کے پیچھے بھاگنے کو زندگی کا مقصد بنا لیا اور برسراقتدارٹولے کی تعریف و توصیف میں حقائق کے منافی کتابیں لکھ کر اسے روٹی روزی کا وسیلہ بنا لیا۔

(جاری ہے)


1947ءء کی تحریک آزادی کشمیر کے پانچ معتبر منصوبے تا حال منظر عام پر آئے ہیں جن میں سردار ابراہیم صاحب کا منصوبہ جس کا سردار صاحب نے خود کبھی ذکر نہیں کیا۔ میجر خورشید انور کا منصوبہ "گلمرگ" جس کی وضاحت نہیں کی گئی، جنرل اکبر خان کا منصوبہ جس سے حکومت پاکستان متفق نہیں تھی اور جو نہایت ہی قابل عمل تھا،بریگیڈئرحبیب الرحمان اور جنرل زمان کیانی کا منصوبہ جسے رد کرنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی اور سردار شوکت حیات کا منصوبہ جسے خوش فہمی کا منصوبہ کہنا بے جا نہ ہوگاقابل ذکر ہیں۔
پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت قائداعظم کے خیالات سے متفق نہیں تھی اور نہ ہی انہیں کشمیر سے زیادہ دلچسپی تھی۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قائداعظم کے بعد حکومت پاکستان کی کوئی کشمیر پالیسی تھی ہی نہیں اور نہ ہی فوجی او رسیاسی قیادت کشمیر کے مستقبل اور اس کی پاکستان سے وابستہ حقیقت سے روشناس تھی۔ فوجی افسروں، جوانوں اور بعض سیاستدانوں نے ذاتی طورپر جو کچھ کیا وہ قابل صد تحسین ہے اور کشمیری قوم ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی مگر جس سوچ اورمنصوبہ کا وقت اور حالات تقاضا کرتے تھے بدقسمتی سے اس کا مظاہرہ نہ ہوسکا۔
پاکستانی قائدین اور فوجی رہنما یہ بھول گئے کہ کشمیر پاکستان کی اقتصادی، معاشی اور دفاعی ضرورت ہے۔ ان تینوں پہلووٴں کی جنرل اکبر نے اپنی تحریر (ریڈرزان کشمیر) میں جامع انداز میں تشریح کی ہے۔ جس طرح جنرل اکبر خان نے پاکستانی قیادت کی غلطیوں سے پردہ اٹھایا ہے ویسے ہی کشمیری قائدین کو بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ 1947ءء میں تحریک آزادی جس جذبے اور قوت سے ابھری وہ صرف ناقص منصوبہ بندی، خود فہمی، لالچ، قوت ایمانی کی کمی، ڈر اور سب سے بڑھ کر رابطے کے فقدان کی نذر ہوگئی۔
بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنی غلطیوں کا احساس کرتے اور اصلاح کرکے آئندہ کے لئے بہتر لائحہ عمل تیار کرتے، کشمیری قائدین جدوجہد آزادی کے بجائے کرسی کے حصول کی جنگیں لڑنے لگے اور پاکستان کی طرف سے ملنے والی امداد کے علاوہ علاقائی وسائل تک کوہڑپ کر گئے۔ اگر ان وسائل اور پاکستان کی طرف سے ملنے والی امداد کا نصف حصہ بھی آزادکشمیر کی ترقی پر خرچ ہوتا تو آج آزادکشمیر دنیا کا ایک مثالی خطہ ہوتا اور دوسری جانب کے لوگ مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد قائدین کو مسترد کرکے خود ہی سینرفائیر لائن کو توڑدیتے۔
مگر یہ نہ ہوسکا اور سینرفائیر لائن کنٹرول لائن میں بدل گئی چونکہ اس خونی لائن کے ہر دوجانب کے لیڈروں نے اپنے اپنے بت تراش لیے اور انہی کو خدا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔ سردار حجازی شائد سچ ہی کہتے ہیں کہ ان کے لیڈر کے علاوہ کوئی دوسرا اس قابل نہیں تھا کہ تحریک اور حکومت چلا سکے۔ آج ان لیڈروں نے حکومت اور سیاست کو اپنا خاندانی پیشہ بنا لیا ہے اور ان کی دوسری اور تیسری نسل اس حق کی دعویدار ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja