Episode 19 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 19 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

مقصد بیان:

میں نے اپنی تحریر کا تذکرہ جن لوگوں سے کیا ان میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید ہلال کشمیر پر نصف صدی بعد کچھ لکھنا بے مقصد ہے چونکہ اُسی دور میں تل پترہ پر شہید ہونے والے کیپٹن سرور شہید کو جب نشان حیدر کا اعزاز دیا گیا تو آزاد حکومت کی وار کونسل اور ڈیفنس کمیٹی نے حکومت پاکستان سے تب کوئی مطالبہ نہیں کیا کہ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کو بھی نشان حید ر ہی دیا جائے۔
اب پچاس سالوں بعد حکومت پاکستان اس بات کو کیسے مان لے کہ ہلال کشمیر کو نشان حیدر کہا جائے جبکہ ہلال کشمیر کا تمغہ بھی موجود ہے جو شہید کے بیٹے نے وصول کر لیا ہے۔
کچھ فوجی حضرات کی رائے ہے کہ نائیک سیف علی شہید کا تعلق کسی باقاعدہ فوج سے نہیں تھا۔

(جاری ہے)

گو کہ اس وقت حیدری بٹالین بن چکی تھی اور فوج سے کچھ افسر جن میں زیادہ تر ریٹائیرڈ جے۔

سی۔اوز۔ کور ینک دے کر لیفٹیننٹ، کیپٹن اور میجربنایا گیاتھا ، بھی موجود تھے مگر اس آزاد فوج کا حکومت پاکستان کی باقاعدہ فوج سے تعلق نہیں تھا۔ اس جنگ آزادی کے غازیوں اور شہیدوں کو جو اعزازات آزادحکومت نے دیئے انہیں پچاس سال بعد حکومت پاکستان نے مساوی تسلیم کرکے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ان فوجی حضرات کا خیال ہے کہ ہلال کشمیر کو مساوی درجہ دینا ہی کافی ہے۔
کچھ دوستوں کا اعتراض ہے کہ ہلال کشمیر ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے مسلح جدوجہد میں جان کا نذرانہ پیش کرکے ایک عظیم مرتبہ یعنی شہادت کا مقام حاصل کیا جب کہ یہ تحریر نائیک سیف علی کے معرکہ اور واقع شہادت کے علاوہ ایک سیاسی رنگ پیش کرتی ہے اور بہت سے سیاسی لیڈروں اور عسکری قائدین پر حرف تنقید اٹھاتی ہے۔
ان اعتراضات کو درست تسلیم کرتے ہوئے میں اپنے محترم معترضین سے ہی نہیں بلکہ اہل وطن سے گزارش کروں گا کہ تحریک آزادی کشمیر ڈھائی سوسال سے جاری ہے جب مغلوں کے جبرو استبداد کے خلاف وادی کشمیر کے نہتے لوگوں نے آواز اٹھائی۔ یہ تحریک اپنی جدوجہد کے پانچویں دور میں داخل ہوچکی ہے مگر اب تک کامیابی سے کوسوں دور ہے۔
آزادی کی تحریکیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتیں جب تک ان کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے تشہیر نہ کی جائے اور جو لوگ ان عظیم تحریکوں کے لئے اپنی گردنیں کٹوائیں ان کی بے مثال قربانیوں سے بعد میں آنے والوں کو واقف نہ کروایا جائے۔ حق کے راستے پر قربان ہونے والوں کے قصے زندہ قوموں کے ایمان کو تازہ اور مضبوط کرتے ہیں اور جدوجہد آزادی کی شمع پر ایک نہیں بلکہ لاکھوں پروانے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے چلے آتے ہیں۔
شہید نائیک سیف علی جنجوعہ اس شمع کا وہ واحد پروانہ ہے جسے بغیر کسی سفارش اور پراپیگنڈہ کے ایک ایسا اعزاز دیا گیا جو کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ شہید نائیک سیف علی جنجوعہ کو تب ہلال کشمیر دیا گیا جب ان کا تعلق تحریک آزادی کے مجاہدین سے تھا نہ کہ پاکستان فوج سے۔ نائیک سیف علی کا اعزاز حکومت آزادکشمیر نے دیا تھا چونکہ اس وقت حکومت پاکستان کا آزادکشمیر میں کوئی واضح رول نہیں تھا۔
مگر آزاد حکومت جن اغراض و مقاصد کے پیش نظر قائم ہوئی تھی عملاً پچاس سال گزرنے کے باوجودوہ مقاصد حاصل نہیں کر سکی اور اس ناکامی کا سبب پاکستان اور آزادکشمیر کے قائدین ہیں نہ کہ کشمیر کے عوام۔ جس مشن کی تکمیل کے لئے یہ عارضی حکومت اور آزادکشمیر ریگولر فورس قائم کی گئی تھی اب وہ مشن اوررول بدل چکا ہے۔ آزادکشمیر ریگولر فورس اب آزاد کشمیر رجمنٹ بن چکی ہے، سینرفائیر لائن کنٹرول لائن میں بدل گئی ہے اور اس سے بڑھ کر پاکستان میں موجود سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی آزادکشمیر شاخیں بنا کر مسلم کانفرنس کے سیاسی اور جہادی رول کو بھی ختم کردیا ہے۔
ہمارے کچھ دانشور شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کا رونا تو روتے ہیں مگر انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے لیکر ایم کیو ایم تک جو پارٹیاں آزادکشمیر میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں اور جس طرح ان پارٹیوں نے آزادکشمیر کے عوام کو برادری ازم اور کرپشن کی بیماریوں میں مبتلا کیا ہوا ہے اس سے تحریک آزادی کو شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سے کہیں بڑھ کر نقصان پہنچا ہے۔
اگر آزادکشمیر کی سیاست اور حکومت مساوی نہیں رہی تو نشان حیدر بھی مساوی نہیں بلکہ حقیقی ہو تو اس میں کیا حرج ہے؟
اس حقیقت سے اب انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آزادکشمیر اب آزادی کا بیس کیمپ نہیں رہا بلکہ تحریک تکمیل پاکستان کا فارورڈ مورچہ بن گیا ہے۔موجودہ حالات میں پاکستانی قیادت کے لئے کسی آپشن کی گنجائش باقی نہیں رہی چونکہ بھارت اٹوٹ انگ کے بغیر بھی رہ سکتا ہے مگر پاکستان شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔
اس لئے پاکستانی قیادت کو اس بات کا جلد احساس کر لینا چاہیے کہ شہ رگ کو لگی بیماریوں کو دور کیا جائے اور انہیں ناسور بننے سے پہلے ہی ان کا علاج کیا جائے۔ پاکستان کی اس شہ رگ کو سر دست برادری ازم، کرپشن اور نا انصافی کی بیماریاں لاحق ہیں جن کے جراثیم کچھ پاکستانی سیاستدانوں نے جان بوجھ کر اہل کشمیر کو لگائے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان نے ان مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو 1947ء کی طرح مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja