Episode 23 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 23 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

سابقہ تحصیل مینڈھر میں جنجوعہ راجپوتوں کی آمد ویسے ہی ہے جس طرح تھکیال اور ڈومال قوم اس علاقہ میں آباد ہوئی۔ جنجوعوں کا قدیم مسکن ضلع جہلم ہے جہاں جنجوعہ اور گکھڑ راجپوت ایک دوسرے سے برسرپیکارر ہے۔ جنجوعہ قبائل نے گکھڑوں کی قوت سے تنگ آکر ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ تیمور جب جہلم کے علاقہ میں داخل ہوا تو جنجوعہ قبائل نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تیمور کی بھرپور مدد کی۔
اسی طرح بابراور احمد شاہ ابدالی کو بھی گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے جنجوعہ سرداروں نے قوت فراہم کی۔ گکھڑوں نے بھی جنجوعوں کو کبھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور مختلف ادوار میں جنجوعہ قبائل نقل مکانی کرکے کشمیر کے مختلف علاقوں میں آباد ہوتے رہے۔ تاریخ اقوام پونچھ کے مطابق مینڈھر کے موضع پٹھانہ تیر میں غلام محمد آباد ہوئے۔

(جاری ہے)

جنجوعوں کے لقب راجہ اور ملک ہیں جو حالیہ تحصیل فتح پور کے کچھ دیہات میں قلیل تعداد میں آباد ہیں۔

جنجوعوں کی چیدہ چیدہ رشتہ داریاں تھکیالوں، ڈمالوں، کلوتروں اور چبوں سے ہیں۔ کئی مقامات پر کم آبادی کی وجہ سے یہ قبیلہ دیگر مقامی قبیلوں میں مدغم ہوگیا جس کی وجہ سے ان کی تاریخ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ ہلال کشمیر کا تعلق بھی اس بہادر اور غیور قبیلے سے ہے جن کا آبائی پیشہ زمینداری تھا مگر بہت سے لوگ فن سپہ گری سے بھی منسلک تھے۔
چب اور ڈومال ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ چب چند جنکا اسلامی نام راجہ شاداب خان (بابا شادی شہید) ہے پرناب چند جنکا اسلامی نام دائمی یا دائم خان ہے کے بڑے بھائی تھے۔ تھکیالوں کی طرح ڈومالوں کے جدا مجد کو بھی بھمبر سے ہجرت کرنا پڑی اور مجبوراً راجوری کے راجہ کے ہاں پناہ گزین ہوئے ۔ ڈوگرہ دور میں ڈومال قبیلے کے سرداروں کو تقویت ملی اور ان کی حیثیت میں اضافہ ہوگیا۔
سردار بلدیو سنگھ حاکم پونچھ نے ڈومالوں کی خدمات کے عوض راجہ اللہ داد خان ڈومال کو سردار کا خطاب دیا اور جاگیر عطا کی۔ ڈومال قوم حکمران ہونے کے باوجود بے علمی کی وجہ سے بھی مشہور تھی جس کا دکھ راجہ اللہ داد خان کے دل میں موجود تھا۔ آپ نے جاگیر عطا ہوتے ہی مسلمانوں کے لئے رفاعی کاموں کا سلسلہ شروع کیا۔ راجہ اللہ داد خان جاگیردار نے اولیت تعلیم اور صحت کو دی اور جاگیر کی آمدنی سے اپنے ہی مکان میں سکول اور مطب کھول کر عوام کے لئے آسانیاں پیدا کردیں۔
راجہ صاحب علم طب سے بھی واقف تھے اور اپنے ہی مطب میں مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ آپ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ سے بیعت تھے اور روحانیت سے گہرا لگاوٴ تھا۔ سردار اللہ داد خان اور ان کے بھائی سردار نوازش علی خان نقشبندی کی کوششوں سے حکومت کی جانب سے بہت سے ٹیکس معاف ہوگئے اور عوام علاقہ کو کافی ریلیف ملا۔
اپنے دادا کی طرح سردار فتح محمد خان بھی عوام دوست جذبہ رکھتے تھے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
ابتدأ میں آپ نے سٹیٹ پولیس میں بحیثیت سارجنٹ نوکری کی اور بعض وجوہات کی بنا پر نوکری چھوڑ کر عملی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ میرپور اور کوٹلی میں ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک چلی تو آپ نے اس میں بھی حصہ لیا اور حکومت کی طرف سے آپ پر قتل کے تین مقدمات درج ہوئے مگر بعد میں یہ مقدمات ختم کردیئے گئے۔ آپ انجمن تاجران و زمینداران پونچھ اور انجمن نوجوانان کے صدر منتخب ہوئے۔
آپ کی کوششوں سے راجوری، کوٹلی اور مینڈھر کے عوام کو ٹیکس ریلیف ملا اور علاقہ بھر سے ٹیکس اور کسٹم چوکیاں ختم کردی گئیں۔ سردار فتح محمد کی سیاسی قابلیت کی بنا پر انہیں پونچھ کی دومسلمان نشستوں میں سے ایک پر جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے چنا گیا تاکہ مہاراجہ کے دربار میں آپ دو لاکھ مسلمانوں کی نمائندگی کرسکیں۔
 "بحوالہ تاریخ چیہال، راجپوت ذاتیں اور گوتیں، تاریخ اقوام پونچھ، تاریخ اقوام کشمیر، وادی کشمیر، جموں کشمیر کی پہاڑی ریاستیں مرتبہ فضل حسین شوق،لارڈز آف پنجاب ، تاریخ جموں و کشمیر۔"

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja