Episode 31 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 31 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

عاشق رسول ﷺ

داناوٴں کا قول ہے کہ جو شخص جنگ کے روز میدان جنگ میں ڈٹ جاتا ہے وہ اپنے خون سے کھیلتا ہے اور جو بھاگ جاتا ہے وہ دوسروں کے خون سے کھیلتا ہے۔ اپنے خون سے کھیلنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں چونکہ جان سے قیمتی اور عزیز کوئی چیز نہیں ہوتی۔
جنگ، طوفان، قحط اور طغیانی میں لوگ اپنی قیمتی چیزیں، مال اسباب اور بچے سب کچھ چھوڑ کرصرف جان لے کر بھاگتے اور محفوظ جگہوں کی تلاش میں چل نکلتے ہیں مگر ان حالات میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جانیں دوسروں کی حفاظت کیلئے وقف کردیتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ خوبی اور جوہر ایک ہی دن پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ خوبی ان کے خمیر میں ابتداء ہی سے موجود ہوتی ہے جسے عیاں کرنے اور جوہر دکھانے کا موقع ہر کسی کی تقدیر میں نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

نائیک سیف علی جنجوعہ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جو دوسروں کیلئے اپنا آج قربان کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی سب سے قیمتی چیز جان کسی بھی لمحے جان آفریں کے سپرد ہوسکتی ہے وہ میدان کاررازمیں ڈٹے رہتے ہیں۔
سیف علی نے جس بہادری کا مظاہرہ پیر کلیوا کی پہاڑیوں پر کیا اس کا جوہر ا ن کی روح میں پہلے ہی سے موجود تھا۔ سیف علی شہید ایک دیندارا ور باوصف مجاہد تو تھے ہی مگر ان کی روح عشق رسولﷺ سے بھی سرشار تھی۔ لاہور میں تعیناتی کے دوران سیف علی کسی کام کیلئے بازار گئے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک نوجوان ہندو بادہ خوار مستی کے عالم میں ایک چوک میں کھڑا شان رسول ﷺ میں گستاخی کا مرتکب ہو رہا تھا اور ایک ہجوم اس کے چاروں طرف کھڑا تھا۔
غازی علم دین شہید کے شہر میں کئی مسلمان نوجوان بھی وہاں موجود تھے مگر کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ گستاخ رسولﷺ کی زبان بند کرتا۔
سیف علی جنجوعہ جو اس وقت وردی میں ملبوس تھے نے ہجوم میں جاکر پوچھا کہ کوئی اس گستاخ کی زبان کیوں نہیں روکتا۔ ہندو نوجوانوں نے فوجی کی اس بات کا مذاق اڑایا اور مسلمانوں نے بیچارگی سے کہا کہ یہ ایک بڑے کانگریسی سیٹھ کا بیٹا ہے اور مقامی کالج کی یونین کا لیڈر ہے اسے کچھ کہنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
مسلمان نوجوانوں نے سیف علی کو وہاں سے چلے جانے کا مشورہ دیا چونکہ وہ وردی میں تھے اور ان کی طرف سے ہندو کو کچھ کہنا ان کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتا تھا۔ مسلمانوں کی بے بسی دیکھ کر بھلا سیف علی جیسا شخص کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ سیف علی نے اپنا بیلٹ اتارا اور ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور ہندو بادہ خوار کی بیلٹ سے پٹائی شروع کردی۔ آپ کی جرأت اور بہادری دیکھ کرہندو نوجوان وہاں سے کھسک گئے۔
آپ ایک ہاتھ سے ہندو پر اپنے بیلٹ برسا رہے تھے اور دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا ہندو نے اپنے منہ میں ڈالا ہوا تھا اور وہ اپنی جان چھڑانے کی خاطر آپ کا انگوٹھا چبا رہا تھا۔ سیف علی نے اپنے انگوٹھے کی پرواہ کئے بغیر ہندو کو اتنا مارا کہ اس کا نشہ ہرن ہوگیا۔ وہ مار کھا کر زمین پر گرا او ر آپ کے قدموں کو چومنے لگا۔
سیف علی نے مغلوب ہندو کو کھڑا کیا اور حکم دیا کہ جس گندی زبان سے وہ شان رسول ﷺ میں گستاخی کر رہا تھا اسی سے ہجوم کے سامنے معافی مانگے ورنہ وہ جان سے جائے گا۔
ہندو نے ہاتھ جوڑ کر گستاخی کی معافی مانگی اور زخم خوردہ ہو کر چل دیا۔
اس واقعہ کی رپورٹ سیف علی کی یونٹ میں ہوئی تو یونٹ کے مسلمان افسروں نے سیف علی کے جذبات کا دفاع کرتے ہوئے آپ کو فوجی سزا سے بچالیا۔ ہندو بادہ خوار نے مار کھاتے ہوئے آپ کا انگوٹھا اس قدر چبایا کہ ہڈی ریزہ ریزہ ہو کر ناکارہ ہوگئی۔ فوج سے واپس آکر آپ اکثر دوستوں کو اپنا ہاتھ دکھاتے اور ہنس کر کہتے کہ فوج کی نوکری میں میرا ہاتھ خوش قسمت رہا کہ اس کا انگوٹھا راہ حق میں شہید ہوگیا اے کاش! میرے جسم کو بھی خدا قبول کرے اور شہادت کی لذت نصیب ہو۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja