Episode 32 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 32 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

وطن واپسی اور حیدری فورس میں شمولیت

جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانوی ہند کی افواج میں کمی کی گئی تونائیک سیف علی بھی سولہ اگست 1947ءء کو ریٹائر ہو کر واپس گاوٴں آگئے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت آپ کی عمر 25 سال تھی اور اس زمانہ میں تحریک آزادی کشمیر پورے زوروں پر تھی۔ آپ نے گاوٴں واپس آکر علاقہ کے سردار جناب فتح محمد خان کریلوی سے ملاقات کی اور ان کی دفاعی اور فلاحی کمیٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
سردار فتح محمد خان کریلوی نے مہاراجہ کشمیر کی نیت کو بھانپ لیا تھا چونکہ مہاراجہ کشمیر ایک طرف تو پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ پر دستخط کرکے پاکستانی قیادت کو دھوکہ دے رہا تھا تو دوسری جناب راشڑیہ رائفل، سکھ اور گورکھا رجمنٹوں کے سینکڑوں جوانوں کو جدید اسلحہ سے لیس کر کے پونچھ، باغ، میر پور، گلگت اور سکردو بھجوا رہا تھا۔

(جاری ہے)

ریاستی پولیس نے مسلمانوں کو ذاتی اسلحہ جمع کروانے کا حکم دیا جبکہ ضبط شدہ یہی اسلحہ مقامی ہندو آبادی میں تقسیم کردیا۔

اسی دوران 29 اگست 1947ءء کو دو تھان کے مقام پر مجاہدین نے جو صرف قوت ایمانی سے لیس تھے نے سٹیٹ آرمی کی کمپنی پر پہلا حملہ کرکے ڈوگروں سے جنگ کا آغاز کردیا۔
دیگر علاقوں کی طرح مینڈھر کے علاقہ میں بھی سردار فتح محمدخان کریلوی نے سابق فوجیوں کی مدد سے دفاعی کمیٹی بنائی تاکہ مقامی آبادی کی عسکری تربیت کرکے علاقہ کے دفاع کا بندوبست کیا جائے۔
سیف علی جنجوعہ نے اس کمیٹی میں شامل ہو کر اپنے مقصد کی تکمیل کا آغاز نوجوانوں کی تربیت سے شروع کردیا۔ سیف علی جنجوعہ دفاعی اور فلاحی کمیٹی کے سرگر م رکن تھے۔ اس دوران آپ کی ملاقاتیں علاقہ کی اہم شخصیات سے ہوئیں جنہوں نے آپ کے مشوروں کو سراہا اور انہیں آئندہ کے لائحہ عمل میں شامل کیا۔
ابتدائی جدوجہد اور فوجی کاروائیاں خالصتاً مقامی نوعیت کی تھیں۔
برطانوی ہند کی فوج سے فارغ ہونے والے افسروں، عہدیداروں اور سپاہیوں نے اس ابتدائی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسرے علاقوں کی طرح مینڈھر، کھوئیرٹہ اور ملحقہ پنجن کے علاقوں میں دفاعی کمیٹیوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے۔ یہ علاقے جموں اور نوشہرہ کی چھاوٴنیوں کے قریب اور میر پور کے اہم اوربڑے شہر کو ملانے والی سڑکوں پر واقع تھے۔
میر پور اور پونچھ کے شمال مغربی اور مغربی علاقوں سے پسپا ہونے والی ڈوگرہ افواج بھی انہیں راستوں سے جموں کی طرف بڑھ رہی تھیں جبکہ بعض محصور چوکیوں اور چھوٹی چھاوٴنیوں کو ڈوگرہ کمک کا انحصار بھی انہیں راستوں پر تھا اس لئے اس علاقہ کا دفاع انتہائی ضروری تھا۔
علاقہ کی دفاعی اہمیت کا احساس اور مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کے قائد سردار فتح محمد خان کریلوی اور ان کے رفقاء کار جن میں سیف علی بھی شامل تھے کو ابتداء ہی سے چار محاذوں پرلڑنا پڑا۔
اوّل پسپا ہونے والی ڈوگرہ افواج سے سول آبادی کو محفوظ رکھنا دوئم نوشہرہ، پونچھ اور راجوری کی طرف سے دشمن کی یلغار کو روکنا، سوئم اسلحہ و ایمونیشن کا حصول، چہارم اپنوں کی بے رُخی اور اندرونی سازشوں سے بچنا۔ گو کہ آزادی کی جنگ دیگر علاقوں میں بھی جاری تھی مگر یہ خصوصی حالت دیگر جگہوں میں کم ہی تھی۔ سردار فتح محمد خان کریلوی کو ان حالات میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو فوجی حکمت عملی کے علاوہ دیگر امور کا بھی ماہر ہو۔
سردار فتح محمد خان کریلوی نے نکیال کے جنوب میں لڑنے والے لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان آف پنجن، کرنل راجہ محمود خان آف تھروچی اور پونچھ کو محاصرے میں لینے والے سرداروں اور دیگر علاقائی کمانڈروں سے رابطے کے لئے نوجوان سیف علی سمیت چند نوجوانوں کو منتخب کیا اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر نے ضلع پونچھ میں ہونے والی ابتدائی کاروائیوں کے دوران ہی ایک نازک صورت اختیار کرلی تھی۔
اس جدوجہد کا سہرا اپنے سرباندھنے والوں نے جنگل میں آگ تو لگا دی مگر اس کا رخ متعین کرنے اور اپنا کھلیان بچانے کی ان میں صلاحیت نہیں تھی۔ سدھنوتی، باغ اور حویلی سے پسپا ہونے والی ڈوگرہ فوج، راشڑیہ رائفل ، سیوک سنگھی جھتے اور پولیس کا رخ شمال میں اوڑی اور جنوب مشرق میں مینڈھر کی طرف تھا۔ اوڑی کی جانب باغ اور دھیرکوٹ کے مجاہدین نے مظفر آباد اور اوڑی کا راستہ غیر محفوظ بنا دیا تھا اس لئے پسپا ہونے والوں کے علاوہ نوشہرہ اور راجوری کی طرف سے ممکنہ کمک کا واحد راستہ مینڈھر ہی سے گزرتا تھا جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بھارت نے ابتدا ء ہی سے بھرپور کوششیں شروع کردیں۔
ان حالات میں جب ہر طرف خوف و دہشت کا راج تھا۔ حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت اور مسلح جدوجہد کے لئے تیار کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اس مشکل کام کے لئے سردار فتح محمد خان کو بااعتماد اور پرعزم ساتھیوں کی ضرورت تھی جو نہ صرف منصوبہ کو صیغہ راز میں رکھیں بلکہ جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو تربیت دے کر جدوجہد کے لئے تیار کریں۔
سیف علی جنجوعہ نے سردار فتح محمد کریلوی کے دیگر بااعتماد ساتھیوں کی طرح اپنے قبیلے کے سرکردہ نوجوانوں سمیت جدوجہد آزادی میں شمولیت اختیار کی اور سردار فتح محمد خان کے مشن کی تکمیل کے لئے نوجوانوں کی تربیت اور تیاری کا کام شروع کردیا۔
سیف علی جنجوعہ نے سردار فتح محمد خان کے منصوبے کے مطابق ابتدائی کاروائیوں میں بھر پور حصہ لیا اور بہت سے مقامات پر ڈوگرہ پولیس اور راشڑیہ رائفل کے بھگوڑوں اور امدادی دستوں کو گھات لگا کر واصل جہنم کیا۔
سردار فتح محمد خان کی یہ فوج جس کا نام حیدری فورس رکھا گیا اتنی مختصر تھی کہ صرف وادی سورن جو کہ ایک وسیع علاقہ ہے اور آج کل اس سیکٹر میں ایک بھارتی بریگیڈ تعینات ہے کو فتح کرنے کے لیئے صرف چودہ نوجوان بھجوائے گئے۔ مینڈھر پر صرف پندرہ بیس نوجوانوں کی مدد سے سردار فتح محمد خان نے خود قبضہ کیا اور راجوری کی جانب سے آنے والی ڈوگرہ کمک کے خاتمے اور بھمبر گلی کی حفاظت کے لئے سیف علی جنجوعہ کو روانہ کیا گیا جن کے ساتھ صرف چار مسلح جوان تھے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja