Episode 37 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 37 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

کشمیر کے وارث

کشمیر اور روحانیت کا رشتہ ایسے ہی ہے جیسے جسم کا روح سے۔ کشمیر کی تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جس کی ابتداء و اختتام اولیاء کرام کے ذکر سے نہ ہو۔ یہاں کے پہاڑ، مساجد، قلعے، دریا غرضیکہ قدرت کا کوئی عطیہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی عاشق رسولﷺ سے منسوب نہ ہو۔
کشمیر کی مٹی میں روحانیت کی خوشبو ہے اور جو کوئی اس مٹی پر قدم رکھتا ہے وہ اس کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر کسی پر اس کا اثر نہ ہو اور اس کے دل میں عشق حقیقی کا شعلہ نہ بھڑکے تو اسے چاہیے کہ وہ اس مٹی سے اپنے قدم ہٹالے اور اپنا تجزیہ کرے۔ کشمیر میں جو پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی اس کا سبب بھی ایک درویش تھا اور جب آزادی کا سورج غروب ہو ااور غلامی کی ابتداء ہوئی تو اس کا سبب بھی درویش ہی بنا۔

(جاری ہے)

پہلے مسلمان بادشاہ نے ایک صوفی کی کرامات سے متاثرہ ہو کر دین اسلام قبول کیا اور اپنے کردار و عمل کی روشنی سے سارے کشمیر کو منور کردیا۔ پھر ایک دوروہ بھی آیا کہ بادشاہ نے تزکیہ نفس اور مجاہدہ چھوڑ کر عیش و عشرت کی زندگی اپنالی۔ بزرگان دین اور علماء حق کی تذلیل کی۔ انہیں سزائیں دیں اور فرقہ واریت اور اقرباء پروری کو فروغ دیا اور آخر کار وہ انہیں خرافات کی بھینٹ چڑھ گیا اور جاتے جاتے کشمیر کی صدیوں پرانی تاریخی عظمت پر قدغن لگا کر ایک غیور اور پر عزم قوم کو غلامی کی زنجیر پہنا گیا۔
1947-1948ء کی تحریک کی ابتداء بھی روحانی تھی مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد اس نے مادیت کا چوغہ پہن لیا اور فتح کا منظر شکست کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ معجزاتی اور کراماتی واقعات کا سلسلہ بند ہوگیا تو دھند اور بادلوں نے مجاہدین کو اپنی لپیٹ میں لیکر دشمن کے مورچوں اور ہوائی جہازوں کے بموں سے محفوظ کرنا بھی چھوڑ دیا۔
بہت سے عینی شاہدوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید نے جب نوشہرہ پر حملہ کیا تو کچھ ایسے مجاہدین بھی ان سے آن ملے جن کا بعد میں کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ کدھر گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ نوشہرہ چھاوٴنی پر مکمل قبضہ اور کنٹرول حاصل کرتے کچھ فوجی افسروں اور قبائلی لشکریوں نے لیفٹیننٹ مظفر خان سے کمان لے لی اور انہیں واپس کیری اور سراہ کی طرف بھجوادیا۔
لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جرأت (دوبار) سے نوشہرہ کا کنٹرول چھیننے والوں کا حشر بھی دردناک ہوا اور کچھ ہی دنوں میں فوجی افسر اپنے قبائلی دوستوں کے ہمراہ براستہ ہری پور دیوتا گولہ پہنچے اور نوشہرہ بھارتیوں کے حوالے کردیا۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جب تم کفر کے خلاف نبردآزما ہوگئے تو مقدس روحیں اور فرشتے تمہاری مدد کو آئیں گے مگر افسوس کہ کفر سے نبرد آزما ہونے والے جب روحانیت اور فرشتوں کی شمولیت کو مانتے ہی نہ ہوں تو ایسے خشک جہاد میں کامیابی کہاں سے آئے ۔
میری تحریر کے ہیرو نائیک سیف علی جنجوعہ شہیداولیاء کرام کے قدردان اور دین اسلام سے گہرا لگاوٴ رکھنے والی شخصیت تھے۔ شہادت سے قبل بہت سے معرکوں میں قدرت کی طرف سے انہیں رہنمائی ملتی رہی اور بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے جب کسی روحانی شخصیت نے انہیں دشمن کے نرغے سے بچ نکلنے کا قبل از وقت اشارہ دے دیا۔
اس سلسلہ کے دو واقعات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں جس سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ خطہ کشمیر کے اصل وارث خدا کے وہ بندے ہیں جن کی وساطت سے یہاں دین اسلام کی روشنی پھیلی اور جب تک ان بزرگان دین کی منشاء و مرضی کے مطابق تحریک آزادی کا مزاج نہیں ہوگا آزادی کی منزل نصیب نہیں ہوگی۔
یوں تو مجھے بے شمار ایسے واقعات سننے کو ملے کہ کس طرح مجاہدین کی مدد کے لئے غیبی قوتیں کارفرما رہیں اور بہت سی ناممکنات کو قدرت نے ممکن بنا دیا مگر جن واقعات کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کا تعلق کرنل ایم اے حق مرزا کی ڈائیری سے ہے۔ ایک واقعہ اس ڈائیری سے منسوب کتاب (ودرنگ چنار) کے صفحہ 101 پر بھی بیان کیا گیا ہے جس میں پیر پنجال صاحب سے کرنل صاحب کے شکوہ اور ناراضگی کا ذکر ہے۔
جب کرنل ایم اے حق مرزا نے پیر پنجال صاحب سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ اللہ کے ولی ہو کر دشمن کے ساتھ رہتے ہو۔ درہ پیر پنجال جہاں وہ حملہ کرنا چاہتے تھے تب بھارتی فوج کی ایک کمپنی کے قبضہ میں تھا جبکہ مجاہدین بے ہتھیار اور تعداد میں بھی کم تھے۔ اسی درہ میں پیر پنجال صاحب کا مزار بھی ہے اس لئے کرنل صاحب نے شکوہ کیا کہ ہم بے سروسامانی کی حالت میں موسم کی شدت اور دشمن کی توپوں کے گولوں کو برداشت کر رہے ہیں اور آپ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہو کر یہ تماشہ دیکھ رہے ہو۔
کرنل صاحب لکھتے ہیں کہ میری ناراضگی اور شکوے کا جواب اسی رات مل گیا۔ پھر کیا تھا! اللہ نے سبب پیدا کیئے۔ کرنل کمال پونچھ کا محاصرہ کرکے بیٹھے ہوئے جرنیلوں سے ایک ہلکی ماٹر اور مشین گن ادھار مانگ کر لائے تو دریائے پونچھ نے بھی مدد کی اور جیپ بمعے کرنل کمال ، مارٹر، مشین گن اور ایمونیشن کے دریا عبور کرگئی۔
نفری کی کمی بھی خدا نے پوری کردی اور بھولے بسرے مجاہدوں کا ایک گروپ خود ہی ہم سے آن ملا۔ مارٹر بغیر سائیٹ کے ہدف پر گولے گرانے لگی، مشین گن نے بھی خوب کام کیا اور دشمن نے کسی حرکت کا جواب ہی نہ دیا۔ جب زمینی حملہ شروع ہوا تو مجاہدین کی حرکت بادلوں نے خفیہ رکھی اور درہ پیر پنجال پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا۔
یہ تو تھے پیر پنجال صاحب۔
اب کرنل حق مرزا کے بیان کردہ بہت سے واقعات میں سے ایک دوسرا واقعہ یوں ہے کہ جب کرنل صاحب 1965ء کی جنگ کے دوران گوریلا مشن پر کشمیر گئے تو سرحد عبور کرنے سے پہلے مظفرآباد کے علاقہ دواریاں شریف میں اللہ کے ایک ایسے ہی نیک بندے سے ملاقات ہوئی۔ کرنل صاحب لکھتے ہیں کہ جب ہم حافظ صاحب کے گھر پہنچے تو وہ پہلے سے ہمارے منتظرتھے۔ ہم نے گزارش کی کہ کشمیرکی آزادی اور ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔
حافظ صاحب نے فرمایا میں اس سلسلہ میں بہت کوشش کرچکا ہوں مگر باطنی امور میں فی الحال کشمیر کی آزادی ممکن نہیں۔ میں تھک گیا ہوں کیا کروں میری کوئی نہیں سنتا۔ چونکہ سلطان العارفین کا حکم ہے کہ کشمیر تم لوگوں کے حوالے نہ کیا جائے۔ ہاں!تم جس مشن پر جا رہے ہو خدا تمہیں کامیابی دے گا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja