Episode 41 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 41 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

جنرل ضیاء الحق نے جس طرح افغان عوام کی مدد کی اور اپنا سب کچھ افغانوں پر قربان کردیا اس سے کوئی پاکستانی بے خبر نہیں۔ اس قربانی اور مہمان نوازی کے صلے میں پاکستانی قوم کو قرضوں کے انبار، ہیروئن اور افیون سے لدے ٹرک، راکٹ لانچرز، گرنیڈ، کلاشنکوفیں، گولہ بارود سمیت لاکھوں سماجی اور معاشرتی برائیاں تحفے میں ملیں۔ اس کے علاوہ افغان دوستی کی وجہ سے پاکستان پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے عالمی اداروں نے پاکستانی قوم کو غربت و افلاس میں مبتلا کرنے کے نت نئے بہانے بھی ڈھونڈ لئے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد افغانستان میں حکومت بدلی تو افغان قوم کے عتاب کا پہلا نشانہ بھی پاکستان ہی بنا۔ آج کی مہذب دنیا میں افغان ایک ایسی قوم ہے جس کے خود ساختہ جرنیلوں نے ہزاروں پاکستانی برائے فروخت اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جو کہ افغان قوم کی شکر گزاری کی عمدہ مثال ہے۔

(جاری ہے)

افغان جرنیل اور وزیر حسب ضرورت یہ پاکستانی بھارت کو بھی فروخت کرتے رہتے ہیں تاکہ بھارت نت نئی چالبازیوں کے لئے ان پاکستانیوں کو استعمال کرکے پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا ذریعہ بناتا رہے۔

اس سے پہلے کہ تحریک آزادی کشمیر اور اہلیان کشمیر کے مزاج کا ذکر کروں ان واقعات کا ذکر اہل وطن کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں چونکہ ان سے پاکستان اور کشمیر کا ہر غریب براہ راست متاثر ہے۔ پاکستانی قوم اور حکمرانوں کی افغان نوازی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر اس کے بدلے میں افغان قوم اہلیان پاکستان کی چنداں شکرگزار نہیں بلکہ جو کچھ پاکستان سے ہاتھ لگے اسے افغان اپنا حق اور غنیمت سمجھتے ہیں۔
افغان بحیثیت قوم احسان فراموش اور آزاد طبع لوگ ہیں جو کسی دوسرے کی ہمدردی اوراحسان مندی پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ افغان چاہے امیر ہو یا فقیر اور مفلوک الحال، اس کے نزدیک پاکستان وسیلہ معاش اور پاکستانی حقیر ہے۔ وہ اپنے آپ کو احمد شاہ ابدالی، محمودغزنوی اور شہاب الدین غوری کی اولاد سمجھتا ہے جنہوں نے اہل ہند کو مغلوب کیا،ان کی دولت چھینی اور ان پر حکومت کی۔
اگر حقیقت کے آئینہ میں دیکھا جائے تو ہمارا کوئی تہذیبی و تمدنی اثاثہ بھی تو نہیں۔ افغان ہمیں جن کی غلامی کا طعنہ دیتے ہیں ہمیں انہیں پر فخر ہے۔
پاکستانی حکمرانوں اور اہل دانش و حکمت کی نفسیات اور مزاج کا جس طرح آزاد کشمیر کے سیاسی طبقہ نے تجزیہ کیا ہے وہ بھی ایک تاریخی مثال ہے۔ مشرف دور حکومت میں پاکستان و آزاد کشمیر میں احتساب کے محکمے بنے تو لوگوں کو شک گزرا کہ شائد آزاد کشمیر سے سیاسی آلودگی کا خاتمہ ہوجائے اور چند سالوں میں ارب پتی بننے والے کرپٹ سیاسی عناصر پر حکومت گرفت کرکے آزاد کشمیر کے عوام پر احسان کرے اور انہیں بدعنوان عناصر کی غلامی سے نجات دلوائے۔
شروع شروع میں احتساب کا خوف اس قدر سخت تھا کہ بہت سے بدعنوان اور کرپٹ لوگ بیرون ملک بھاگ گئے اور اپنی دولت ہنڈی کے ذریعے دوسرے ملکوں میں شفٹ کردی۔ پھر ان نبض شناسوں نے پاکستانی حکمرانوں کے مزاج کو جانچا اور انہیں باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ دولت ہم نے برطانیہ میں ٹیکسی ڈرائیوری،خوانچہ فروشی، بیرہ گیری، دودھ فروشی اور سبزی فروشی کے ذریعے کمائی ہے۔
اہل اقتدار جب اس بات پر کچھ متفق نظر آئے تو نبض شناس سیاسی لٹیروں نے انہیں یورپ اور امریکہ میں دعوتیں دیں اور انہیں نہ صرف رام کرلیا بلکہ یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو پاکستان کی کشمیر پالیسی کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اہل اقتدار جو کسی نہ کسی بہانے اپنے ان دوستوں کے جرائم پر آنکھ بند کرنا چاہتے اور انہیں آزادانہ کشمیری قوم کی بیخ کنی کا سر ٹیفکیٹ دینا چاہتے تھے نے آخری تجویز کو بھی مان لیا اور آزاد کشمیر کے معاملات کو خدا پر چھوڑتے ہوئے اسے اپنی کشمیرپالیسی کا حصہ بنا لیا۔
حکمرانوں نے اس خیال کو حقیقت تسلیم کرلیا کہ کرپٹ سیاسی گھرانوں اور ان کے حمائیتوں پر ہاتھ ڈالنے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا اس لئے احتساب بیورو کے دفتر پر قفل لگا کر اسے شملہ معاہدے کی طرح سرد خانے کی نذر کردیا۔ آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاستدانوں اور جرنیلوں نے احتساب کے عمل کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرکے کشمیر کاز کو تقویت بخشی اور اپنے اپنے حصے کی بلیک لیبل بوتلیں اور ڈالروں کی تھیلیاں لے کر خاموش ہوگے۔
تحریک آزادی کشمیر 1947-48 ء درحقیقت تحریک حصول پاکستان ہی کا حصہ تھی جس کا برملا ذکر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں کیا۔ قائداعظم کی کشمیر کے متعلق سوچ ہی کا اثر تھا کہ تحریک آزادی میں حکومت پاکستان کو چھوڑ کر قائد اور ان کی قوم اہلیان کشمیر کی مصیبتوں پر چلا اٹھے اور جو کچھ بن پایا پاکستانی قوم نے حکومت کی مرضی و منشاء کے خلاف اہل کشمیر کی مدد کے لئے کیا۔
تحریک آزادی کشمیر بغیر کسی تعصب اور لالچ کے الحاق پاکستان کی تحریک تھی جس کا عملی مظاہرہ کشمیرکی مٹی سے ہی ہوا۔ تب اس تحریک کو کوئی بیرونی امداد حاصل نہیں تھی چونکہ اس کا تعلق کشمیریوں کے جذبات و احساسات سے تھا اور یہ تحریک حقیقی معنوں میں جہاد آزادی تھا۔ کشمیر کی مٹی کی خاصیت اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کے مزاج کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ پچاس سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں اور نوکرشاہی نے کشمیر اور کشمیریوں کو کوئی اہمیت نہیں دی مگر اس کے باوجود کشمیری قوم پاکستانی حکومتوں اور نوکر شاہی کے امتیازی سلوک اور سوتیلے پن کے باوجود کشمیر بنے گا پاکستان اور پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے لگاتے ہر روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر تے ہیں۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja