Episode 42 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 42 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

پاکستانی حکمران طبقے کے دلوں کے بغض اور امتیازی سلوک پر اگر لکھا جائے تو اس کے لئے ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان سوالوں اور مثالوں کا جواب کسی پاکستانی حکمران کے پاس نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی کشمیریوں سے نفرت اور بغض کی بھی ایک داستان ہے۔ جبرو ظلم دراصل اُن حکمرانوں کا وطیرہ ہوتا ہے جن کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا اور وہ ظلم کے ذریعے ہی اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو دباتے ہیں۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے لئے دو جنگیں لڑیں اور موجودہ تحریک آزادی کو سپورٹ کیا وہ ان جنگوں اور موجودہ سپورٹ کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ جب حقائق سے پردہ اٹھے گا تو شاید وقت کا پہیہ اتنا گھوم چکا ہوگا کہ بہت سے سوالات قصہ ماضی بن کر بے جواب ہوچکے ہوں گے۔

(جاری ہے)


اس سلسلہ کی چند زندہ مثالیں تحریک آزادی کشمیر 1947-48ء کو مقامی بغاوت سمجھ کر اس کی سپورٹ نہ کرنا ہے جس میں ہلال کشمیر کی پہچان سے انکار سے لیکر احتساب بیورو کی بے بسی تک کا نام دونگا۔
اس دوران کے چند واقعات آزاد کشمیر کے لوگوں پر جبری عبوری آئین کا نفاذ اور کشمیر کونسل جیسے لوٹ مار کے ادارے کا قیام ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور قدرتی اثاثوں کی تباہی، منگلا ڈیم کی رائیلٹی سے محرومی آزاد کشمیر کے عوام کو انجینئرنگ، میڈیکل اور یونیورسٹی کی تعلیم سے محرومی، ذرائع ابلاغ یعنی معیاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے محرومی جیسے درجنوں واقعات ہیں جن پر کبھی کسی پاکستانی حکومت نے غور نہیں کیا۔
ان پچاس سالوں میں اگر آزاد کشمیرکی طرف دیکھا جائے تو حکومت پاکستان نے ہمیشہ وہاں اپنی پسند کے لوگوں کی حکومتیں بنوائیں اور پھر انہیں کشمیری عوام کو دبائے رکھنے اور عیش و عشرت کی کھلی چھٹی دی۔
تحریک آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے پاکستان نواز مزاج کی کہانی ویسی ہی ہے جیسے پاکستان اور پاکستانیوں کی افغان نواز پالیسی اور مزاج ہے۔
افغانی چاہیں تو پاکستان کو لاکھ برا بھلا کہیں، پاکستانیوں کو پکڑ کر بیچیں ، ملکی وسائل کو لوٹیں ،بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کا امن تباہ کریں مگر پاکستانی مزاج ایسا ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر ہر مشکل میں افغانوں کی مدد کو پہنچیں گے۔
1948ء میں جب کشمیر ی مجاہدین اپنے ہی فتح کئے ہوئے علاقوں میں بے سروسامانی کی حالت میں پڑے تھے اور وہ پاکستانی قائدین سے مدد کی بھیک مانگ رہے تھے، چونکہ شدید موسمی حالات اور پوری طرح مسلح دشمن انہیں برابر دھکیل رہا تھا مگر پاکستان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔
ابتداء میں کچھ پاکستانی فوجی افسر وہاں پہنچے تو انہوں نے مجاہدین کا حوصلہ، ہمت اور جذبہ دیکھ کر جی ایچ کیو سے امداد کی اپیل کی مگر کسی نے ان کی درخواست کا جواب نہ دیا۔ جب اصرار بڑھ گیا تو ان افسروں پر ایسے افسر تعینات کئے گئے جو امداد کے بجائے پس قدمی کا منصوبہ لیکر گئے اور مجاہدین کو کمک پہنچانے کے بجائے انہیں فتح کئے ہوئے علاقے خالی کرنے کا حکم جاری کردیا۔
لیفٹیننٹ کرنل ایم۔ اے۔ حق مرزا اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینے ہمارے لئے بہت سی پریشانیاں لیکر آئے۔ کشمیری مجاہدین جو کہ بے سرو سامانی کی حالت میں بھارتی فوج سے لڑ رہے تھے کو امید تھی کہ قائداعظم کسی نہ کسی طرح فوج کو کشمیر میں لڑنے اور مجاہدین کی امداد کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیں گے مگر گیارہ ستمبر 1948ء کو اطلاع ملی کہ قائد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
یہ خبر مجاہدین پر بجلی بن کر گری اور ہمارا حوصلہ اور ہمت جواب دے گئی۔ ہر مجاہد دوسرے سے پوچھنے لگا کہ اب تو ہماری مدد کے لئے کوئی نہیں آئے گا ۔ابھی ہم قائد اعظم کی رحلت کا دکھ بانٹ ہی رہے تھے کہ دوسری خبر ملی کہ بھارت نے حیدر آباد دکن پر قبضہ کرلیا ہے۔ امید تھی کہ حیدرآباد میں کشمیر کی طرح بغاوت ہوگی اور اتنا خون بہے گا کہ بھارت کو کشمیر بھول جائے گامگر مزاجاً حیدر آباد دکن اورجونا گڑھ والوں کو پاکستان سے کوئی سروکار نہیں تھا اس لئے ایسا کچھ نہ ہوا جس سے بھارت کو پریشانی لاحق ہوتی ۔ اور تو اور 23 سال پاکستان کے ساتھ رہنے والے الگ مزاج بنگالی بھی گزارہ نہ کرسکے اور 23 ویں سالگرہ سے پہلے ہی اپنا ٹھکانہ الگ کرلیا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja