Episode 44 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 44 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

یہ لوگ یعنی مجاہدین نہ تو حکومت کے تنخواہ دار تھے اور نہ ہی انہیں کوئی اور مراعات ملتی تھیں۔ اللہ کے یہ نیک بندے جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت سے سرشار آزادی کی تمنا لیکر نکلے تھے اس لئے وہ اسی کمانڈر کے ساتھ رہنا پسند کرتے جو حکومت آزاد کشمیر کی تشکیل میں حصے دار ی کا نہیں بلکہ آزادی کشمیر کا خواہاں ہوتا۔ نائیک سیف علی جنجوعہ نے ابتداء میں مینڈھر کے علاقہ میں جو جہادی کارروائیاں کیں ان کا ذکر بھی کسی نے نہیں کیا چونکہ حکومت اور میڈیا میں ان کی برادری کا اثر و رسوخ نہیں تھا۔
حالانکہ ان کی یہ پلاٹون جس کی نفری سے ہی بعد میں بٹالین بن گئی مینڈھر میں متعدد مقامات پر عرصہ تک لڑتی رہی۔
جب راقم نے شہید کی بیوہ سے ان کے دیگر معرکوں اور مجاہدین کی تربیت کے حوالے سے ذکر کیا تو محترمہ زہرہ بی بی نے بتایا کہ شہید سیف علی خاموش طبع انسان تھے۔

(جاری ہے)

شاید قدرت کو ان کی تشہیر منظور نہ تھی اسی لئے کسی کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ وہ شہید کے دیگر کارناموں کا بھی ذکر کرتا۔

پھر کہنے لگیں کہ اس دور میں وہ لوگ کسی ایک جگہ پر تو رہتے نہیں تھے۔ سردار صاحب (سردار فتح محمد خان کریلوی) انہیں کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف بھیجتے۔ جس نالے یا چوٹی پر ڈوگروں کا اجتماع ہوتا کسی نہ کسی کو ان کی سرکوبی کے لئے جانا پڑتا۔ سیف علی واحد کمانڈر تھے جو ہر لمحے اپنے آپ کو تیار رکھتے اور لوگوں کو جمع کرکے ڈوگروں پر حملہ آور ہوتے۔
زہرہ بی بی کے مطابق ابتدائی دنوں میں سیف علی شہید کے پاس ایک رائفل اور تلوار تھی جو کہ ان کے گھر میں پہلے سے موجود تھی۔ تھانے والوں نے تلوار اور بندوق جمع کروانے کا حکم دیا تو ہم نے دونوں ہتھیار سردار صاحب (سردار فتح محمد خان کریلوی) کے پاس جمع کروا دیئے۔ سردار صاحب کا حکم تھا کہ کوئی آدمی اپنا ہتھیار ڈوگرہ پولیس کو نہ دے بلکہ سردار صاحب کے پاس لے آئے۔
اپنے ہتھیار جمع کروانے کے بعد سیف علی شہید نے دوسرے لوگوں کو بھی سمجھایا کہ ڈوگرے ہتھیار چھین لیں گے اس لئے ہتھیار سردار صاحب کے پاس جمع کروادیئے جائیں۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سردار صاحب نے سیف علی جنجوعہ کو کچھ ہتھیار دیئے اور پھر بہت سے لوگ سیف علی کے پاس آنے لگے جنہیں لیکر وہ مینڈھر چلے گئے۔
زہرہ بی بی کہتی ہیں کہ ان کے شہید شوہر لوگوں کو کہتے کہ ہمت کرو۔
اپنا علاقہ نہیں چھوڑنا بلکہ دشمنوں کو یہاں سے بھگانا ہے۔ انشاء اللہ بہت جلد یہاں پر بھی قائداعظم کی حکومت ہوگی۔
قارئین محترم:۔
جہاد آزادی اور تحریک آزادی کشمیر تو خالصتاً پاکستانی مزاج رکھتی تھی مگر پاکستانی حکومتوں نے کشمیریوں کے مزاج کی قدر نہیں کی۔ پاکستانی قیادت ہمیشہ آزاد کشمیر میں بننے والی حکومتوں میں دلچسپی لیتی رہی اور عوام کو کبھی اہمیت نہیں دی جس کی وجہ سے کشمیریوں کا مزاج بھی وہ نہیں رہا جس کی واحد امین زہرہ بی بی ہیں۔
وہ تھرڈ آپشن کی نہیں بلکہ قائداعظم کی حکومت کی بات کرتی ہیں اور اسی کی منتظر ہیں۔ زہرہ بی بی کوحکومتوں اور حکمرانوں سے بھی کوئی شکوہ نہیں۔ وہ اپنے خاوند کے کارناموں کی تشہیر بھی نہیں چاہتی چونکہ شہادت کسی تشہیر کی محتاج نہیں۔ یہ بندے اور ربّ کا معاملہ ہے اور شہید کا انعام اللہ کے پاس ہے۔
اے کاش! ان شہیدوں کی میراث کے مالک اور ان کے خون کی کمائی کھانے والی آزاد حکومتوں کو بھی اس کا خیال آئے کہ شہید تو اپنا مقام پاگئے مگر ان کے خون سے بے وفائی کرنے والوں کا اللہ کے نزدیک کیا مقام ہوگا؟۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja