Episode 45 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 45 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

فتح شکست میں بدل گئی

 1947-48 ءء کی جنگ آزادی بنیادی طور پر تحریک پاکستان سے مطابقت رکھتی تھی مگر پاکستانی عوام کی طرح حکومت پاکستان نے کشمیر کے معاملے میں جو سرد مہری دکھائی اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ بھارتی افواج کے سرینگر پہنچنے کے بعد پاکستانی حکمرانوں کے پاس اس بات کا جواز نہیں تھا کہ اگر پاکستان کشمیر میں مداخلت کرے تو بھارت حملہ کردے گا۔
جب بھارت حملہ کرچکا تھا اور اپنے آپ کو پنجرے میں ڈال چکا تھا تو پھر پاکستان کو خدا نے موقع دیا تھا کہ وہ پنجرے کا دروازے بند کردے۔ بجائے قبائلیوں کو سرینگر بھیجنے کے انہیں جموں کی طرف بھجوایا جاتا اور بھارت کا زمینی راستہ بند کردیا جاتا مگر غلامانہ ذہنیت کی حامل بیورو کریسی نے سوتے ہوئے انگریز کو بھی دیوتا سمجھا اور اس کی اجازت کو خدا کی مرضی سمجھ کر تابعداری کے اصولوں کو خدائی احکامات سمجھ کر ان پر عمل پیرا رہی۔

(جاری ہے)

جیسا کہ متعدد بار بیان ہو ا ہے کہ انگریز افسروں میں چند جرنیل، کچھ بریگیڈیئر، کرنل اور میجر تھے جن کی خدمات پاکستان آرمی نے برطانوی حکومت سے مستعار لے رکھی تھیں۔ انگریزسٹور کیپر، دربان، کلرک اور موٹر ڈرائیور نہیں تھے اور نہ ہی ہتھیاروں اور ایمونیشن کے سٹوروں کی چابیاں ساتھ لیکر سوتے تھے۔ اگر پاکستانی افسر چاہتے تو ہتھیاروں کی بڑی کھیپ مجاہدین کو بھجواسکتے تھے۔
اس جہاد کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ مجاہدین مقامی اور تربیت یافتہ فوجی تھے جو دوسری جنگ عظیم ان ہی ہتھیاروں سے لڑچکے تھے جو پاکستان آرمی کے پاس تھے ۔یہ سابقہ فوجی جن کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد تھی کی موجودگی میں قبائلیوں کی بھی ضرورت نہیں تھی مگرغلامانہ ذہنیت نے حکمرانوں کی سوچ کو مفلوج کردیا اور کسی کوہمت نہ ہوئی کہ وہ نہتے کشمیریوں کی مدد کرے۔
ابتدائی جوش و جذبے کے بعد یہ جنگ جلد ہی علاقائی صورت اختیار کرگئی اور مجاہدین کمانڈروں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ بہادری کی جھوٹی کہانیوں اور داستانوں نے جنم لینا شروع کردیا اور پھر ہر کسی نے جلدی جلدی اپنے بریگیڈ اور بٹالین بنالیں تاکہ حکومت پاکستان سے ملنے والی خیرات سے اپنا پیٹ اور رتبہ بڑھایا جائے۔
مجاہدین جب برف پوش پہاڑوں پر بے سروسامانی کی حالت میں لڑ رہے تھے تو ان کیلئے پاکستانی عوام کی طرف سے جمع کیا ہوا راشن، گرم کپڑے اور ادویات پنڈی کے بازاروں میں بک رہی تھیں۔ حکومت پاکستان نے 1948ءء کے وسط میں جو تھوڑا بہت اسلحہ و ایمونیشن بھجوایا وہ بھی چند نامی گرامی شخصیات نے قبضے میں لے لیا اور اگلے مورچوں پر لڑنے والوں کی کوئی مدد نہ کی۔
بدقسمتی کا ایک اور تھپڑحکومت پاکستان کی طرف سے یوں لگا کے ابتدائی دور میں جو فوجی افسر مجاہدین کی رہنمائی کے لئے آئے اور پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ تکالیف برداشت کرتے رہے انہیں ایک سخت گھڑی میں یعنی جب بھارتی افواج پوری قوت سے حملہ کرنے لگیں تو ان افسروں کو تبدیل کردیا گیا۔ بعد میں آنے والوں نے مجاہدین کو صرف پس قدمی کی ترغیب دی اور فتح کئے ہوئے علاقے بھی بھارت کے حوالے کردیئے۔
ستمبر 1948ءء میں جب مون سون عروج پر تھا تو بھارت نے پوری قوت لگا کر راجوری سے مجاہدین کو نکال دیا۔ یہاں فوجی افسروں اور مقامی جرال قبیلے میں اختلافات پیدا ہوئے جس کا فائدہ محصور ڈوگرہ فوج نے حاصل کیا۔ ڈوگروں نے جرال سرداروں اور سٹیٹ آرمی کے افسروں کی چپقلش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی فوج کو محفوظ راستوں سے آگاہ کیا۔
سردار فتح محمد خان کریلوی کی طرح راجوری کے جرالوں کے سردار ذیلدار محمد خان جرال نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح جرال سرداروں اور فوجی افسروں کے اختلافات ختم ہوسکیں مگر انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ذیلدار صاحب نے اس قضیے کو ختم کرنے کیلئے جی ایچ کیو آزاد کشمیر کو بھی آگاہ کیا اور حکومت پاکستان کے نمائندوں سردار شوکت حیات، جنرل اکبر خان، خان عبدالقیوم خان اور وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کو متعدد خطوط بھجوائے مگر شنوائی نہ ہوئی۔
یکم اکتوبر 1948 ءء کی رات بھارتی افواج نے تھانہ، شاہ درہ، گھمبیر اورر تن پیر کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔ دو اکتوبر کو وقت ضائع کئے بغیر بھارتی بریگیڈ کمانڈر نے تازہ کمک منگوا کر درہ پیر پنجال پر قبضہ کیا اور دریاے سورن کے ساتھ ساتھ وادی سورن میں پیش قدمی شروع کردی۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja