Episode 50 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 50 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

گمنام ہیرو

نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ہلال کشمیر) کی شہادت کا واقع 26 اکتوبر 1948ءء کو پیش آیا۔ شہادت کے لحاظ سے نشان حیدر پانے والوں میں آپ کا نمبر دوسرا ہے۔ چونکہ اس سے پہلے کیپٹن سرور شہید (نشان حیدر) تل پترا کے مقام پر داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے تھے۔ مگر افسوس کہ جدوجہد آزادی کشمیر کے اس ہیرو کی کیپٹن سرور اور میجر طفیل شہید کی طرح میڈیا میں کوئی پذیرائی نہ ہوئی اور نہ ہی ملک کے دانشوروں اور اہل قلم نے جرأت وبہادری کے اس پیکر کی شخصیت کو عوام الناس میں متعارف کروانے کی طرف کبھی دھیان دیا۔
درویشی نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ہلال کشمیر) کا خاندانی وصف تھا۔ آپ کی بیوہ نے اپنے شہید خاوند سے کیا ہوا وعدہ پورا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت خالصتاً دینی انداز میں کی اور کسی دنیاوی لالچ اور مادی چاہت کی طرف دھیان نہ دیا۔

(جاری ہے)

مگر افسوس کہ آزاد کشمیر کی کسی حکومت اور قائد نے کبھی بھی اس عظیم شخصیت اور شہید کا ذکر اپنے کسی پیغام میں نہیں کیا اور نہ ہی ان کے ورثاء کو اس اعزاز کے شایان شان کوئی مراعات دیں۔

تحریک آزادی کشمیر کو ہر حکومت اپنے منشور میں اہمیت دیتی ہے اور 1947ءء کے شہیدوں اور غازیوں کو اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت بھی پیش کرتی ہے مگر اعلیٰ ترین اعزاز پانے والے سیف علی شہید کا کبھی کسی نے ذکر نہیں کیا۔ 4 نومبر 1985ءء کو آزاد کشمیر کے وزیر مال جناب ملک محمد یوسف نے آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا کہ نائیک سیف علی جنجوعہ (ہلال کشمیر) کو پاکستان کے دیگر شہداء اور یہ اعزاز پانے والی شخصیات کے لواحقین کے برابر مراعات دی جائیں مگر حکومت نے اس قرار داد کو کوئی اہمیت نہ دی اور نہ ہی ہلال کشمیر پانے والے شہید کو نشان حیدر پانے والوں کی صف میں شامل کروا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن، اخبارات اور دیگر سول اور فوجی مقامات اور اطلاعات کے مراکز میں جہاں نشان حیدر پانے والوں کی تصاویر سرکاری طور پر یا پھر نوجوان نسل کو اپنے ہیروز سے متعارف کروانے کے لئے آویزاں کی جاتی ہیں وہاں نائیک سیف علی شہید نشان حیدر یا ہلال کشمیر کے لئے پچاس سال تک کوئی جگہ میسر نہ تھی۔

شہداء کشمیر کے کارناموں کا اعتراف

زندہ قومیں اپنے ہیروز کے کارناموں کو کبھی نہیں بھلاتیں بلکہ آزادی کی جنگیں لڑنے والوں کے کارناموں کو مشعل راہ بنا کر آئندہ کیلئے لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔
سکاٹ لینڈ کا ولیم والس ہو یا عمر مختار یا مارشل ٹیٹو، دنیا کے کسی بھی ملک اور قوم کا کبھی یہ شیوہ نہیں رہا کہ وہ دھرتی کے لئے لہو کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے بھول جائیں اور کاغذی ہیروز اور مادی منفعت کے متلاشیوں کو آگے لاکر حقیقت پر پردہ ڈال دیں۔ جو قومیں اس طرح کے شعبدہ بازوں کے شکنجے میں جکڑی جائیں ان کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوتا۔
اس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پچھلے پچاس سالوں سے جاری تحریک آزادی کشمیر جو کہ حقیقتاً تحریک الحاق پاکستان ہے کے اصل ہیروز اور ان کے عظیم ترکارناموں کے ساتھ اہل علم و قلم نے وہ برتاوٴ نہیں کیا جو ان کی شان کو دوبالا کرتا اور آنے والی نسل کے خون کو گرمانے اور اس تحریک کو نئی قوت اور سمت دینے کا موجب بنتا۔
ایک عرصہ خاموشی کے بعد سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید خان، آزاد کشمیر رجمنٹ کے سابق کرنل کمانڈنٹ جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) سردار ایف ۔
ایس۔ کے لودھی، جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاء اللہ خان، سنٹر کمانڈنٹ جناب بریگیڈیئر (ر) محمد اکبر خان اور بریگیڈیئر (ر) عبدالقیوم خان کی کوششوں سے آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر میں تحقیق کا شعبہ قائم کیا گیا جس نے اپنی محنت اور کوشش سے آزاد کشمیر رجمنٹ کی تاریخ چھپوا کر بہت سے گمنام ہیروز کے معرکوں سے فوج اور قوم کو روشناس کروا یا اور اہلیان کشمیر پر ایک عظیم احسان کیا۔
یہ تاریخ اپنی جگہ ایک بہترین کوشش ہے جو خالصتاً فوجی انداز میں لکھی گئی ہے اس لئے ان مجاہدین اور شہداء کے نجی اور سماجی مسائل کی طرف رہنمائی نہیں کرتی۔ اس طرح وقت کی کمی اور حقیقی جستجو میں نرمی کے باعث شہداء کے تمام تر دوستوں، عزیزوں اور غیر معروف شخصیات سے ملنا بھی ایک مشکل امر واقع ہوا ہے جس کا احاطہ شائد شعبہ تاریخ آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر نہیں کرسکتا۔
اس کام کے لئے ضروری ہے کہ حکومت آزاد کشمیرکا کشمیر لبریشن سیل دانشوروں اور محققین کی ایک جماعت اس کام پر لگائے تاکہ تحریک آزادی کے ان عظیم فرزندوں کے کارناموں سے اہلیان کشمیر کو روشناس کروا کراس تحریک میں ایک نئی روح پھونکی جائے۔
نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ہلال کشمیر) کے عظیم کارنامے کو منظر عام پر لانے کے لئے ان کی رجمنٹ کے جناب لیفٹیننٹ کرنل امان اللہ خان کی کوششیں بھی قابل تحسین ہیں جن کی بدولت ایک عرصہ بعد حکومت پاکستان نے مورخہ 29 فروری 1996ءء کو نائیک سیف علی خان کو ملنے والے اعزاز ہلال کشمیر کو نشان حیدر کے برابر قرار دیا۔
مگر افسوس کے تاحال نہ تو شہید سیف علی کی کوئی یادگار حکومت نے تعمیر کروائی اور نہ ہی اس درویش صفت شخصیت کے لواحقین کی کسی قسم کی مالی مدد کی گئی۔ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ہلال کشمیر) کا گھر آج بھی سفید پوشی اور خودداری کا وہی نمونہ پیش کرتا ہے جو پچاس سال پہلے شہید کی زندگی میں تھا۔ شہید کی عمر رسیدہ بیوہ، بیٹی اور دونوں بیٹے ہر آنے والے مہمان کو وطن کشمیر کا مہمان سمجھ کر ان کی پذیرائی کرتے ہیں اور قطعاً شکوہ کناں نہیں کہ حکومت نے ان کی دیکھ بھال نہیں کی۔
آپ کا بڑا بیٹا محمد صدیق جنجوعہ ایک عرصہ تک آزاد کشمیر رجمنٹ میں سروس کرتا رہا مگر ایک حادثے میں ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے ریٹائر ہوگیا۔ دوسرا بیٹا انتہائی معصوم اور شریف النفس ہے اور گھر کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ محمد صدیق جنجوعہ نے اپنے باپ کی شناخت کی جنگ بڑے ہی معصومانہ انداز سے لڑی اور آزاد کشمیر کی ہر حکومت کو باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ آزادی کا چراغ روشن کرنے والوں کو نہ بھلائے مگر تاحال کسی حکمران کو آزادی کی اس نعمت کی قدر کرنے کا خیال نہیں آیا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja