Episode 51 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 51 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

تلخ حقائق

سلطان محمود غزنی سے اپنا لشکر لیکر چلا تو ایک بادہ خوار نے بادشاہ کا راستہ روک کر پوچھا کہ وہ کدھر جارہا ہے۔ محافظوں نے بادہ خوار کی گرفت کی تو بادشاہ نے انہیں منع کردیا۔ سلطان بادہ خوار سے مخاطب ہو کر بولا کہ وہ تسخیر ہند کا ارادہ رکھتا ہے۔ بادہ خوار نے قہقہ لگایا اور طنزیہ انداز میں بولا: کیا غزنی میں عدل و انصاف اور خوشحالی کا دور دورہ ہے کہ تم ہند میں امن قائم کرنے جا رہے ہو۔
دانشمند محمود نے لشکر کورک جانے کا حکم دیا اور واپس اپنے دفتر شاہی میں جا بیٹھا۔ افسروں، وزیروں، امیروں، سرداروں اور منصب داروں کو حکم دیا کہ ساٹھ یوم کے اندر اندر اپنے اپنے علاقہ کے عوامی مسائل درست کریں، ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کریں، جہاں عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے انہیں پورا کریں، شاہی خزانے کا ضروری حصہ جس سے فوج اور دوسرے محکموں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں کے علاوہ سارا خزانہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کردیا جائے۔

(جاری ہے)

ساٹھ روز بعد سلطان نے ساری سلطنت میں منادی کروائی کہ جہاں کسی کو کسی وزیر، مشیر، اور حکومتی اہلکار کے خلاف شکایت ہو وہ تیس روز کے اندر براہ راست سلطان کے دربار سے رجوع کرے۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی جاری کیا کہ جھوٹے شکائیتی کی گردن ماردی جائے اور سچی شکایت کا ازالہ کیا جائے اور انعام بھی دیا جائے۔
اس سے پہلے کہ شکایات کنندگان سلطان کے دربار میں پہنچتے، حکومتی اہلکار، وزیر، مشیر اور قاضی دوڑے دوڑے ان بھوکوں، ننگوں کے دروں پر سوالی بن کر پہنچ گئے اور جہاں جہاں جس جس کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی اس کا ازالہ کیا، معافیاں مانگیں اور بادشاہ سے رحم کی اپیل کی۔
مورخ لکھتا ہے کہ تیس یوم کی مدت کے بعد صرف ایک شخص بادشاہ کے حضور پہنچا اور بادشاہ سے بڑی عجیب شکایت کی جو محمود ہی کے خلاف تھی۔ یہ شکایتی وہی بادہ خوار تھا جس کے طنز نے بادشاہ کو حکومتی اور ملکی معاملات درست کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
بادہ خوار بے نیازی سے سلطان سے مخاطب ہوا اور بولا حقوق العباد اور حقوق اللہ میں اعتدال ضروری ہے۔
کچھ وقت اپنے اہل خانہ کیلئے اورکچھ اپنی ذات کیلئے مختص کرو۔ تمہاری زندگی رعایا کے لئے ضروری ہے۔ اچھا قائد اور رہنما عوام کے لئے قدرت کا عطیہ ہے۔
یاد رہے کہ سلطان محمود دن رات امورِ سلطنت میں مصروف رہتااور جو وقت ملتا عبادت الہی میں گزار دیتا۔کام کی وجہ سے وہ اکثر بیمار رہتا اور آخر کار سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر دار فانی سے کوچ کرگیا۔
غزنی کا محمود ایک حقیقت تھا اور آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اس کا نام تاریخ میں زندہ ہے۔ حقیقت زندگی ہے جبکہ بے حقیقت زندگی بھی مردگی ہے۔ آج تحریک آزادی کشمیر نودولتیے لیڈروں،ٹن وزیروں،مشیروں اور اہلکاروں سے ہی نہیں بلکہ بادہ خواروں میں بھی خود کفیل ہے ۔مگر نہ ہی ان بادہ خواروں میں عقل و دانش ہے اور نہ ہی سلاطین و امراء میں حقائق کا سامنا کرنے کی جرأت ہے۔
آزاد کشمیر دستور ساز اسمبلی دنیا کی واحد اسمبلی ہے جہاں علماء و مشائخ بھی موجود ہیں مگر بادہ خوار تو کجا آج کسی عالم دین اورشیخ کامل میں بھی اتنی سکت نہیں کہ وہ حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا آپ نے آزاد کشمیر کے معاملات درست کرلئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی فتح کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہو۔ کیا آزاد کشمیر میں عدل وانصاف کا بول بالا ہے اور عوام سکھ کی نیند سوتے اور چین کی بانسری بجاتے ہیں کہ آپ مقبوضہ کشمیر والوں کے مسائل حل کرنے کی سوچ رہے ہو۔
کیا کسی ایک سیاسی لیڈر، سیاسی دانشور، صحافی، گدی نشین، پیر اور سیاسی صوفی اور شیخ کا ایسا کردار ہے جو میر ی بات کی نفی کرے؟
تاریخ تحریک آزادی کشمیر و انقلاب پونچھ 1947ءء کے مصنف محترم سردار گلزار حجازی نے اپنی تصنیف کے صفحہ 122 پر عدل و مساوات کی ایک تاریخی مثال پیش کی کہ جب چرچل سے کسی نے پوچھا کہ کیا اس جنگ عظیم میں برطانیہ عظمیٰ کی حکومت برقرار رہے گی۔
چرچل نے چیف جسٹس سے دریافت کیا کہ کیا برطانوی عوام کو انصاف مل رہا ہے اور عوام عدلیہ سے مطمئن ہیں۔ چیف جسٹس نے اثبات میں سر ہلایا تو چرچل نے برجستہ حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں جب تک ہماری عدالتیں اور جج انصاف فراہم کر رہے ہیں ملک اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔
سردار حجازی صاحب نے اسی صفحہ پر حضرت علی کا تاریخی قول بھی نقل کیا ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ میں یہاں کنفیوشس کے ایک قول کا اضافہ کرتا چلوں کہ درندوں سے نبھا تو ہوسکتا ہے مگر بے حس اور ظالم حکمرانوں سے نہیں۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja