Episode 56 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 56 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

شملہ معاہدے کے معرض وجود میں آنے کے بعد جو زمینی اور ظاہری تبدیلیاں کشمیر میں ہوئیں ان کا بیان بھی ضروری ہے۔ شملہ معاہدے نے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن بنایا تو مسئلہ کشمیر بین الاقوامی حیثیت سے گر کر باہمی حیثیت اختیار کر گیا۔ یعنی یہ مسئلہ اب ہندوستان اور پاکستان کا باہمی مسئلہ بن گیا جسے دونوں فریق کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر شملہ معاہدے کے تحت باہمی گفت شنید کے ذریعے حل کرنے پر راضی ہوگئے۔
حیرت کی بات ہے کہ ساڑے تین سو سال سے اپنی آزادی کے لئے لڑنے والے کشمیریوں کا اس معاہدے میں کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی کبھی کسی کشمیری لیڈر نے اس نقطے کی طرف دھیان دیا ہے۔ آج اس نقطے کو بنیاد بنا کر بھارت ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور کھلے عام آزاد کشمیر پر فوج کشی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

(جاری ہے)


شملہ معاہدے کے بعد آزاد خطہ میں جو حکومتیں قائم ہوئیں انہیں آزاد کشمیر میں بسنے والے عوام سے کم اور کشمیری مہاجرین سے زیادہ ہمدردیاں ہوگئیں ہیں۔
صدیوں سے آباد کشمیری مہاجرین جو صرف کشمیر میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ بعض قدرتی آفات اور تلاش روزگار کے سلسلے میں موجودہ پاکستان میں آباد ہوئے اور صدیاں بیت جانے کے بعد ان کی نئی نسلوں کو کشمیر سے کوئی سروکار نہیں رہا، ان کی آزاد اسمبلی میں سیٹوں کی بھرمار ہونے لگی ہے۔ مہاجرین کی ان خصوصی سیٹوں نے آزاد کشمیر کی سیاست میں جو گل کھلائے اور جس طرح کے قائد اور لیڈر اسمبلی میں بھجوائے ان کی داستانیں بیان کرنے کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔
سوائے جناب ثنا ء اللہ قادری اور شاہ غلام قادر کے کوئی بھی ایسا سیاسی لیڈر اس طبقہ میں نہیں جس کا ڈائرکٹ تعلق خطہ زمین سے ہو۔یہ لوگ پاکستان میں بھی جائیدادیں، نوکریاں، کاروبار اور ووٹ کا حق رکھتے ہیں اور پاکستانی سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے نمائندے مہاجرین کی صورت میں آزاد کشمیر کے خزانے سے بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ لوگ وزیر مشیر بھی بنتے ہیں اور سوائے اپنی برادریوں کے باقی آزادکشمیریوں کو نفرت اور حقارت سے دیکھتے ہیں۔
یہی حال نوکریوں کا ہے۔ ہر محکمے میں مہاجرین کی مخصوص سیٹیں ہیں جس پر یہ لوگ اپنا خاندانی حق سمجھ کر قابض توہوجاتے ہیں مگر آزاد کشمیر کے عوام کے لئے کام کرنا ان پر فرض نہیں۔ یہ لوگ تنخواہیں اور دوسری مراعات لینے اور چھٹیاں گزارنے آزاد کشمیرآتے ہیں۔ ان کا رہن سہن بودوباش طرز معاشرت گفت وشنید، نشست و برخاست کسی بھی لحاظ سے آزاد کشمیر والوں سے نہیں ملتا اور نہ ہی یہ تنخواہ دارحاکم آزادکشمیر والوں سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں بھی تبدیلیاں آئیں اور مقبوضہ وادی اور جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا دور شروع ہوگیاجبکہ بھٹو صاحب کو زندگی نے مہلت نہیں دی کہ وہ آزاد کشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کا باقاعدہ اعلان کرتے۔ پاکستان کے اندرونی حالات اور سردار عبدالقیوم خان اور کرنل حسن مرزا جیسے سیاسی مخالفین کے ڈر کی وجہ سے بھی بھٹو مرحوم اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ورنہ یہ مسئلہ سترکی دہائی میں ہی حل ہوجاتا۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی عوام کا کشمیر اور کشمیریوں سے رویہ انتہائی مختلف ہے۔ پاکستانی عوام نے کشمیر کی آزادی کے لئے ہمیشہ جان ومال کی قربانی دی اور بغیر کسی صلے کے اپنا سب کچھ کشمیری مسلمانوں کے لئے وقف کیا مگرحکمران طبقے کا رویہ اس کے برعکس رہا۔ اس سلسلہ کی چند حقیقی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
گنگا ہائی جیکنگ کیس میں مقبول بٹ شہید پر جو مظالم شاہی قلعہ لاہور میں ڈھائے گئے اسے بیان کرنا آسان نہیں۔
محمد سعید اسعد نے شہید مقبول بٹ کے جیل سے لکھے گئے خطوط پر مبنی شعور فردا کے عنوان سے ایک تاریخی دستاویز ترتیب دی۔ یہ خطوط جن لوگوں کے نام ہیں وہ معاشرے کے عام لوگ ہیں جو صرف وطن کی مٹی سے محبت کرتے ہیں اور اس مٹی کی آبرو کی حفاظت کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔
ان عظیم لوگوں میں ایک درویش مرحوم اکرام اللہ جسوال بھی تھے جنہیں میں عرصہ تک میر پور کے احاطہ کچہری میں ایک پرانے ٹائپ رائٹر کے پاس بیٹھے دیکھتا رہا۔ مرحوم نے اپنی ساری زندگی عشق آزادی کے روگ میں گزار دی اور کبھی کسی حکمران کے آگے سرجھکایا نہ کوئی صلہ طلب کیا۔ یہ خطوط ذاتی نوعیت کے ہیں جن میں سوائے عزم مصمم اور جدوجہد آزادی کے لئے ثابت قدم رہنے کے اور کچھ بھی نہیں مگر اس تحریر کو بھی حکومت نے ضبط کرلیا اور اس کی تشہیر پر پابندی عائد کردی۔
شعور فروا کے صفحہ 27 پر مصنف لکھتے ہیں کہ جب عدالت عالیہ نے گنگا ہائی جیکنگ کے ملزمان کو بری کیا تو آزاد کشمیر اور پاکستانی عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ بعد میں حکومت پاکستان نے ان لوگوں سے کوہاٹ کے ٹانڈہ ڈیم ریسٹ ہاوٴس میں مذاکرات کئے اور انہیں تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار ہونے کو کہا۔ اس کے صلے میں انہیں بڑی بڑی آسائشیں دینے کا وعدہ کیا مگر وطن کی مٹی کے ان رکھوالوں اور عشق آزادی کے دیوانوں نے حکمرانوں سے کوئی معاہدہ نہ کیا۔
کتاب کے صفحہ اٹھائیس پر لکھا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ شہید سے منگلا قلعہ میں ملاقات کی اور بٹ صاحب سے درخواست کی کہ اگر وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں تو آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ ان کے حوالے کردی جائے گی۔ شہید کشمیر نے بھٹو صاحب کی آفر ٹھکرادی اور انہیں صاف جواب دیا کہ ان کی منزل آزادی ہے نہ کہ ڈھائی اضلاع کی وزارت عظمیٰ۔
بہت سے کشمیری مجاہدین اور انقلابی رہنماوٴں کا بیان ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو مقبول بٹ شہید کی قائدانہ صلاحیتوں، غربت، خوداری اور خود اعتمادی سے ڈرلگتا تھا۔ مقبول بٹ نے بھٹوصاحب سے میٹنگ کے دوران آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کی آفر ٹھکرادی اور ان سے درخواست کی کہ ان کی تنظیم کو آزاد کشمیر میں ٹریننگ کیمپ بنانے اور کشمیری قوم کو جہاد آزادی کے لئے تیار کرنے کی اجازت دی جائے۔
بھٹو صاحب کو خدشہ تھا کہ جو لوگ بھارتی اور پاکستانی جیلوں اور ٹارچرسیلوں کی سختیاں برداشت کرچکے ہیں وہ کہیں ان کے لئے وبال جان نہ بن جائیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو صاحب نے مقبول بٹ شہید سے درخواست کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر چلے جائیں اور وہاں تحریک کو متحرک کریں اس سلسلہ میں وہ مقبول بٹ شہید کی مالی مدد کریں گے۔ بٹ صاحب مقبوضہ کشمیر تو چلے گئے مگر کسی نے ان کی خبر نہ لی بلکہ کسی کی مخبری پر بھارتی فوج اور انٹیلی جنس نے ان کی کھوج لگانا شروع کردی۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے بٹ صاحب پہلے قید ہوئے اور پھر شہید کردیئے گئے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja