Episode 4 - Jinnati By Shahid Nazir Ch

قسط نمبر 4 - جناتی - شاہد نذیر چوہدری

”جی شکریہ ۔وہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کون کس کا مسئلہ حل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔آپ کو اپنے علم پر گمان نہیں یہ بہت اچھی بات ہے۔لیکن میں نے آپ کے علم سے استفادہ کیا ہے ۔آپ نے جنات کے غلام میں جو وظیفہ بتایا تھا اسکی پڑھائی کے بعد ہی میں نے اپنی زلیخا کوپایا تھا۔آپ کی کہانی اور علم میرے لئے نافع ثابت ہوئی تھی… بہر حال مسائل بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
میں سمجھتاہوں آپ کے توسل و رہنمائی سے مجھے ایک راستہ ملااور میں کامیاب ہوگیا۔میں شایداب بھی آپ سے رابطہ نہ کرتالیکن میں جب بہت عاجز آگیا توکسی کے مشورہ پر استخارہ کیا ہے ۔استخارہ کی رات میں نے خواب دیکھاکہ ایک عجیب و غریب انسان آپ کی کتاب پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ شکرپارے بانٹ رہا ہے۔میں اس بندے کے پاس سے گزرتا ہوں اور اس سے شکر پارے مانگتا ہوں تووہ میرے منہ پر تھوک دیتا اور پھر اس کتاب یعنی جنات کا غلام سے پیٹنا شروع کرتا ہے۔

(جاری ہے)

اس دوران میری آنکھ کھل جاتی ہے۔میں کیا دیکھتا ہوں آپ کی کتاب جو شیلف میں رکھی تھی میرے سینے پرپڑی ہے اور میرے پورے بدن کا جوڑ جوڑ درد کررہا ہے۔مجھے اس خواب کی تعبیر تو معلوم نہیں ہے لیکن میں نے جب بیگم کو یہ خواب سنایا اور پھرکتاب اور درد کا واقعہ سنایا تو اس نے آپ سے فوری رابطہ کا مشورہ دیا“
”اوہ…یا اللہ مجھے معاف فرمانا“ میں انکی بات سن کر گھبراگیا۔
”بھائی میرے، اللہ آپ کو اور مجھے بھی ہر طرح کے امتحان سے بچائے“ 
”آمین۔بھائی،ہم لوگ آج ادھر لاہور ڈیفنس میں آئے ہوئے ہیں۔میراایک گھر ادھر بھی ہے۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو گاڑی بھیج دیتا ہوں آپ میرے گھر تشریف لائیں۔یہ میرے لئے عزت کی بات ہوگی،میں خود بھی حاضر ہوسکتا ہوں آپ کے آفس میں لیکن میں بیگم اور بچوں کو بھی آپ سے ملوانا چاہتاہوں“
بابر حسین کی گفتگو نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔
ان دنوں ویسے بھی میں داتا دربار پر بابا جی کے ”عطا کردہ “ ایک علم سے جان چھڑوانے کے لیے دعا کرنے جاتا تھا۔اس عجیب و غریب علم نے مجھے اب پریشان کر رکھا تھا لہٰذا جب میں ان علوم سے کوئی فائدہ اٹھاناہی نہیں چاہتا تھا تو اس لئے نجات ہی بہتر تھی۔
 اتفاق یہ ہوا۔ اسی رات مجھے ایک اسائمنٹ پر شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔ رات بھر سفر میں رہنے اور صبح سویرے اسائنمنٹ مکمل کرنے میں خاصا وقت لگ گیا۔
اس دوران بابر حسین کا فون آتا رہا لیکن کمزور سگنل کی وجہ سے میں اس سے بات نہ کر سکا اور اسے میسج کے ذریعہ مطلع کرکے مطمئن ہوگیا کہ آج رات لاہور واپس آگیا تو اگلے روز انشاء اللہ ملاقات کروں گا۔ 
بعض اوقات انسان اپنے تئیں اپنے ہر کام کو ترتیب سے کرنا چاہتاہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے وہ وقت کو اپنے ہاتھ میں لیکر اپنے سارے کام بخوبی انجام دے لے گا۔
لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔ وقت چکمہ دیتا رہتا ہے اور انسان کو نچواتا ہے۔ میں اس روز عشاء کے وقت لاہور واپس پہنچا تو ایک نئی مصیبت میرا انتظار کر رہی تھی۔ خیر اس کا ذکر کیے بغیر میں یہ عرض کر دوں کہ میں اگلے روز ہی کیا، ایک ہفتہ تک بابر حسین سے نہ مل سکا۔ میں بار بار معذرت کرتارہا۔ اس دوران کئی اور مصیبت زدہ لوگوں نے بھی بابا جی سے ملنے کی درخواستیں کی تھیں لیکن میں کسی کو بھی مناسب جواب نہیں دے سکا۔
جواب دیتا بھی تو کیا …کس کے بھروسے پر انہیں بابا جی سے ملوانے لے جاتا؟ میں خود بھی حیران تھا کہ یکایک اتنی گہما گہمی اور مصروفیت کا سبب کیا پیداہوگیاہے۔ 
جمعرات کو میں حسب معمول داتا ہجویری کے حضور رات گئے حاضری دینے پہنچا تو اس بات کا اشارہ مل گیا کہ اس میں مشیّت الٰہی تھی ۔ بابر حسین سے فی الفور ملاقات قدرت کو منظور نہیں تھی۔
میں داتا ہجویری  کی مسجد میں نماز تہجد پڑھنے کے بعد دعا کے لیے مزار پُرنور کے پاس پہنچا اور آپ کی تربت کے سرہانے کی جانب باہرایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ زائرین معمول کے مطابق آجارہے تھے لہٰذا اس وقت کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں لگ رہی تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ جس ستون کے ساتھ میں نے ٹیک لگا رکھی تھی اس کے دوسرے پہلو پرکوئی اور بھی بیٹھا تھا اور دھیرے دھیرے کھسکتاہوا میری جانب آرہا ہے۔
اس وقت میں ارتکاز کی حالت میں تھا اور لذت انہماک سے باطنی وسعتوں میں خود کو تیرتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ معاً میرے شعور کی دہلیز پر دستک ہوئی،احساس نے مجھے چوکنا کیا اور گمان پیدا کیا کہ کوئی شے سرسراتی ہوئی میرا دامن کھینچ رہی ہے۔ 
ذہن چوکس ہوگیا ، میری حسیات بیدار ہوئیں تو میں نے جھٹ سے اس جانب دیکھا۔ وہ ایک مجہول عام سے چہرے والا شخص تھا۔
اس نے میری قمیض کا دامن کھینچا اور بولا ”اٹھو…اس کی بات سنو…“ اس نے سر سے ایک طرف اشارہ کیا۔
”کس کی بات سنوں…“ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک چار انچ لمبا کیل اپنی جیب سے نکالا، اس پر کچھ پڑھا اور مجھے دے کر بولا”وہ …ادھر کولر کے پاس بیٹھا ہے …یہ کیل اس کے سر میں ٹھونک دو…“
”کیا مطلب…میں کیوں یہ کام کروں…“ میں نے اپنا دامن چھڑوایا اور پیچھے ہٹا۔
”کون ہو تم…“
اس نے محض دانت نکالے اور کیل زبردستی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا اور پھر اتنی جلدی میں وہ اپنے کپڑے سمیٹ کر اٹھا کہ میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ کیل ہاتھ میں لئے میں ششدر تھا۔ کیل …کس کی کھوپڑی میں ٹھونکنے کی بات کرکے وہ چلا گیا تھا … یہ کیا معمہ تھا۔ بہرحال مجھے احساس ہوگیا کہ اس پراسرار یت کے پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوگا۔
میں نے ہمت کی اور کولر کے پاس جا کر احتیاط سے پانی پینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ پانی کا گلاس بھرا اور ترچھی نظروں سے اس کے عقب میں دیکھنے کے لیے دبے پاؤں چلا گیا۔ مگرکوئی نہ تھاوہاں …میں نے پانی پیا اور سوچا یہ مجہول سا شخص یقیناً کوئی دیوانہ ہی تھا۔ اسے پُراسرار سمجھنا محض واہمہ تھا۔ ویسے بھی ہم جیسے لوگ عام مزارات پر بھی فاتحہ اور دعاؤں و منتوں کے لیے جاتے ہیں تو ہر کوئی وہاں کسی کرامت اور انہونے واقعہ کا منتظر ہوتا ہے۔
مزارات پر ایسے کردار بھی عام ہوتے ہیں جن میں سے اکثر نیکی کی آڑ میں اپنا کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے غیر معمولی طور پر بھلے سے نورانی اور پراسرار ہی کیوں نہ دکھائی دے رہے ہوں مگر ان کا باطن بہت کمزور اور نفس زدہ ہوتا ہے۔ وہ زائرین کی عقیدت لوٹ لیتے ہیں اور انہیں مرعوب و متاثر کرنے کے لیے اس طرح سے گفتگو فرماتے ہیں اچھا بھلا انسان محض کسی بددعا یا کسی موقع کے ضائع ہو جانے کے خوف سے گھبرا کر انہیں عظیم ہستی سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے اورپھر اس پر فخر کرتا ، دوستوں، عزیزوں کو بھی بتاتا پھرتا ہے…مگر میں جان گیا تھا کہ …بزرگ ہستیاں ان شعبدہ بازوں کالباس نہیں پہنتیں۔
وہ چکنی چپڑی باتوں سے اپنے سائلین و زائرین کو متاثر نہیں کرتیں۔ بس ان کے باطن کے سوئچ پر ہاتھ رکھ دیتی ہیں۔ ان کے قلوب میں ذوق و شوق آن کر دیتی ہیں۔ ان کی مناجات اپنی جھولیوں میں بھر کر بارگاہ ایزدی میں سفارش کرتی ہیں اور ان کے محبان کا دامن نور سے بھر جاتا ہے۔
میں نے کیل کو وہاں پھینکنا مناسب نہ سمجھا اور سوچا اگر یہاں پھینک دیا تو کسی کا پاؤں زخمی ہو جائے گا۔ 
اس دوران اجتماعی دعا کا وقت ہوگیا۔ داتا دربار پر برسوں سے زائرین بڑی عقیدت اور ذوق سے ذکر و دعا میں شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت لاہور کے بڑے بڑے نامی گرامی، سرمایہ دار ، سیاستدان، گویا ہر شعبے کا بندہ عام سے لباس میں وہاں پہنچتا ہے۔ دعاکی نورانیت سے فیض حاصل کرتا ہے۔

Chapters / Baab of Jinnati By Shahid Nazir Ch