Episode 5 - Jinnati By Shahid Nazir Ch

قسط نمبر 5 - جناتی - شاہد نذیر چوہدری

 کیل سر میں ٹھونکتے ہی وہ ظاہر ہوگیا
دعاکے بعد میں باہر نکلا۔ ڈرائیور حسب معمول گاڑی میں سویا پڑا تھا۔ میں جب گاڑی سے سو قدم دور تھا کہ ایک باؤلا سا شخص میری طرف بھاگا چلا آیا اور جھٹ سے اس نے اپنا سر میرے سامنے کر دیا۔اس کا سر غیر معمولی طور پر کسی بڑے تربوز جیسا تھا۔ میں ٹھٹک گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے پانچ کا نوٹ دینا چاہا تو وہ سر اٹھا کر مجھے گھورنے لگا”پیسہ نئیں…کیل ٹھونک…“
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
 میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔
”کون ہو تم…“ میں نے پوچھا۔
”کیل ٹھونکو…کیل ٹھونکو…“ وہ میرے سوال کے جواب میں ایک ہی اصرار کرتا رہا۔
”او بابا… معاف کر مجھے…“میں نے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ 
”میں کیوں ٹھونکو ں کیل…جااپنا کام کر…“
”نئیں ٹھونکو گے…اچھا…یہ بات ہے۔

(جاری ہے)

“ اس نے زہریلے انداز میں میری طرف دیکھا اور پھر اندھیرے میں سے ناجانے اس کو کیسے ایک بڑا پتھر نظر آگیا۔

اس نے اٹھایا اور تنبیہہ کے انداز میں بولا”وہ کھڑی ہے تیری گاڑی…پتھر ٹھونک دوں گا اس میں …“
”اوئے بندے دا پُتر بن…“ مجھے اب کچھ نہ کچھ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی غیر معمولی معاملہ ہے۔ لہٰذا میں نے رب ذوالجلال کا نام لیا اور مخصوص وظیفہ پڑھ لیا۔ میں نے اپنے اندر تقویت محسوس کی اور جیب سے کیل نکال کر اس پر بھی پھونک مارنے لگا کہ وہ چلاّ اٹھا …”ناں …ناں…یہ کام نہ کرنا…بس یہ پھوکا ہی ٹھونک دو…“
”اچھا…مگر پہلے ادھر آؤ …ادھر فٹ پاتھ پر…“ اس نے پتھر پھینک دیا اور اندھیرے میں ڈوبے فٹ پاتھ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا۔
فٹ پاتھ سے بہت زیادہ بدبو آرہی تھی۔ نشہ باز اور عموماً بہت سے دیوانے راتوں کو یہاں حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے تھے۔ 
میں نے یکایک اسکی کلائی پکڑ لی اور غیر محسوس انداز میں اس کی نبض ٹٹولتے ہوئے اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن وہ باؤلا ہی تھا ، کسی بات کا جواب دینے کی بجائے مسلسل کہتا رہا ”کیل جلدی سے ٹھونک دے…“ مجھے اسکی حرکت بالکل ایسے لگی جیسے کوئی نشہ باز نشہ نہ ملنے پر بلکتا ہے، میں جس مقصد کے لیے اس کی نبض ٹٹول رہا تھا وہ پورا ہوگیا۔
اس کی نبض غائب تھی۔
وہ انسان نہیں تھا۔
مگروہ ایک انسانی وجود میں تھا۔ انسانی خون کی گردش اور دل کی دھڑکن اس میں مفقود تھی۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا…کیل اس کے سر پر رکھا …اور سوچا کوئی پتھر ملے تو اس سے ٹھونک کر کھوپڑی میں اتار دوں…مگر اسکی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔کیل اس کی کھوپڑی پررکھا تو یوں کھوپڑی میں دھنستا چلا گیا جیسے یہ کھوپڑی موم یا روئی کی بنی ہوئی ہو۔
کیل جونہی کھوپڑی میں نیچے تک اُتر گیا باؤلے کی آنکھوں کی پُتلیاں پھیلنے لگیں اور میں نے اس لمحہ میں پھر مخصوص وظیفہ پڑھ لیا اور جب اٹھنے لگا تو وہ دانت نکوس کر بولا ”بابر حسین سے نہ ملنا…اگر ملے تو یہ کیل جو تو نے اپنے ہاتھوں سے میرے مغز میں اتارا ہے اسے تمہاری کھوپڑی میں ایسا اتاروں گا …ایسا اتار وں گا کہ جدھر بھی جائے گا کوئی نہیں نکال پائے گا…جا اب چلا جا …کسی کی عزت کرتا ہوں اس کی بدولت تجھے آج صرف سمجھانے آئے تھے ہم دونوں …“
میرا منہ کھلا رہ گیا۔
میں کیسے گاڑی تک پہنچا۔ گھر آیا مجھے یاد نہیں۔ نماز فجر کے بعد ایسا کمزور پڑ کے سویا کہ اس روز ظہر کی نماز بھی چھوٹ گئی …میرا ذہن ماؤف ہوگیا تھا۔ میں اس قابل ہی نہیں رہا تھا کہ باؤلے کی باتوں کو ذہن سے کھرچ کر نکال پاتا۔
عصر کی اذان کے وقت مجھے کچھ اپنا آپ سنبھلتا ہوا محسوس ہوا۔میں نے اٹھ کر غسل کیا اور نمازعصر گھر پر ہی ادا کرکے جائے نماز پر ہی بیٹھ گیا۔
پہلے تو ذہن بالکل خالی رہا پھر آہستہ آہستہ سوالات اٹھنے لگے کہ اگر ایسے معاملات پیش آتے رہے تو کہاں تک بھاگوں گا،کیا فرار حاصل کرکے ان چیزوں سے چھٹکارا حاصل کر پاوٴں گا۔تم اپنا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ کیا تمارا دامن بالکل خالی ہوچکا ہے؟ جو فیض و عطا تمہیں دی گئی تھی اسکو استعمال نہ کرکے اپنا اور دوسروں کا بھلا کیوں نہیں کرتے؟یہ علم تو زرہ کی طرح ہیں ،بلٹ پروف جیکٹ کی طرح ہیں،فائروال ہیں یہ… توانہیں اپنی حفاظت کے لئے استعمال کیوں نہیں کرتا۔
؟تو بڑا متوکل بنا پھرتا اور مخلوق خدا کا درد سینے میں اٹھائے رکھتا ہے اور فخریہ کہتا رہتا ہے کہ ”میرے لیئے اللہ ہی کافی ہے“تو اس ”ذات کافی“ کی عطا کو استعمال کیوں نہیں کرتا؟…تجھے ڈر کس بات کا ہے۔ایمان کے چھن جانے کا،سہواً نیکی کی آڑ میں کسی گناہ کے سرزدہوجانے کا؟…خیر…ایک طویل عرصہ کی کشمکش کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ سسک سسک کر یا عُذرکیساتھ زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ حق اور جائز کام کے لئے اور کم ازکم اپنی حفاظت کے لئے وظائف کی دولت کو استعمال کیا جائے۔
لہذا میں نے عصر سے مغرب تک اپنے پاک اللہ کی حمدو ثنا کی اور ایک مخصوص ساعت میں وظائف پڑھ کر خود پر دم کرلیا۔جس وقت میں وظائف پڑھ رہا تھا مجھے اپنے پورے بدن میں یکدم جھرجھری محسوس ہوئی اور سرد سی لہرپاوٴں کے انگوٹھے سے اٹھی اور سر کے مقام اخفا تک مجھے سنّ کرگئی۔مجھے لگا یہ مقبول دعا کا اشارہ ہے،فیض ربّانی کا احساس ہے… یہ سوچنا تھا کہ مجھے اپنے اندر والہانہ اطمینان محسوس ہوا اور پھر میں نے ربّ ذوالجلال کے حضور اپنے ساتھ پیش آنے والا معاملہ پیش کیا اور اسکوسلجھانے کی دعا کی۔

Chapters / Baab of Jinnati By Shahid Nazir Ch