Episode 2 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 2 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

بقول مصنف کشمیر کی غلامی کی الگ داستان ہے جس پر کبھی سچ نہ بولا گیا اور نہ ہی لکھا گیا ہے اور اگر کسی نے کوشش کی ہے تو اُسے اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اقتدار کے ایوانوں میں ارتعاش کا باعث ہوگی۔ مصنف نے اس ضمن میں کافی حد تک انصاف کا ترازو قائم کر رکھا ہے ۔ پاکستان کے جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں اور کشمیر کی مقامی لیڈر شپ کی گٹھ جوڑ کو تعصب کی عینک اُتار کر صفحہ ِ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
مصنف نے ارباب اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ عام کشمیریوں کی سادگی اور سہل پسندی پر بھی برمحل طنز کے نشتر چلائے ہیں۔ مصنف اس ضمن میں رقمطراز ہیں: 
” وطن فروشوں کی چرب زبانیوں کے سحر میں مبتلا کشمیریوں نے یکے بعد دیگرے آزادی کے بدلے غلامی کا سودا کرنے میں عافیت جانی اور آئندہ آنے والی نسلوں کو غلامانہ زندگی بسر کرنے کا عادی بنایا“ اس کتاب میں مصنف نے جا بجا کشمیری قوم اور لیڈر شپ کی نااہلی ، نالائقی اور بے حسی کی نشاندہی کی ہے۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر مصنف لکھتے ہیں کہ 
” آج مسئلہ کشمیر ایک المیے میں بدل چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کشمیری قوم کی اپنی درخشندہ تاریخ سے نا واقفیت ، قیادت اور نصب العین کا فقدان ہے “ 
اسرار احمد راجہ کی شخصیت کا سب سے مضبوط پہلویہ کہ وہ وطن سے محبت اور وطن فروشوں سے نفرت کے حامل ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنی کتاب میں ایک طرف تو پاکستان اور کشمیر کے سیاستدانوں کی کرپشن ، لوٹ کھسوٹ ، اقربا پروری اور وطن دشمنی کا دلگیر انداز میں ذکرکیا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان اور کشمیر کی برادری اور مسلک کی بنیادوں پرتقسیم پر نوحہ لکھا ہے۔
مزید برآں اُنہوں نے قوم پرست سیاسی جماعتوں اور پاکستان دشمن ، مذہبی رہنماؤں کی کارستانیوں کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ کھل کر تنقید کی ہے۔ 
” آزادکشمیرکے صحافیوں کا مخصو ص ٹولہ سردار محمد ابراہیم اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم کے ایک دوسرے پر برتری کے قصے لکھتا رہا یا پھر من گھڑت قصے کہانیوں پر مبنی قصیدہ گوئی کرتارہا “ 
اس طرح اسرار احمد راجہ نے بھارت اور افغانستان نواز سیاست دانوں اور صحافیوں کا پردہ بھی چاک کیا ۔
اس ضمن میں وہ صفحہ144۔145 میں لکھتے ہیں: 
”مسئلہ کشمیر ، نظریہ پاکستان ، فوج اور ڈیم پاکستانی سیاست کے منفی پہلوہیں ۔ ہر سیاسی جماعت اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بھارت کی ہمنوا ہے ۔قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ۔ کئی عشروں بعد بھارت نے اٹوٹ انگ کا نعرہ لگایا۔ سوشلزم اور سیکو لرازم کے حامی پاکستانی شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں نے بھارت کے اس نعرہ کو حتی المقدور تقویت دی اور قائداعظم کے بیان کا تمسخر اڑایا۔
پاکستانی حکمران طبقہ ہمیشہ سے کشمیر بیزار پالیسی پر گامزن رہا “ 
مصنف نے بغیر کسی لگی لپٹی کے آزاد اور مقبوضہ کشمیرکے کرپٹ نظام حکومت اور بے اُصول سیاسی ٹولے کے طرز ِ حکومت کو کشمیرکاسب سے بڑا لمیہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ ٹولہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا ہوا ہے۔ اور انہوں نے کشمیریوں کے مفادات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور تحریک آزادی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے متعلق وہ صفحہ 157 میں لکھتے ہیں: 
” یہاں زرداری اور نواز شریف کے عاشق ہیں اور تو دوسری طرف مودی اور سونیا گاندھی کے چیلوں کی کمی نہیں۔ دونوں طرف آزادی کی تڑپ رکھنے والے بھی موجود ہیں جن پر غیر وں ہی نہیں بلکہ اپنوں نے بھی ظلم کا پنجہ گاڑ رکھا ہے “ 
اسرار احمد راجہ نے اپنی اس کتاب کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو صحیح معنوں میں اجاگر کرنے میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے کردار کو والہانہ انداز میں خراج ِ تحسین پیش کیا ہے۔
اُن کے ساتھ چوہدری غلام عباس کی تحریک ِ آزادیِ کشمیر اور مسئلے کو سیاسی محاذ پر مثبت انداز میں اُجاگر کرنے پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ 
قصہ کو تاہ، مصنف نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ اسلام ، پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بغض رکھنے والے سیاستدان ، حکمران ، اہل قلم اور اہل رائے جب تلک کھل کر سامنے نہیں آتے تب تک تنزلی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہیگا ۔
عام لوگ مد ہوشی کے عالم میں نواز شریف ، زرداری ، فضل الرحمن ، الطاف حسین اور اُن کے چھپے اور ظاہری حواریوں کے عشق میں مبتلا ہو کر رُسوائی کے دلد ل میں دھنستے جائینگے۔ 
میں مصنف سے سو صد فیصد متفق ہوں کہ کشمیر کی تقدیر پاکستان سے منسلک ہے اور پاکستان کی تصویر کشمیر کے بغیر ادھوری ہے۔ 
ڈاکٹر شہزاد علی 
یوینورسٹی ایونیو ، ملتان 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja