Episode 6 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 6 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

کشمیر کا المیہ میں اسرار احمد راجہ نے بڑی بے باکی اور خلوص سے دنیا اسلام، پاکستان اور کشمیریوں کی زبوں حالی پر قلم اٹھایا ہے ۔چنانچہ ان کی کتاب تین حوالوں سے پڑھنے والوں کی دلچسپی کا محور بنے گی۔ یعنی اسلام کے حوالے سے پاکستان کے حوالے سے اور ریاست جموں کشمیر یا یوں کہہ لیجئے کہ مملکت کشمیر کے حوالے سے اور تینوں حوالوں سے ہر دور کے حکمرانوں سیاستدانوں علماء اور دیگر صاحب الرّائے کو ہے۔
قومی و ملی ذمہ داریوں کے حوالے سے غافل قرار دیا ہے ۔
مصنف کا ماننا ہے کہ آج کے پاکستان کو جن مسائل اور مصائب کاسامنا ہے اس کا پس منظر برطانوی نو آبادیاتی نظام اور مغربیت کے اثرات اوراسلام کے خلاف سازشوں کا حصہ ہے ۔مصنف کے نزدیک پاکستان کا مغرب زدہ سیاسی طبقہ پاکستان کا دوست یعنی ہمدرد کم اور دشمن زیادہ ہے کیونکہ اس طبقے کی خود غرضی اور بد دیانتی نے پاکستان کو مضبوطی کی بجائے ایک کمزور ملک بنا دیا ہے اور اس تناظر میں وہ جہاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہاں وہ ماضی کے فیلڈ مارشل ایوب خان، لیاقت علی خان، سکندر مرزا اور متعدد دیگر سیاستدانوں کو بھی پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار مانتے ہیں ۔

(جاری ہے)

مصنف نے اپنی کتاب میں جہاں کشمیر اوراس کے موجودہ یعنیcontemporary ناگفتہ بہ حالات کا تجزیہ کیا اور اس کی عظمت رفتہ پر کھل کر اظہار خیال کیا وہاں مختلف ادوار میں کشمیر پر ظالم و جابر مقامی اور غیر ملکی حکمرانوں پر بھی بحث کی جن کے اقدامات سے کشمیری قوم کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا۔مصنف خاص طور پر چک حکمرانوں کے اندرونی خلفشار کو آزادی سے غلامی کے دور کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے آج کے کشمیری حکمرانوں کا ان سے موازنہ کرتے ہیں اور اس نووارد، نودولتئے، خود غرض اور طفیلی سیاست دان طبقے کی بے حسی کو موجودہ صورتحال کا اور کشمیر کے المیے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ایک طبقہ بھارتی حکمرانوں کا زر خرید بنا ہوا ہے اور دوسری طرف آزاد کشمیر کا سیاسی طبقہ بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار کے مصداق پاکستانی سیاستدانوں کا حاشیہ بردارہے۔ مصنف نے اسی تناظر میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو ان کے کشمیریوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جانے پر ماضی کے ایک ظالم اور جابر کشمیری حکمران مہر گل کا روحانی بیٹا قرار دیا ہے جبکہ آزاد کشمیر میں پنجاب کے دیگر خاندانوں کو وہاں کی ناگفتہ بہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
 
اسرار احمد راجہ نے میرے نزدیک اپنی کتاب کوMulti dimensional narrative دیا ہے جس میں انہوں نے موضوع کو عمدہ طریقے سےdevelopکرنے کے ساتھ ساتھ شروع سے آخر تک evolve کیا ہے اور تہذیب، تمدن، پہچان، سچائی حقیقت اور حقائق کی روشنی میں فلسفیانہ انداز تحریر میں ان تمام معاملات اور موضوعات کا احاطہ کیا ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پرہمیں یعنی کشمیری قوم کے علاوہ پاکستان کو کئی دہائیوں سے اور امت مسلمہ کو سینکڑوں برسوں سے در پیش ہیں ۔
لہذا مصنف اس پورے تجربے یعنی اجتماعی قومی experience یا پراسیس کی بنیادی وجہ کو اچھے اور برے یعنی خیر و شر یا پھر good and bad میں فرق کا نہ ہونا سے تعبیر کرتے ہیں اور معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی اقدار کے فقدان کو احکامات خداوندی سے کھلی بغاوت قرار دیتے ہوئے مسائل، مصائب اوربے ہنگم زندگی کے اطوار کا احیاء اور معاشرے میں افراتفری یعنیchaos سے تعبیر کیا ہے۔
مصنف آج کے پاکستان میں دہشتگردی اور بے راہ روی کو مشرف اور شوکت عزیز کی پالیسیوں کی بدولت مصنوعی ترقی اور خوشحالی سے منسوب کرتے ہیں۔ مصنف کا ماننا ہے کہ مغربی اور ہندو کلچر پاکستانی سوسائٹی میں سرایت کرچکا ہے۔مصنف نے تہذیبی ٹکراؤ پر بھی تفصیلی بحث کی ہے اور جہاں وہ اس حوالے سے تاریخی پس منظر میں ہماری پستی کو دیکھتے ہیں وہاں دور حاضر یعنی contemporary context میں امریکہ کی ہاروارڈ یونیورسٹی کے آنجہانی پروفیسرSamuel Huntington کی 1996ء میں لکھی گئی کتاب "تہذیبوں کے تصادم "کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس پر اس مختصرreview میں تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔
البتہ مصنف کے مطابق غلامی، ذلت اور رسوائی کا دائرہ جب تک مکمل نہیں ہوتا تب تک نہ صالح قیادت سامنے آئے گی اور نہ ہی پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی ۔نہ عدل و مساوات کا نظام فعال ہوگا اور نہ کشمیر کا المیہ نقطہ انجام پر پہنچ کر اصلاح و فلاح کی طرف لوٹ سکے گا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا تعلق پانچ ہزار سالہ تاریخ کا سفر ہے۔اس سفر کی آخری منزل کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی از سر نو تعمیر ہے۔
آخر مصنف نے یوں کیوں کہا ہے؟اس کے لئے ضروری ہے کہ اسرار احمد راجہ کی کتاب کشمیر کا المیہ کو شروع سے آخر تک غور اور دلجمی سے پڑھا جائے ۔

پروفیسر ظفر خان
لیوٹن برطانیہ 14 مئی 2019 ء

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja