Episode 7 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 7 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

میری گزارش

 کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کشمیری تہذیب و ثقافت کی امین ہے۔ کشمیر کی سرحدیں حالات ، واقعات اور حادثات کے نتیجے میں سکڑتی اور پھیلتی رہیں ، حکومتیں اور حکمران بدلتے رہے ، خوشیوں کی بہاریں آئیں تو دکھوں ، غموں ، مصائب والم کی یلغار بھی ہوتی رہی مگر تہذیب و ثقافت اور تاریخ کا شجرِ پُر بہار اپنی تما تر توانائیوں اورر عنائیوں کی قوت و لطافت کے سہارے قائم رہا ۔
 
قوموں، حکمرانوں اور حکومتوں کے عروج و زوال کی داستان کا نام تاریخ ہے۔ تہذیب تاریخ کا حسن اور ثقافت کی بنیاد ہے۔ کتنے ملک ، اقوام ، شہر اور بستیاں کرہ ارض پر آباد ہوئیں اور پھر مٹ گئیں مگران کی ثقافت کے آثار اور تہذیبی روایات تاریخ کے اوراق پر درج ہیں۔

(جاری ہے)

 

زندہ قومیں اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی راہیں متعین کرتی ہیں ۔
خوش فہمی اور خود فریبی کے مرض میں مبتلا اقوام عزت و آزادی کے معنی بھول کر ذلت و غلامی کی زندگی میں راحت محسوس کرتی ہیں۔ کشمیری تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کا مطالعہ کریں تو یوں لگتا ہے کہ 1947ءء کی تحریک آزادی کی ناکامی نے کشمیری تاریخ و تمدن کے ہزاروں سالہ بہتے دریا کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ 
انسانی زندگی اور اُس سے جڑے ہر علم کی تاریخ ہے۔
تاریخ کا علم لامحدود ہے جس کی وسعت و گہرائی کا اندازہ انسانی سوچ سے باہر ہے۔ تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو کشمیری تاریخ ، ثقافت اور ادب کے کئی روشن پہلو اس بات کی دلیل ہیں کہ خطہ کشمیر انسانی تاریخ کے ہر دور میں اہمیت کاحامل تھا اور اب بھی ہے ۔کشمیری تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذبوں میں شمار ہوتی ہے ۔کشمیری تہذیب چینی تہذیب کی ہم عصر ہے۔
یونانی ، ہندی، ایرانی ، مصری اور بابلی تہذیبوں نے بعد میں جنم لیا۔ انکا تہذیب کے آثار گواہی دیتے ہیں کہ یہ تہذیب مصری تہذیب سے ہم آہنگ تھی۔ کشمیر ی تہذیب اس لحاظ سے بھی اہم اور منفرد ہے کہ اس تہذیب پر سوائے چینی تہذیب کے کسی دوسری تہذیب کے اثرات نظر نہیں آتے ۔ہندی ، سندھی ، ایرانی اور بابلی تہذیب پر چینی اور کشمیری تہذیب کے اثرات ہیں۔
بہت سے ہنر ، پیشے اور روایات ایسی ہیں جنکا تعلق چینی اور کشمیری تہذیب و ثقافت سے ملتا ہے ۔ ظروف سازی ، کشیدہ کاری ، جفت سازی ، رنگ سازی، پارچہ بافی ، ریشم سازی اورکاغذ سازی سمیت درجنوں ہنر ایسے ہیں جن کی ابتداء چین اور کشمیر سے ہوئی۔ 
قرآنی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی پہلی تہذیب کی بنیاد حکم الہٰی اور امرربیّ کی صورت میں رکھی گئی ۔
حضرت آدم  اور حضرت حوا  کی تخلیق در حقیقت ایک انسانی تہذیب کی ہی تخلیق تھی۔زیر نظر تحریر میں اپنی کم علمی اورمشاہدہ قلبی کی کمی کے باعث حقیقی، الہٰی اور اسلامی تہذیب پر کھل کر نہ لکھ سکا ۔مرشد کامل کی ظاہری اور مختصر رفاقت کا اس قد ر فائدہ ہوا کہ دل کے پردے پر لکھی دھندلی تحریر کو کاغذ پر اُتارنے کی ہمت ہوگئی۔
 میرا علم انتہائی محدود اورمشاہدہ مفقود ہے۔
تاریخ کی کتابوں کے علاوہ بزرگان دین ، علمائے حق اور علم حکمت کا مشاہدہ رکھنے والوں کی محافل سے جو کچھ سمجھ سکا اور کند ذہن میں محفوظ رہااہل فکر و نظر کے روبروپیش کر دیاہے۔ 
کشمیر کاالمیّہ میرا ذاتی او رفکری المیّہ ہے اورمیں اس وجود کا حصہ ہوں جو آزادی کی راہ میں کٹ رہا ہے اور مر رہا ہے۔ میں اُس خون کا ایک قطرہ ہوں جو جہلم اور نیلم کے پانیوں کو رنگین کر رہا ہے ۔
میں اُس آواز کی گونج ہوں جس کا نام آزادی ہے اور شایدمیں اُن چند لوگوں میں سے ہوں جنہیں دور حاضر کے اہل علم و عقل ، سیاستدان ، صحافی ، دانشور ، محقق ، مفکر ، مدبّر اور مال وزر کے ڈھیروں پر بیٹھے متکبّر مہاجن کم عقل اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔ 
پانینی لکھتا ہے کہ پہاڑ کی دوسری جانب سے ایک چرواہا دوڑتا ہوا آیا اور ندی کے کنارے لگے میلے میں گھس کر شور مچا یا کہ سیلاب آ رہا ہے اوراپنا ما ل و اسبا ب سمیٹ کر دور چلے جاؤ۔
اپنی جانیں بچاؤورنہ پانی میں بہہ کر صفحہ ہستی سے مٹ جاؤ گے۔ لوگوں نے اُسے دیوانہ سمجھا اور اہمیت نہ دی۔ آسمان صاف تھااور ندی کا پانی خراماں خراماں بہہ رہا تھا ۔ میلہ پورے جوبن پر تھا ۔نٹنیاں ناچ رہی تھیں، سارنگیاں بج رہی تھیں اور ہر سو خوشی او رخوشبو کے جھونکے تھے۔ چرواہا ہرٹھیلے اور ٹھیکے پر جاتا اور صدا لگاتا مگر کو ئی سنتا ہی نہ تھا۔
روپ سروپ، سرود و سرور کی محفلیں بام عروج پر تھیں تو ناؤ نوش میں نڈھالوں کی بھی کمی نہ تھی۔ 
چرواہا مچان پر چڑھا گیا اور آخری صد ا لگائی کہ وقت کم ہے مال و اسباب چھوڑو اور جان بچاؤ مگر کسی نے ا س طرف دیکھا اورنہ سنا۔ چرواہا اپنے گدھے پر بیٹھا اور سرپٹ گدھے کو دوڑاتا پہاڑ پر چلا گیا۔ 
پہلے ایک گڑگڑاہٹ ہوئی تو میلے کا ہنگامہ ٹھہر گیا ۔
پھر پانی کا ریلہ آیا اورلمحوں میں میلے سے سجا میدان صاف کر گیا۔ نہ ناچ گا نا ، نہ محفل ،نہ ماتم، نہ سرور نہ غرور۔
کچھ دنوں بعد کسی نے چرواہے سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ طوفان آنیوالا ہے؟ بولا جب طوفان آتے ہیں تو مٹی سے خوشبو آتی ہے بارش تو دور ہوتی ہے مگر ندیاں ساغر کی جانب بہتی ہیں ۔مدہوش اور متکبر اقوام کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے جو زندگی کے میلے میں مست قدرت کے اشاروں سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔
میری تحریر چروا ہے کی صدا ہے۔ شاید کوئی سن لے ۔مسئلہ کشمیر پر لکھنے اور بولنے والوں کی کمی نہیں۔ سیمیناروں ، مشاعروں ، تقریروں ، جلسوں ، جلوسوں اور ریلیوں کی رونقیں اکثر سجتی ہیں اور پھر رنگ رلیوں کی صورت میں اختتام پذیر ہو جاتی ہیں ۔لیڈروں ، وزیروں ، مشیروں اور اُن کے ووٹروں ، سپوٹروں ہم مشرب وہم خیال صحافیوں ، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی تقریریں ، تحریریں ، تاویلیں اور تجزیے بھی آزادی بز نس میں اہمیت کے حامل ہیں۔
 
ہر لیڈر کی الگ مارکیٹ ہے اور ہر تحریر کا خاص بھاؤ ہے ۔کوئی بک کر لکھتا ہے او رکوئی لکھ کر بکتا ہے ۔کشمیرکونسلوں ، کشمیر کمیٹیوں اور فورموں کے ٹھیلے اور ٹھیکے بھی میلے میں موجود ہیں مگر چروا ہے کی صد ا سننے والا کوئی نہیں ۔ 
"شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات" 

اسرار احمد راجہ
Luton (U.K)

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja