Episode 13 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 13 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

حق مرزا لکھتے ہیں کہ جنرل ہلاکو جس کی کمان میں ریگولر فورس تھی نے مینڈھر سیکٹر کی آخری لائن پر دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ ہلاکو کی دفاعی پوزیشن کے شمال میں پنج ککڑیاں ٹاپ کے علاقہ میں سدھن بریگیڈ کی ایک بٹالین پونچھ شہر کی جانب پہلے سے دفاعی پوزیشن میں تھی جس کا کمانڈر غلام محمد خان تھا۔ غلام محمد اور ہلاکو نے ایک دوسرے سے رابطے کی کوئی کوشش نہ کی اور نہ ہی دونوں فورسز کے درمیان کھلے علاقے پر کسی قسم کی دفاعی پوزیشن اختیار کی گئی۔
دونوں جانب سے پٹرولنگ ضرور کی جاتی مگر رابطے کے فقدان کی وجہ سے علاقے کی دفاعی اہمیت پر توجہ نہ دی گئی۔
جنرل ہلاکو کے زیر کمان دو بٹالین فورس اگر مجاہدین کے فتح کیے ہوئے علاقے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرتی اور پونچھ شہر کے باہر بیٹھے پانچ بریگیڈ بھی اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی جرأت کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ اہم علاقہ دشمن سے محفوظ نہ رہتا۔

(جاری ہے)

حق مرزا لکھتے ہیں کہ
In the mountainous terrain of Kashmir there is always a hill behind. we would go to next hill if the one held became untenable but never general retreat like the one effected in Mendhar by Gen Halaku Khan with the loss of battle at Pir Said Fazal, a general pull out had been ordered vacating the entire Mendhar valley for the enomy to accupy it at leisure.
 (The withring chanar page 165)
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ پونچھ کا محاصرہ کرنے والے ایک بریگیڈ کے کمانڈر سردار عبدالقیوم خان تھے۔
پونچھ سے مایوسی کی خبریںآ نے لگیں تو کرنل اکمل نے سردار عبدالقیوم اور دیگر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ موصوف اپنی جگہ پر موجود ہی نہیں۔ دیگر کمانڈروں سے درخواست کی گئی کہ وہ حیدری فورس کے مفتوحہ علاقوں کا دفاع سنبھال لیں تو چند روز میں ہی حیدری فورس پونچھ کو آتشکدہ بنادے گی۔ پونچھ شہر کے باہر اتنی بڑی فورس کے بیٹھنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ پونچھ قربانی مانگتا تھا اور محاصرہ کرنے والوں میں ہمت، جرأت اور فیصلہ کن کارروائی کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی۔
پونچھ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس فورس کو حکومت پاکستان کی ہر طرح کی مدد حاصل تھی جو ان کے پاوٴں کی زنجیر بن گئی۔ کمانڈروں میں سے بیشتر انڈین اور سٹیٹ آرمی کے حوالدار اور صوبیدار رینک کے ریٹائرڈ آفیسر تھے جنہیں میدان جنگ کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی منصوبہ بندی کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پونچھ فورس کی اصل روح کیپٹن حسین خان شہید تھے جن کی شہادت کے بعد ان جیسی صلاحیتوں کا حامل دوسرا لیڈر سامنے نہ آیا۔
پونچھ فورس کے کمانڈروں میں باہمی اعتماد اور بھروسے کا بھی فقدان تھا۔ ہر ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے اور آگے جانے کا مشورہ تو دیتا تھا مگر ساتھ نہ چلتا تھا۔ 
پونچھ کے باہر بیٹھے دوپٹھان لشکری بریگیڈ سب سے بڑی اذیّت تھے۔ یہ قبائلی لشکر کسی کی نہ سنتے تھے اور ہر لمحے مرنے مارنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔ ایک سدھن بریگیڈ تو ان لشکریوں کی حفاظت اور خدمت پر مامور تھا۔
اکثر یہ لوگ مقامی آبادیوں میں گھس جاتے اور عورتوں کی بے حرمتی کرتے۔ لوگوں کے مال مویشی پکڑ کر ذبح کرتے اور موج مستی کا اہتمام کرتے جس کی وجہ سے مقامی آبادی اس بلائے ناگہانی سے نجات کی دعائیں کرتی۔
دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر سے عدم دلچسپی اور کشمیریوں کے نام پر موج مستی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن جن کے بزرگوں نے جہاد کشمیر کو فساد قرار دیا تھا پچھلے دس سالوں سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں جنہیں اسلام آباد میں مرکزی وزیر جیسی تمام مراعات کے علاوہ کشمیر کمیٹی کے فنڈز بھی میسر ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ آج پونچھ کے بجائے سرینگر بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے اور آزاد کشمیر میں کوئی ایسا ولّی اللہ نہیں جو مولانا فضل الرحمن سے نجات کی دعا ہی کر ڈالے۔
پونچھ کا محاصرہ کرنے والے پانچ مفاداتی بریگیڈوں کی جگہ پانچ نئے بریگیڈ مسئلہ کشمیر کا محاصرہ کیئے ہوئے ہیں۔ جنرل ہلاکو کی جگہ کئی جرنیل اس کا رخیر کو سرانجام دینے کے لئے تیار ہیں۔
جنرل مشرف کے چار نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جنرل انور کی تعیناتی ہوئی اور اب وزارت خارجہ سے ریٹائرڈ ہونے والے مسعود خان لیکچروں،سیمیناروں اور ورکشاپوں میں رونق افروز ہو رہے ہیں۔ مسعود خان کی تعیناتی میں کیا راز پنہاں ہے اس پر بھی کسی سیاسی مدبّر نے تبصرہ نہیں کیا۔ صدر مسعود خان تاریخ کشمیر سے یقینانابلد ہیں ورنہ وہ یہ بیان نہ دیتے کہ مسئلہ کشمیر پرکچھ لکھا جائے۔
دیکھا جائے تو جتنا علمی مواد تاریخ کشمیر اور مسئلہ کشمیر پر میسر ہے اتنا کسی بھی عالمی مسئلے پر نہیں۔البتہ! آج کل یہ کام ضرور ہو رہا ہے کہ تاریخ کشمیر کو مسخ کرکے نئے رجحانات کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ گلگت اور بلتستان کی تاریخ تقریباً مسخ کردی گئی ہے اور اس کا تعلق ایران، ترکستان اور افغانستان سے جوڑا جارہا ہے۔ اسی طرح پونچھ کا محاصرہ کرنے اور مراعات وصولنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور انہیں آزادکشمیر پر حکمرانی کے حقوق دیے جارہے ہیں۔
آج کل جن بریگیڈوں نے مسئلہ کشمیر کو حصار میں لے کر اس کی روح اور کردار کو اندھیرے میں دھکیل رکھا ہے ان میں سرفہرست حکومت آزاد کشمیر ہے جس پر پاکستانی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنٹوں کے ذریعے حکومت کرتی ہیں اور آزاد حکومت کا ہر عہدیدار قبائلی لشکریوں کی طرح شتربے مہار ہے۔ ان لوگوں نے آزاد حکومت کی وزارتوں اور سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر اربوں کمائے اور اب یہ لوگ اپنی جائیدادوں کی حفاظت کی فکر میں مسئلہ کشمیر کو مسئلہ تقدیر سمجھ کر دعائے خیر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja