Episode 15 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 15 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

 روزیءِ ما آخرش گردونصیبِ دیگراں

جناب مسعود خان حال ہی میں وزارت خارجہ سے ریٹائر ہوئے تو حکومت پاکستان نے انہیں آزادکشمیر کی صدارت کے منصب پر فائز کر دیا ۔ سردار مسعود خان کو اس عہدہ پر کیوں فائز کیا گیا اس پر کسی سیاسی پنڈت نے سوال نہیں اُٹھایا ۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال حکمران جماعت نون لیگ کے کسی عہدیدار یا کارکن نے اٹھانا تھا مگر چونکہ آزادکشمیر نون لیگ در اصل پاکستان نون لیگ ہی کی فرنچائز ہے اس لیے کسی کارکن یا عہدیدار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا سیاسی ، بنیادی اورریاستی حق استعمال کر ے ۔
پیپلز پارٹی آزاد کشمیر زرداری گروپ کی فرنچائز ہی نہیں بلکہ خدمتگار ، تابعدار اور با جگزار بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹوکی موت کے ساتھ ہی دم توڑ گئی تھی۔

(جاری ہے)

موجودہ پارٹی زرداری خاندان کی ملکیّت ہے اور ان ہی کے نظریے کو آگے بڑھارہی ہے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو قدیم دور کے حکمرانوں اور حملہ آوروں مہر گل، ذوالقدر خان اور دیدارانی سے لیکر افغانوں ، مغلوں ، سکھوں اور ڈوگروں کے طرز حکمرانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی سیاست خالصتاً کاروباری ہے۔ پیپلز پارٹی میں پٹواری سے لیکر اوپر کی سطح کے ہر عہدے کا ریٹ مقرر ہے۔ زیادہ بولی دینے والا بڑا عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔ شرائط عہدہ داری میں زرداری ہاؤس کی مجاوری ، خاکساری اور سجدہ ریزی شامل ہیں ۔ ان شرائط کے حامل جیالوں کو صرف اقتدار ہی نہیں ملتا بلکہ انہیں اپنے مخالفین کی بیخ کنی کا سر ٹیفکیٹ بھی مل جاتا ہے ۔
جیالے حکمران کسی آئین ، قانون ، اخلاق و اقدار اور رسم و رواج سے مبرا تصور کیے جاتے ہیں ۔ سرکاری ادارے اُن کی ذاتی خدمت پر مامور ہوجاتے ہیں اور عام لوگ صرف اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں ۔ جیالوں کے مظالم سے تنگ آکر لوگ راجوں اور مہاراجوں کو یا د کرتے ہیں اور نام نہاد آزادی پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں ۔ اگر آزادی کا مطلب سیاسی ٹھیکیداروں کی غلامی ، رسوائی اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اور بے انصافی ہے تو اغیار کی غلامی اس سے بہتر ہے۔
 
ڈوگرہ دور میں ہنزہ کا حکمران”تھم “ کہلاتا تھا ۔ ڈوگروں میں بھی پیپلز پارٹی کی طرح راجواڑوں اور ریاستوں کے میروں ، راؤں اور راجوں کے ریٹ مقرر تھے ۔ نگر،خپلو ، شگر، سکردو ،ہنزہ ، گلگت ، اشکو من ، پونیال ، یٰسین اور چترال سے لیکر یاغستان کی سات ریاستوں کے حکمران مہاراجہ کشمیر کو ہر سال ایک مخصوص رقم بطور نذرانہ پیش کرتے تھے جس کے عوض وہ اپنے اندرونی معاملات میں ہر لحاظ سے آزاد تھے۔
پونیال میں کوئی سکول نہ تھا حتیٰ کہ دینی تعلیم پر بھی پابندی تھی۔ ایسا ہی حال دیگر ریا ستوں کا تھا۔ بنیادی انسانی حقوق توکجالوگوں کوراجاؤں کی مرضی کے بغیر جینے کا حق بھی نہ تھا۔ یوں تو ہم جدید دور میں زندگی گزار رہے ہیں مگر آزادکشمیر کے بعض علاقوں میں آج ہنزہ اور نگر جیسے قوانین رائج ہیں۔ آزادکشمیر کا ایم ایل اے اپنی مد ر پارٹی کو نذرانہ دیکر اسمبلی میں آتا ہے اور پھر پٹواریوں ، کلرکوں ، تھانیداروں اور ٹھیکیداروں کے ذریعے دس گنا حرام مال کماتا ہے۔
ایم ایل اے اگر وزیر بن جائے تواس کے اختیارات مہاراجہ کشمیر جیسے اور مظالم مہر گل اور ذولچو خان سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ہنزہ کے تھم نے اپنے لوگوں پر اسقدر شکنجہ تنگ کر رکھا تھا کہ انہیں اپنے انسان ہونے پر بھی شک گزرتا تھا۔ ہنزہ میں ایک کہانی مشہور ہے کہ عبدالقدیر نامی ایک شخص نے بھوک سے تنگ آکر کسی باغ سے چند خوبانیاں کھا لیں ۔یہ باغ تھم کی ملکیت تھا ۔
عبدالقدیر پر مقدمہ چلا اور چودہ سال قیدکا حکم ہوا۔ عبدالقدیر کو گلگت جیل میں بند کیا گیا تو وہ خوشی کے مارے پاگل ہو گیا ۔ جیل میں عبدالقدیر کو صبح کے ناشتے کے علاوہ دوو قت کی روٹی بحکم اندر مہندر مہاراجہ کشمیر ملنے لگی تو جیل جنت میں بد ل گئی۔ جلد ہی عبدالقدیر کو اپنی بھوکی بیوی اور بلکتے بچوں کا خیال ستانے لگا ۔ عبدالقدیر نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بیوی اور بچوں کو پیغام بجھوائے کہ وہ تھم کے کسی باغ سے پھل توڑ کر کھائیں تاکہ وہ بھی جیل آ جائیں۔
آخر تنگ آکر عبدالقدیر نے مہاراجہ کو درخواست دی کہ اُسکے بچوں اور بیوی کو بھی جیل میں بھجوا دیا جائے تاکہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تو ایسے کئی واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ حکمران برادریوں کے نا اہل لوگ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہو کر عزت دار خاندانوں کا جینا مشکل کر دیتے ہیں ۔ زمینوں پر قبضے، سرعام مار دھاڑ، راستوں کی بندش سے لیکر مساجد سے بے دخلی اور کاروبار پرقبضے عام ہو جاتے ہیں ۔
ایم ایل اے کے خاندان ، قبیلے اور برادری کے غنڈے کھلے عام عدالتیں لگاتے ہیں جہاں سرکاری اہلکار اُن کی مدد کرتے ہیں۔ ضلعی کچہریوں میں انتظامیہ ان غنڈوں کے آگے سجد ہ ریز ہوتی ہے اور ایم ایل اے یا وزیر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ایم ایل اے یا وزیر کا فون خدائی حکم تصور کیا جاتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja