Episode 17 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 17 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

 یوں تو آزادکشمیر کا ایک عبوری آئین اور عدالتی نظام بھی ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کے پاس از خود کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ آزادکشمیر کی سب سے نچلی سطح کی عدالت نائب تحصیلدار اور سب جج کی ہے۔ ان عدالتوں تک رسائی کے لیے تھانے اور پٹوار خانے کے لیے بھاری نذرانے کے علاوہ مقامی سیاسی غنڈے اور اُس کے لیڈر کی مرضی و منشاء ضروری ہے۔ 
تھانہ اور پٹوار خانہ ہی اصل اور بااختیار حکومت اور جرائم کی فیکٹریاں ہیں ۔
یہ فیکٹریاں سیاستدانوں ، حکمرانوں اور وزیروں مشیروں کی ملکیت ہیں۔ جب تک یہ فیکٹریاں قائم ہیں مہاراجوں کے جانشین پیدا ہوتے رہیں گئے اور جبر کا نظام قائم رہیگا ۔ سرکاری ملازمین سرکار اور ریاست کے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے ذاتی ملازم بننے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

سرکاری ملازمین ہی سیاستدانوں کی الیکشن مہم چلاتے ہیں جو مہم کی آڑ میں عوام کے لیے کھلی دھمکی ہوتی ہے ۔

سیاسی ٹھیکیدار کو ووٹ نہ دینے کی سزا جائیداد سے محرومی ، جھوٹے مقدمات کا سامنا اور نوکری سے برخاستگی کی شکل میں ہو سکتی ہے ۔سرکاری ملازمین عدم تحفظ کی بناء پر سیاسی غنڈہ گردی کا شکار ہوتے ہیں اور مجبوراً ظلم و جبر کا راستہ اختیار کر تے ہیں۔ آزادکشمیر کے جبری نظام حکومت کا ڈوگرہ راج سے موازنہ کیا جائے تو ڈوگروں کے مظالم قدرے نرم دکھائی دیتے ہیں۔
ڈوگرہ دور میں زمین ریاست کی ملکیت تھی اور جوشخص مالیہ دینے کی استعداد رکھتا تھا وہ اتنی زمین حاصل کر سکتا تھا۔ ڈوگرہ دور میں ناتوڑ کا قانون رائج تھا اور یہ نظام سب کے لیے یکساں تھا ۔ پولیس کسی سیاستدان کے آگے نہیں بلکہ قوانین کے سامنے جوابدہ تھی۔ جھوٹے مقدمات کا کوئی تصور نہ تھا۔ ڈوگرہ قوانین کی برکت سے ہی آزادکشمیر کی مٹی محفوظ ہے ورنہ مجید حکومت وادی نیلم کے سارے پہاڑ زرداری خاندان کو الاٹ کر چکی ہوتی ۔
 
مجیدی دور میں محترمہ فریال تالپور نے وادی نیلم کا دورہ کیا توانہیں رتی گلی کے نواح میں ایک خوبصورت چوٹی پسند آگئی ۔فریال تالپور پر قدرت کی رعنائیوں اور فطرت کی حشرسامانیوں نے اس قد ر اثرڈالا کہ آپ نے یہ چوٹی اپنے نام الاٹ کروانے یا خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مجاور وزیراعظم کی جگہ خادم صدر سرکاری ہیلی کاپٹر پر سوار ہانپتا کانپتا وادی نیلم پہنچا اور عالیہ حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ قانون کے مطابق کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا ۔
گزارش کی کہ یہ سب ڈوگروں کا کیا دھرا ہے ورنہ ہم تو سارا آزادکشمیر بیچ کر کب کے اس مسئلے سے چھٹکار ا حاصل کر چکے ہوتے۔ اخبارات نے کئی روز تک اس واقع پر چھوٹی بڑی سرخیاں لگائیں اور ثواب حاصل کیا ۔ شکرہے کہ جناب مشتاق منہاس جیسے دانشور اور کشمیر ہاؤسنگ سکیم کے ماہر کو لکھنا نہیں آتا ورنہ وہ مولانا چراغ حسن حسرت کی طرح نیل فری کا افسانہ ضرور لکھتا۔
آزادکشمیر اسمبلی میں براجمان شیخ المشائخ نے بھی محترمہ فریال تالپور کی مدد نہ کی ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ مائی شاردہ نے خواب میں بشارت دی ہے کہ محترمہ فریال تالپور کی پسندیدہ چوٹی پر ایک محل تعمیر کیا جائے اور اسے بھٹو زرداری بیٹھک قرار دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تومائی ناردہ اور کاشی دیو ساری وادی پر قہر نازل کر دینگے ۔ 
مجھے یقین ہے کہ اگر محترم مشتاق منہاس پیپلز پارٹی میں ہوتے تو اسکا انتہائی معقول حل تلاش کر لیتے۔
وہ ساری وادی نیلم کو کشمیر ہاؤسنگ سکیم میں بدل کر متعلقہ پہاڑی پر بھٹوہاؤس تعمیر کروا دیتے یا پھر یہ پہاڑی کسی فرضی کشمیری مہاجر کوالاٹ کر دیتے جس کے ذریعے نیلم میں بھی ایک زرداری ہاؤس بن جاتا ۔تعمیر و ترقی ہو یاعوامی فلاح و بہبود سوائے جنرل حیات خان مرحوم کے کسی سیاستدان یا تحریک آزادی کشمیر کے نام پر صدقہ و خیرات پر پلنے والے نام نہاد خود ساختہ لیڈر نے کوئی کام نہیں کیا۔
مسلم کانفرنس نے طویل عرصہ تک اقتدار کا لطف اٹھایا اور اپنے جانشین اور حواری پیدا کرنے کے علاوہ کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا ۔ 1971 ء کے سانحے کے نتیجے میں قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے آزادکشمیر چپٹر کھولا تو برادری ازم اور قبائلی نفرت کی بنیادوں پر آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی جسکا بنیادی مقصد آزادکشمیر کو گلگت وبلتستان سے الگ کرنا اور دونوں حصوں کو الگ الگ صوبوں کی شکل میں پاکستان میں مدغم کرنا تھا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آزادکشمیر کا عبوری آئین بنا جسے بغیر کسی بحث کے چند گھنٹوں میں ہی منظور کر لیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ملک کا آئین بنایا گیا اُس کے عوام اور دیگر سیاسی جماعتوں سے کوئی رائے لیے بغیر حفیظ پیرزادہ کا جلد ی میں لکھا گیا مسودہ آزادکشمیر کے عوام پر مسلط کر دیا گیا ۔ 1974کے اس عبوری آئین میں بشمول کشمیر کونسل اور وزرات اُمور کشمیر کے تما م تر اختیارات چیئرمین کشمیر کونسل (چیف ایگزیکٹو آف پاکستان ) کو تفویض کر دیے گئے ۔
عبوری آئین میں آزاد جموں وکشمیر کی تشریح و تعریف کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے اُن علاقوں پر مشتمل خطہ زمین ہے جو ریاست کے باشندوں نے آزاد کروایا جس پر وقتی طور پر ایک انتظامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ مستقبل میں اگر مزید علاقہ اس عملداری میں شامل ہوا تو اُسے بھی آزادکشمیر کی جغرافیائی حدود میں شامل سمجھا جائیگا ۔ ظاہر ہے کہ یہ علاقہ مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کا ہی ہوسکتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja