Episode 19 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 19 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

پونچھ کے حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک آزادی کشمیر پونچھ چپڑ کا اصل ہیر و کیپٹن حسین خان شہید ہے ۔ کیپٹن حسین خان شہیدکی قیادت میں سدھن قبیلے کے علاوہ دیگر قبائل اور برادریوں نے ڈوگرہ فوج اور پولیس کا بھرپور مقابلہ کیا اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو عسکری تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ سردار مسعود نہ تو عوامی نمائندے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی، سماجی اور فلاحی جماعت یا ادارے سے منسلک ہیں۔
سردار مسعود کا سدھن قبیلے سے ہونا صدارت کا سر ٹیفکیٹ نہیں ہوسکتا ۔یوں تو سیاسی صدور نے بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیاجو قابل تعریف و تقلید ہو ۔ ایسا ہی احوال وزیراعظموں کا بھی رہا ہے۔ کاغذی سکیموں کے علاوہ اقرباء پروی ، برادری از م اور جیالہ از م ہر سیاسی حکومت کی اولین ترجیح رہی جو آخر کار ناسور کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔

(جاری ہے)

کرپشن ، دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی نے آزادکشمیر کی ابتر سیاسی فضاکو مزیدمکدر کیا تو تحریک آزادی نے آزادی بزنس کا روپ دھا رلیا ۔ آزادکشمیر کی تاریخ پر سچائی کی نگاہ ڈالی جائے تو یہ خطہ زمین خوش فہموں ، خودفہموں اور جی حضوریوں کی جنت سے کم نہیں ۔جناب کے ایچ خورشید اور جناب سردار محمد ابراہیم نے کچھ دیر تک خیالی تصوارتی جنت سے نکل کر حقیقت کی سیاست اور سیاست کو خدمت کاروپ دینے کی کوشش کی تو ایو ب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بند دروازں کے پیچھے رہنے پر مجبور کر دیا۔
مجاہد اوّل نے سیاست کو روابط ، روحانیت اور مفادات کا رنگ دیا توہر سوچ وفکر او رفلسفے کے فریم میں فٹ ہو گئے۔ مجاہد اوّل جرنیلوں سے قربت اور سیاستدانوں سے عداوت کے فارمولے پر کام کرتے رہے اور آخر دم تک کا میاب رہے ۔ بھٹو سے اصولی اختلاف کیا اور جیل چلے گئے۔ وہ جانتے تھے کہ جذبانی اورہیجانی سیاست زیادہ دیر نہیں چلتی۔ سردا ر ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کی شرافت بھٹو ازم کا مقابلہ نہ کر سکی اور دونوں نے وقت کے سلطان سے سمجھوتا کر لیا ۔
بھٹو سیاست میں شرافت اور مدمقابل کو پسند نہ کرتے تھے۔ 
سید ہ عابدہ حسین اپنی کتاب دی پاو ر فئلیر(اور بجلی کٹ گئی) میں لکھتی ہیں کہ جناب بھٹو شاہ جیونہ حویلی تشریف لائے تو دوران ملاقات پوچھا کہ تمہارا گھر کتنا بڑا ہے۔ میں نے گھر کا رقبہ بتایا تو فرمانے لگے کہ میرا گھر اس سے کئی گنا بڑا اور شاندار ہے۔ پھرزرعی زمینوں کا پوچھا اور جواباً کہا کہ میری جاگیر اس سے کئی گنا بڑی اور وسیع ہے۔
بھٹو کسی کو بھی اپنے برابر یا بڑا ہونے کا حق نہیں دیتے تھے۔ سیاست ہو یا امارت بھٹو برابری اور مساوات کے قائل نہ تھے۔ سیدہ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ مجھے بھٹو کی رعونت اور تکبر پسند نہ آیا ۔ 
ہم بھی وہاں موجود تھے کہ مصنف لیفٹینٹ جنرل عبدالمجید ملک مرحوم لکھتے ہیں کہ جنا ب بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز کیا تو فوجی روایات کے مطابق میرے علاوہ جنرل اکبر خان نے استعفیٰ دے دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے ترقی یاب ہونے سے دیگر چار جرنیل بھی متاثر ہوئے مگر انہوں نے نوکری جاری رکھنے اور خاموش رہنے میں عافیت سمجھی جسکاتب مجھے اندازہ نہ ہوا۔ جنر ل ٹکا خان کا خیال تھا کہ شاید میں نے اور جنرل اکبر خان نے باہمی مشورے سے ایسا کیا ہے۔ 
میرے استعفیٰ پیش کرنے کے بعد جناب بھٹو پشاور تشریف لائے اور گورنر ہاؤس میں ملاقات کے دوران بتایاکہ تمہارے بینک اکاؤنٹ میں زیادہ پیسہ نہیں اور تمہارے بچے بھی زیر تعلیم ہیں اس لیے تمہیں ایک اچھی پیش کش کر ینگے ۔
بھٹو صاحب ہمارے استعفیٰ دینے پر بے چین ہوگئے اور بہت سے خدشات دل میں بٹھا لیے ۔ بھٹو نے فیصلہ کیا کہ مجھے اور جنرل اکبر کو سفیر بنا کر ملک سے باہر بھجوا دیا جائے۔ جنرل اکبر کو میکسیکو میں سفیر بننے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے فوراً قبول کر لی جس پر مجھے حیرت ہوئی۔ 
مجھے پہلے لیبیا اور پھر ابوظہبی کی آفر ہوئی تومیں نے اسے قبول نہ کیا ۔
میں نوکری سے فارغ ہو کر اپنے گاؤں چکوال چلا گیا تو کچھ روز بعد فارن آفس کے ایکٹنگ سیکرٹری جنرل(ر) این اے ایم رضا نے فارن آفس کے ایک افسر کو گاڑی دیکر میرے گاؤ ں بھجوایا اور مجھے ملنے کے لیے کہا۔ میں نے کچھ عرصہ جنرل رضا کے ماتحت کام کیا تھا اور وہ مجھے پسند کرتے تھے ۔ ملتے ہی بے تکلفی سے کہا کہ بیوقوف نہ بنو اور فوراً اس ملک سے نکل جاؤور نہ تمہاری ، تمہارے خاندان اور دوستوں کی زندگی جہنم بن جائے گی ۔
جنرل رضا نے کہا کہ ہم نے آپ کو مراکش میں سفیر تعینات کیا ہے ۔ اسے قبول کرو اور جلد ی مراکش چلے جاؤ۔ 
جنرل مجید ملک لکھتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد میں بھی مراکش چلا گیا تو مجھے سمجھ آئی کہ جنرل اکبر نے میکسیکو کی سفارت کیوں قبول کی تھی۔ بھٹو میکاولین فلسفہ سیاست کے مقلّد تھے اور میکاوٴلی کے اصولوں کے مطابق کام کرتے تھے۔ میکاوٴلی کا مشہو رقول ہے کہ حکمران کو لومٹری کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے ۔
میکاوٴلی عوام کو احمق اور غرض مند قرار دیتا ہے اور حکمران کو تاکید کرتا ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اپنی گرفت مضبوط رکھے۔ میکاوٴلی سیاست میں اصول پر ستی کا قائل نہیں اور نہ ہی اخلاقی اقدار کا حامی ہے۔ جنرل مجید اور جنرل اکبر کی طرح جناب کے ایچ خورشید اور سردار ابراہیم خان نے بھی اطاعت قبول کرلی ۔ سردار عبدالقیوم خان اور کرنل حسن مرزا نے رقابت کاراستہ اختیار کیا تو جیل چلے گئے ۔ بختیار رانا اور جے اے رحیم نے اختلاف کیا تو نشان عبرت بن گئے اور کچھ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja