Episode 23 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 23 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

چانکیہ کو تیلیہ میکا ؤلی سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ میکاؤلی اور چانکیہ ایک ہی فلسفے کے دو نام ہیں۔ چانکیہ استحصالی نظام کا داعی ہے ۔و ہ حکمران کو مطلق العنان بنانے کے گر سکھاتا ہے اور رعایا کو کمتر مخلوق تصور کرتا ہے۔وہ بد عہدی ، بد اعتمادی اور بے اعتنائی کے ہتھیاروں سے مسلح حاکم کو ہی کامیاب حکمرانی کا حق دار سمجھتا ہے۔ چکمہ باز حکمران چانکیہ کے تصور حکمرانی میں کامیاب اور کامران ہے۔
اس کی سیاست کا محور دھوکہ دہی ، چرب زبانی اور بے اصولی پرہے۔ وہ پڑوسی ریاستوں کو کمزور کرنے کے طریقے بتلاتا ہے اور انہیں باجگزار حیثیت میں رہنے پر مجبور کرنے کا قائل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پڑوسی ممالک کو اُن کے پڑوسیوں سے لڑا کر تہی دست کیاجائے تاکہ وہ مجبور ہو کر طاقتور ریاست کے آغوش میں آجائیں ۔

(جاری ہے)

چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر اور میکاؤلی کی پرنس ایک جیسے اسباق کا مجموعہ ہے۔

میکاؤلی مخالف کو بھوک اور پیاس کے ذریعے ختم کرنے کی ترکیب بتلاتا ہے تو چانکیہ زخموں پر نمک مرچ ڈالکر اذیت ناک موت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ دونوں ہی عیاش ، عیار اور بے رحم شخص کی حکمرانی کے حق میں ہیں۔ 
چانکیہ معاشرے کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور چاروں حصوں کی حدود مقرر کرتا ہے۔وہ خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزا کا حقدار ٹھہراتا ہے۔
وہ کسی شخص کو پیشہ بدلنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ وہ ہر طبقے کے مرد کے لیے ازواج اور بچوں کی تعداد مقرر کرتا ہے ۔ چانکیہ کے نزدیک عورت گھر کے کام کاج ، کھیتی باڑی کے علاوہ مرد کی جنسی تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ چانکیہ کی تعلیم کے مطابق علم صرف اعلیٰ طبقے کی میراث ہے۔ چانکیہ جاہل، ان پڑھ حیوانی معاشرے کا مبلغ ہے۔اس کے نزدیک عام لوگ علم کی روشنی میں بغاوت پراُترآئے ہیں ۔
انہیں صرف کھیتی باڑی اور اُس سے منسلک علوم تک رسائی حاصل ہونی چاہیے ۔ وہ اعلیٰ طبقے کی خدمتگار عورتوں کو بننے سنورنے ، نہانے دھونے اور سنگھار کرنیکا اختیار دیتا ہے تاکہ امیر کادل خوش رہے اور اُسے امور سلطنت چلانے میں دشواری نہ ہو ۔ وہ ریاست کے ہر ملازم کو امیر کہتا ہے۔ چونکہ یہی لوگ امیر سلطنت کے معاون اور مدد گار ہوتے ہیں۔ 
کمیونزم کے بعد دنیا میں جو نظام رائج ہیں اُن میں کیپٹیلزم کی پشت پر میکاؤلین اور چانکیائی سوچ و فکر کے حامل نظریات واضح شکل میں دکھا ئی دیتے ہیں ۔
دوسری جانب اسلام اور تاؤ ازم یا کنفیوشزم غیر واضح لیکن متحرک صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اسلام تاؤ ازم یا کنفیوشزم کا کوئی مشترکہ جامع اور واضح پلیٹ فارم موجود نہیں اور نہ ہی سوشلسٹ چین اور بد ھسٹ جاپان ، کوریا ، تھائی لینڈ اور دیگر ریاستوں کے درمیان کوئی سیاسی ، روحانی یا فکری ہم آہنگی ہے مگر اس کے باوجود نیکی اور سلامتی ( تاؤ اور اسلام ) کے درمیان ایک ایسا رشتہ موجود ہے جسے ایک پلیٹ فارم پر لانے والی فکری تحریک کی ضرورت ہے۔
گو کہ زمانہ حال میں کوئی ایسا تھنک ٹینک موجو د نہیں جو میکاؤلین اور چانکیائی سوچ و فکر کی غلاظتوں سے پاک سچائی اور حقیقت کی روشنی میں نیکی اور سلامتی کی راہ اختیار کر ے اور پہلے سے موجود روحانی اثاثے کو سیاسی اور فکری رنگ دیکر بنی نوع انسان کے لیے بہتری کا راستہ متعین کرے۔ 
اس میں شک نہیں کہ موجود ہ عالمی نظام ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہے جسکا بظاہر کوئی اختتام نہیں۔
خلوص ، انسانیت ، روحانیت ، محبت ، نیکی اور سلامتی پر مادیت کا غلبہ ہے۔ بظاہر امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک جن میں اسرائیل ، بھارت ، افغانستان ، یورپی یونین کے علاوہ سعودی عرب ، عرب امارات ، جاپان اور دیگر امریکی سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی پالیسوں کے پر چارک شامل ہیں اور روگرانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ا مریکہ ہی دنیا ہے اور امریکہ کا صدر دنیا کا بادشاہ ہے۔
امریکی دنیا سے باہر روس ، چین ، پاکستان ، ترکی ، ایران اورچند دیگر ممالک ہیں جن کی عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ۔ امریکی دنیا سے باہر ریاستوں کا امریکہ سے کوئی مقابلہ نہیں اور نہ کوئی خطرہ ہے ۔ مگر انجانا خوف بہر حال موجود ہے۔ 
امریکہ براہ راست اور بعض ممالک میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اس خوف کے تدارک کے لیے جو کارروائیاں کر رہا ہے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کا نام دیا گیا ہے۔
امریکی مفادات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نہ کوئی واضح تشریح ہے اور نہ ہی امریکی مفادات کا تعین ہے۔ امریکی مفادات کیا ہیں خود امریکی دانشوروں اور ماہرین امور ریاست کو بھی پتہ نہیں ۔ دنیا میں جو بھی حادثہ یا واقع رونما ہوا گرامریکی مزاج کے خلاف ہو تو اسے امریکہ مفادات کا نا م دے کر اس کے حق میں یا خلاف ایکشن جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال افغان طالبان کی ہے۔ افغان طالبان سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہ تھا ۔مگر ضرورت کے مطابق ان پر جنگ مسلّط کر دی گئی جس کی سینکڑوں وجوہات بھی تراش لی گئیں ۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja