Episode 24 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 24 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

عراق اور عرب بہار کے معاملات بھی ایسے ہی ہیں ۔ القاعدہ اور داعش کی پیدائش بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ پہلے ایک حادثہ برپا کیا جاتا ہے اور پھر اُس کے تدارک کے سامان بھی مہیا کیے جاتے ہیں ۔ چانکیہ اور میکاؤلی کا نظریہ جنگ و امن بھی یہی ہے ۔ وہ مکمل جنگ اور مکمل امن کو سیاسی جمود اور نظریاتی خلفشار کا دور کہتے ہیں ۔ دونوں حالتوں میں نئی سوچ پروان چڑھتی ہے اور کارفرما نظام میں خلل پید اہوتا ہے۔
چانکیہ اور میکاؤلی الجھاؤ اور سلجھاؤ کے نظام کے قائل ہیں۔ بنتی بگڑتی صورتحال میں عوام خائف رہتے ہیں اور حکمران کو نجات دھندہ اور محافظ تصور کرتے ہیں۔ عوام فرضی داستانیں اور کہانیاں سننے کے خو گر ہوتے ہیں ۔ انہیں تصوراتی ہیروز سے خاص لگاؤ ہوتا ہے۔ انہیں خالص مبلغ اور مصلح کبھی راس نہیں آتے ۔

(جاری ہے)

وہ ایسے ولّی ، رشی اور اوتار کو پسند کرتے ہیں جو میدان جنگ کا جواں مرد ہیرو اور دنیا بھرکی حسیناؤ ں کے خوابوں میں آنے والا شہزادہ ہو۔

وہ پندو نصائح کیساتھ سزأو جزأ کا نظام بھی نافذ کرنے والا ہو۔ 
ہندؤوں کی سبھی مذہبی کتابوں میں ایسے قصے کہانیوں کی بھر مار ہے۔ اسی طرح قدیم مصری، عربی اور ایرانی ادب و ثقافت بھی ہے۔ قدیم بابلی اور یونانی تہذیبوں میں بھی دیو مالائی قصے کہانیوں کی بھر مار ہے۔ روسی ، ترک اور یورپی ادب ومعاشرت نسبتاً نئی اور قدرے جدید ہے۔ 
قدیم تمدنی و ثقافتی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مستند تاریخی حوالوں سے صرف چینی اور کشمیری تاریخ ہی واضح اور بے مثال حقائق کا خزانہ ہے۔
قدیم چین اور کشمیر کی تاریخ کا مشترک رشتہ یہ بھی ہے کہ دونوں تہذیبیں ہمسائیگی میں پروان چڑ ھیں اور مشترکہ اقدار کی حامل رہیں ۔ کشمیر کی طرح چینی معاشرے اور ماحول پر تصوف اور روحانیت کا غلبہ رہا جسکا واضح ثبوت چین کا قدیم مذہب تاؤ ازم اور بعد کے ادارو میں بدھ مت ہے۔ دونوں مذاہب کی بنیاد نیکی ، مساوات ، خدا ترسی، انسانی خدمت ، ادب و علم کے فروغ ، سیاحت ، دیگر اقوام سے روابط، تجارت اور الہٰی اصولوں اور قدرتی ماحول سے مطابقت رکھنے والا نظام سیاست و حکومت ہے۔
تخلیق کائنات کی روحانی تاریخ کے مآخذ قدرت کے وہ مظاہر ہیں جنکا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی ۔ جدید ترین سائنسی آلات تخلیق کائنات کی وجوہات اور آثار کھو جنے میں ناکام ہیں۔ سائنس نے یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ دنیا میں بسنے والی ساری مخلوق مٹی کی پیداوار اور پیدائش ہے مگر جدید ترین لیبارٹریوں ، کمپیوٹر اور دیگر آلات چیونٹی سے لیکر ہاتھی تک کسی بھی جسم سے مجسم اجزأ کو الگ کرنے اور پھر ویسے ہی جوڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
سائنس نے ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم اور دیگر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو ایجاد کر لیے ہیں مگر تباہ شدہ اشیاء اور اجسام کو پہلے جیسی حالت میں لانے کی انسانی ذہن میں کوئی صلاحیت موجود نہیں ۔ آج امریکہ میں بیٹھا ایک سپاہی بٹن دباکر دنیا میں کسی بھی جگہ میزائل گرا کر تباہی کا منظر پیش کر سکتا ہے مگر اُس کی دسترس میں کوئی ایسا بٹن یا مشین نہیں جو اس ہولناک منظر کو پھر سے خوش رنگ بنا سکے۔
 
قرآن کریم میں رب ذوالجلال نے کئی مثالیں پیش کیں تاکہ انسان راہ راست پر رہے اور نیکی کا راستہ اختیار کرے ۔ اصحاب کہف ، حضرت عزیر ، حضرت ابراہیم ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان،  ملکہ سبا، شہرارم اور لا شہ فرعون سے لیکر سینکڑوں ایسے واقعات پیش کیے گئے یا پھر اُن کی طرف توجہ دلائی گئی تاکہ انسان الہٰی احکامات کے تابع ایک امت بن کر جئیے اور اپنے پیدائشی مقصد کو حاصل کر سکے۔
سورة الملک کی ابتداء میں ہی فرمایا کہ موت اور زندگی اس لیے پیدا کی گئی تاکہ رب تعالیٰ تمہاری پہچان کر سکے کہ کون نیکی کا اور کون بدی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ آدم و ابلیس کے قصے میں بیان کیا گیا کہ ابلیس اور اولاد ابلیس کو تا قیام قیامت ڈھیل دی گئی کہ وہ اپنی شیطانی چالوں ، چقموں ، مکر وفریب ، لالچ ، ہوس و حرص کا ہتھیار استعمال کرے ۔
ساتھ ہی فرمایا کہ جو بند ے میری پیروی کرینگے اور سچائی و نیکی کے راستے پر چلیں گے شیاطین اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جہاں خالق کائنات نے انسان کو جھگڑالو، ناشکرااور جلد باز قرار دیا ہے وہی اُس کی اصلاح اورعلم و آگاہی کا سامان بھی پیدا کیا ہے ۔ علم و آگاہی کے اسباب مہیا کرنیوالے خالق نے انسان کو آزادی دی کہ جسطرح چاہے اسکا استعمال کرے ۔
ہر علم کے مثبت و منفی اثرات ہیں۔ کیمیا دانوں نے انسانی صحت و تحفظ کے لیے نت نئی ادویات تخلیق کیں اور علم طب کو معراج بخشی۔ ان ہی کیمیا دانوں کی ایک جماعت نے ایڈز جیسا موذی مرض بھی پھیلا یا جسکا مقصد بعض ممالک کی آبادی کم کرنا اور انسانوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دینا تھا۔ زرعی سائنسدانوں نے زراعت کے جدید آلات اور طریقے ایجاد کیے تو سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ایسی پالیسیاں بھی وضع کیں تاکہ اضافی پیداوار افریقہ اور ایشیا ء میں بسنے والی قحط ذرہ اقوام کو بھجوانے کے بجائے اسے جلا دیا جائے یا پھر سمندروں میں غرق کر دیا جائے۔
آج امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ غلہ پیدا کرنیوالا ملک ہے مگروہ انسانوں میں روٹیاں بانٹنے کے بجائے بم بانٹ رہا ہے اور بدلے میں اُن کی عزت نفس اور آزادی کا سودا کرتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja