Episode 26 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 26 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

تخلیق کائنات کے عمل میں زمین ایک ادنیٰ جز ہے جبکہ کائنات کی وسعت کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ سائنسدان جدید سائنسی علوم کی روشنی میں کائنات کے متعلق اندازوں سے آگے نہیں جا سکے اور نہ ہی اس کی دسترس رکھتے ہیں۔ قرآن کے بیان کے مطابق انسان کو محدودعلم دیا گیا ہے جس کی واضح وجہ یہی اخذ کی جاسکتی ہے کہ انسان کو اس سے زیادہ علم کی شاید ضرورت ہی نہیں۔
موجودہ علوم کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان نے نہ تو ان علوم کی روشنی میں خالق کائنات کو پہچاننے کی کوشش کی اور نہ ہی خلق خدا کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا۔ جدید سائنسی علوم پر چند ملکوں اور قوموں کی اجارہ داری ہے جو دیگر اقوام اور ممالک کو ان علوم تک رسائی دینے سے منکر ہیں۔
بہت سے نام نہاد پاکستانی دانشور دین اسلام کو جدید ریسرچ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اکثر اپنے مضامین اور خطابات میں لمبی چوڑی دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں مگر وہ اس سوچ و فکر پر کبھی بات نہیں کرتے جس کی بنیا د کھوکھلی اور ان کی ذاتی ضرورتوں اور خواہشات نفس پر قائم ہے۔

(جاری ہے)

جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ تعلیمات، تحقیقات، تصورات اور تخلیقات کی بنیاد نظریات پر استوار ہوتی ہے۔ نظریہ ہی قوموں کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنتا ہے۔ جوں جوں نظریات پر عمل کمزور ہوتا ہے اور ڈسپلن میں خلل پیدا ہوتا ہے تو قومیں زوال پذیر ہو کر مغلوب و محکوم ہوجاتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال سے نظریہ اختتام پذیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کمزور ہوتا ہے۔
نظریہ ایک مستقل چیز ہے جس کی افادیت برقرار رہتی ہے۔ کائنات کی تخلیق ایک اٹل نظریے کی روشنی میں ایک ارادے، حکم، حکمت اور سبب کے تحت ہوئی۔ کائناتی عمل کا تسلسل بھی آفاقی نظریے کی روشنی میں جزیات یعنی نظریا ت کے تحت عمل پذیر ہے جس کے دو بنیادی اجزأ خیرو شر ہیں۔
نظریہ خیر ظاہری اور باطنی علوم و عمل پر استوار ہے جسے ماننے والوں پر سفلی، سطحی، شیطانی اوراستدراجی نظریات کسی بھی صورت میں حاوی نہیں ہوسکتے۔
علمائے حق اولیائے کاملین کے مشاہداتی علم کے مطابق تخلیق کائنات کے اجزأ میں جُزو اوّل نور احد ہے جو اپنی نوری حیثیت میں جُزو بھی ہے اور کل بھی ہے اور اسی نظریے اور حکمت کے تابع کائناتی عمل جاری ہوا۔ دوسری جُزو خود کائنات ہے جس کا عمل نظیریہ حیات کے اصولوں پر استوار ہے۔ تیسری جُزو کائنات کا ظاہری وجود ہے جو خالق کائنات کے مظاہر کا ثبوت ہے۔
چوتھی جُزو کائنات کا باطنی وجود یا روح ہے جسے امر ربیّ، حکم الٰہی اور منشا ایزدی کا نام دیا گیا ہے۔
نظریہ شر شیطانی، سفلی، استدراجی، ناسوتی علوم پر استوار ہے اور نظریہ خیر کی ضد ہے۔ انسان اپنی ظاہری ہیت کے تابع وقتی مفاد، لالچ، خوف، ہوس و حرص، لذات وخواہشات کا اسیر بن کر نظریہ خیر سے روگردانی کرتا ہے تو نظریہ شر کا پیروکار بن جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی معاشرے میں شر کا غلبہ ہوا اسے خالق نے اپنے حکم اور ارادے سے دوسرے انسانوں کے ذریعے ختم کیا یا پھر الٰہی قوانین سے روگردانی کرنے والی اقوام پر قہر خداوندی نازل ہوا جس کے آثار آج بھی زمین کے وجود پر نمایاں ہیں۔
قدیم ترین انسانی تاریخ بتلاتی ہے کہ مصری، سومیری، بابلی، یونانی، ہندی اور چینی تہذیبوں میں کسی نہ کسی صورت میں ہم آہنگی کے باوجود فکری اختلاف بھی موجود تھا۔
سبھی تہذیبی ادوار ترقی یافتہ اور علم و ادب کے مراکز تھے۔ فلسفہ، ہیئت، ریاضی اور دیگر علوم کو فروغ دیا گیا۔ علم ہیئت اور مساحت بابلیوں کی دریافت ہے۔ بعد کے ادوار میں ہسپارک اور بطلیموس نے ان ہی بنیادوں پر اپنا نظریہ قائم کیا۔ آبی اور دھوپ کی گھڑی، چاند اور سورج گرہن کی پیش گوئیاں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے علوم بابلیوں کی پہچان بنے۔ بابلیوں کا نظریہ علم اس بات پر استوار تھا کہ جو بھی معلومات حاصل ہوں انہیں مٹی کی سلیٹوں اور کبتوں پر لکھ کر پختہ کیا جائے اور دیگر انسانوں تک ان علوم کو پہنچایا جائے۔ اشور بنی پال نے الواحی لائبریری قائم کی جو ہزاروں سال بعد نینوا کی کھدائی کے دوران منظر عام پر آئی۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja