Episode 27 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 27 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

قرآن کریم میں شہر بابل کا ذکر موجود ہے۔ اسی شہر میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتے اترے جنہوں نے دیگر علوم کے علاوہ لوگوں کو علم سحر بھی سکھلایا۔ قرآنی بیان کی تشریح میں علمأ نے لکھا ہے کہ ان فرشتوں کو علم سحر سکھلانے پر اللہ نے سزاکا حقدار ٹھہرایا۔ پڑھنے والے دوست ضرور سوچیں گے کہ مسئلہ کشمیر کا تاریخ عالم سے کیا رشتہ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات درست بھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب ایک المیے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کی بنیادی وجہ نظریے کا فقدان، ہوس اقتدار، کرپٹ اور پست ذہن اور خودساختہ قیادت اور عوام الناس کا ان پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے۔
اڑوس پڑوس پر نظر ڈالیں تو بنجر بیابان اور جنگ زدہ افغانستان میں امریکی افواج کے علاوہ طالبان اور ایک برائے نام حکومتی نظام بھی ہے مگر اس کے باوجود افغانستان کا ایک عالمی تشخص اور تسلیم شدہ قومی کردار بھی ہے۔

(جاری ہے)

افغانستان ایشیأ کے قلب میں موجود ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف نسلوں، قبیلوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں مگر نہ تو وہاں صوبائیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی فرقہ واریت کا کوئی جھگڑا ہے۔

شیعہ، سنی، وہابی، پارسی، ہندو،سکھ اور یہودی مقامی قبیلوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور ان کی حفاظت ان قبیلوں کی ذمہ داری ہے۔ پشتوکے علاوہ فارسی اور ترکی زبانیں بولنے والوں میں بھی رنجش نہیں۔ افغانستان دنیا کا قدیم ترین میدان جنگ ہے۔ یونانیوں، منگولوں، ترکوں، ایرانیوں، مغلوں، انگریزوں اور روسیوں سے لے کر امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے جدید ترین اور مہلک ترین جنگی ہتھیاروں کا استعمال کیا مگر کوئی مادی قوت نہ تو افغانستان کی ایک انچ زمین پر قابض ہوسکی اور نہ ہی جذبہ حب الوطنی اور جذبہ قومیت ختم کرسکی۔
افغان طالبان ہوں یا شمالی اتحاد والے سیکولر اور سوشلسٹ نظریات کے حامل ازبک، تاجک اور ترکمان، وطنیت اور قومیت کے مسئلے پر سبھی یک زبان اور یکجان ہیں۔
افغان قبائل ساری دنیا سے اسلحہ اور گولہ بارود لیکر باہم لڑتے ہیں اور کابل پر حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں مگر افغانستان کی مٹی پر کسی کو قابض نہیں ہونے دیتے۔
بیرونی حملہ آور بھی شہروں اور بڑے قصبوں تک محدود رہتے ہیں اور کبھی افغانستان کی سرحدوں پر آکر نہیں بیٹھتے جس طرح بھارت کشمیر کی سرحدوں پر ستر سال سے بیٹھا ہے۔
افغان قوم نظریہ وطنیت اور قومیت پر زندہ ہے اور ناقابل تسخیر ہے۔ ایران شیعہ مسلم ریاست ہے۔ سنی، پارسی ، بہائی اوردیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں کی تعدادتیس فیصد ہے مگر کسی بھی مذہب و مسلک کو ماننے والوں کو ایران میں اوّل درجے کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔
سرکاری ملازمتوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حصول علم اورحکومتی اداروں میں معمولی عہدوں تک رسائی بھی ناممکن ہے۔ ایرانی مسلک ایرانی قوم کے اتحاد کی علامت اور روحانی قوت ہے۔ مسلک کے علاوہ قدیم تاریخی ورثہ اور عظمت رفتہ ایرانی قوم کا فخر ہے۔ سارس اوّل جمشید، قیقباد، کیکاوٴس، دارااور یزدجرد شہریار آج بھی ان کے ہیرو ہیں۔ تخت کیان ان کے ماضی کی پہچان ہے۔
ایرانیوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ان کے عقائد و نظریات کی عکاس ہیں۔ پہلوی خاندان کے زوال کے بعد ساری دنیا ایران کے خلاف متحد ہوگئی اور ایران عراق جنگ نے ایرانی معیشت تباہ کردی۔ امریکی پابندیوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی مگر قومی اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی نے ایرانی قوم کو ایسی روحانی قوت فراہم کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایرانی انقلاب نے ساری دنیا کی سوچ بدل دی اور ایران مخالف قوتوں کو ششدر کر دیا۔
بھارت ہمارا تیسرا بڑا پڑوسی اور ازلی دشمن ہے۔ بھارت چانکیائی نظریات کا حامل ایسا ملک ہے جو اپنے نظریے کے زور پر ساری دنیا کو مطیع و فرمانبردار بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی دانشوروں کو پتہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کی سائنسی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد یں کھوکھلی اور نظریات سے عاری ہیں۔
بھارت چانکیائی سیاست اور نظریات کا میٹھا زہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی بنیادوں میں ڈال کر ان کی خوشنودی اور ہمنوائی حاصل کرنے میں انتہائی کامیاب سفارتی، تجارتی، ثقافتی اور تمدنی آپریشن غیر محسوس انداز میں آگے بڑھا رہا ہے۔ اگر بھارت کا آپریشن چانکیہ اسی طرح جاری رہا اور بھارت کے سحر میں مبتلا ممالک اور اقوام نے دھڑا دھڑ بھارت کی جھولی میں گرنا بند نہ کیا تو اگلی دو دہائیوں میں اکھنڈ بھارت کا خواب حقیقت میں بدل جائیگا۔
ایران، چین، اسرائیل اور روس نے آپریشن چانکیہ کی سرسراہٹ محسوس کر لی ہے اور محتاط رویہ اختیار کر لیا ہے۔
چین کے قدیمی تاریخی، تمدنی ،ثقافتی اور روحانی ورثے پر تفصیلاً بات ہوچکی ہے۔ چینی قوم اپنی روایات سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرتی۔ چینی حکمران اپنی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے ہر قدم سوچ کر آگے بڑھاتے ہیں تاکہ پیچھے ہٹنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
صبروتحمل، استقلال اور بردباری چینی قوم اور حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ چینی قوم مستقل مزاج، محنتی اور مدبرانہ سوچ کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی دنیا میں جہاں بھی جائیں وہ بہت جلد خوشحال ہوجاتے ہیں۔ وہ جو بھی کام کریں اسے اوروں کے لئے مثال بنا دیتے ہیں۔ چینی قوم نے اپنے اسلاف لاوٴز ے اور کنفیوشس کے اقوال اور نظریات کو اپنا کر نظریے کی افادیت اور قوت کو دیگر اقوام کے لئے روشن مثال بنا کر پیش کیا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja