Episode 29 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 29 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اس کے برعکس مغربی ممالک کے باشندوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی سعودی یا دیگر عرب ریاستوں کا سرکاری اہلکار کسی گوری رنگت والے غیر ملکی کو تنگ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ عرب دوست نے بتایا کہ عرب ممالک میں یہ سب سختیاں پاکستانیوں کے بعد افغانوں اور بنگالیوں کے لئے ہیں۔ بھارتیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور بعض بنگالیوں کا بھارتی سفارتکار بھی خیال رکھتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ پاکستانی طالب علم جو سعودی عرب میں زیر تعلیم ہیں کی اکثریت دیوبندی مسلک سے ہے۔ یہ طالب علم عربی زبان جاننے کا غلط استعمال کرتے ہیں اور بریلوی مسلک کے ماننے والون کو اکثر مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
عرب دوست نے بتایا کہ مسجد نبوی ﷺیا دیگر مقامات پر اگر کوئی پاکستانی دعا میں مشغول ہو اور آنسو بہا رہا ہو تویہ پاکستانی طالب علم اس کے سامنے کچھ رقم رکھ کر پولیس کو بتاتے ہیں کہ یہ آدمی بھکاری ہے۔

(جاری ہے)

سعودی پولیس یہ نہیں سوچتی کہ یہ شخص خدا کے گھر سے بھیک مانگ رہا ہے کسی سعودی سے نہیں۔ ہر روز ایسے درجنوں پاکستانی اپنے ہی ہم وطنوں کی بدنیتی اور مسلکی بغض کا شکار ہو کر جیلوں میں چلے جاتے ہیں۔
عرب دوست نے دکھ سے بتایا کہ مسلمانوں، خاص کر عربوں نے اسلامی تعلیم اور نبی پاک ﷺکے فرامین کو پس پشت ڈال کر مادیت کا چوغہ پہن لیا ہے۔
اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دو۔ کیا عرب حکمران حضور کے اس فرمان پر عمل کر رہے ہیں ؟؟؟ایسا نہیں۔۔۔ قرآن کریم میں بار بار عدل کا حکم دیا گیا ہے۔ امام غزالی  لکھتے ہیں کہ اگر خدا وندکریم سارا قرآن واپس لے کر صرف لفظ اِعدلو دنیا میں رہنے دے تو تب بھی اس دنیا کا نظام چل سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو کسی بھی مسلمان ملک میں عدل کا نظام ہی نہیں۔
عرب ممالک میں تو عدل اتنا ہی ہے کہ لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کر دو اور بھول جاوٴ۔
وجہ پوچھنے پر بتانے لگے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب مسلمان ممالک میں پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی ذمہ دار پاکستانی غلامانہ ذہنیت کے حامل حکمران ہیں۔ پاکستانی سفارخانے پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی خدمتگاری اور تابعداری کے مراکز ہیں۔
سفارتکار اپنے آقاوٴں کے سہولت کار ہوتے ہیں جو ان کی لوٹی ہوئی دولت کو چھپانے میں مدد گار بنتے ہیں۔ کوئی بھی پاکستانی سفارتخانہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنے لوگوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اگر کسی امریکی، برطانوی، جرمن، ترک یا ایرانی شہری پر کسی دوسرے ملک کی پولیس یا انتظامیہ غلط ہاتھ ڈالے تو نہ صرف اس ملک میں موجود سفارتکار بلکہ ساری قوم سراپا احتجاج بن کر سامنے آجاتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت ہو یا آمریت ۔ حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں کا مزاج ایک جیسا ہی رہتا ہے۔
گفتگو کے دوران عرب دانشور نے بتایا کہ سعودی عرب، ایران، ترکی اور مصر چاہیں تو اُمت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بنیاد ملی اتحاد پر استوار تھی۔ حضورنبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ میری اُمت ایک مضبوط دیوار کی مانند ہے جس کی ہر اینٹ دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔
آج مسلمان حکمران اور بادشاہ یہ سب بھول کر بے دین مادی قوتوں کے سہارے اپنے اقتدار کو بچا رہے ہیں۔
امیر مسلمان حکومتیں مغربی ممالک کے بینک بھرنے کے بجائے اگر فالتو سرمایہ غریب مسلمان ملکوں میں انوسٹ کریں تو دنیا میں کوئی مسلمان غریب اور محتاج نہ رہے۔ مسلم ملکوں میں اللہ نے بہت سے خزانے محفوظ کر رکھے ہیں مگر علم اوروسائل کی کمی کے باعث غریب ملک اور اقوام ان خزانوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلامی خلافت کا دور واپس نہیں آسکتا مگر اتحاد، اخوت و بھائی چارے کا ماحول بن سکتا ہے۔ ماضی میں جمال الدین افغانی، علامہ اقبال، علامہ محمد اسد اور سعودی فرمانروا شاہ فیصل شہید نے کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja