Episode 36 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 36 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

 کلہن کی خوبی ہے کہ جہاں اسے شک گزرا وہ وہاں ہی رک گیا۔ کلہن نے جو واقعات قلمبند نہ کیئے ان پر اس کے شاگرد جونراج نے کام کیا اورسلطان زین العابدین کے دور تک کے حالات قلمبند کیئے۔ جونراج کے بعد اس کے شاگرد سری ور نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور 1486ء تک کے واقعات درج کیئے۔
تاریخ حسن کے مصنف پیر غلام حسن نے پوٹھوہار کی سیاحت کے دوران راولپنڈی کے گاوٴں پنڈوڑی میں مقیم بزرگ شخصیت مُلا محمود سے ملاقات کی اور ان کے کتب خانے سے وقائع کشمیر کا ایک قدیم نسخہ حاصل کیا۔
یہ کتاب رتناکر پران نامی دستاویز کا فارسی ترجمہ ہے۔ اس دستاویز میں اُن 35راجاوٴں اور اُن کے خاندانوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں کلہن نے اپنی تاریخ میں بیان نہیں کیا۔
دیکھا جائے تو کلہن کی راج ترنگنی کا آغاز کشمیر کے پہلے بادشاہ گوند اوّل سے ہوتا ہے جب کشمیر ایک وسیع اور خوشحال ریاست تھی۔

(جاری ہے)

بادشاہوں کے محل، شفاخانے، شاہرائیں، درسگاہیں، قلعے، ہتھیاروں سے لیس فوجیں، چھاوٴنیاں، غلّہ ذخیرہ کرنے کے گودام، شہری نظام چلانے والے سرکاری اہلکار اور ان کے دفاتر، دستکاریاں اور دیگر اشیائے ضروریہ بنانے والے کارخانے، باغ، کھیت اور دیگر عوامی سہولیات موجود تھیں۔

گوند اوّل کو گزرے چھ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس کے دور کی تعمیرات کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
ولّی کاشمیری کے مطابق قوموں کی شناخت تاریخ کی سچائیوں سے ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے تو حادثات کا شکار ہو کر غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ مسلسل غلامانہ زندگی گزارنے والی قومیں اپنے آقاوٴں کے قصیدے پڑھنے کی اس قدر خوگر ہوجاتی ہیں کہ انہیں اپنی تاریخ پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔
ولّی کے مطابق غلامی بذات خود ایک المیہّ ہے جو دیگر المیّوں کا باعث بن کر قوموں کو لطیف جذبات اور احساسات سے محروم کر دیتا ہے۔ ایسی قومیں جو اپنے ماضی سے کٹ جائیں کسی بھی صورت اپنا مستقبل سنوارنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسی قوموں کی فہرست میں پہلے نمبر پر کشمیری، دوسرے نمبر پر افغانی، تیسرے پر پاکستانی اور چوتھے نمبر پر فلسطینی اور دیگر عرب کھڑے ہیں۔
مسلسل المیّوں کا شکار ان اقوام کا سب سے بڑا مسئلہ نظریے اور نصب العین سے انحراف اور قیادت کا فقدان ہے۔ ایک خدا، ایک رسولﷺ، ایک کتاب قرآن حکیم اور ایک دین اسلام پر ایمان رکھنے والی ان اقوام نے دین اور عقیدے کی الگ الگ تشریح کر رکھی ہے۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی اصولوں کو دیکھا جائے تو اسلام کی کہیں جھلک نظر نہیں آتی۔ عدل و انصاف کے فقدان نے معاشرتی برائیوں کو جنم دیا تو بجائے اصلاح کے اسے مزید تنزلی کی طرف لیجایا گیا تاکہ عوام کو خواص کی غلامی میں دیکر انہیں ذہنی پستی میں مبتلا کر دیا جائے۔
کشمیر کے مقابلے میں بہت سی تہذیبوں کی عمریں کم ہیں مگر کئی بار زوال پذیر ہونے کے باوجود یہ قومیں اپنے نظریے اور نصب العین کی قوت پر اپنا وجود منوا کر دنیا کی طاقتور اقوام کی صف میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو کشمیری قوم ہر لحاظ سے اپنا تشخص کھو بیٹھی ہے اور ایک ایسے راستے پر چل نکلی ہے جس کی بظاہر کوئی منزل نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح چلتا رہے گا؟ شاید ایسا نہیں ہوگا۔ گوند اوّل سے پہلے بھی تو کشمیر کا وجودتھا اور یہاں انسان بستے تھے جو یقینا عقل و شعور بھی رکھتے تھے۔ جنوبی کشمیر کے دلدلی علاقوں اور خاردار جنگلوں سے لے کر شمال مشرق اور مغرب کے برف پوش پہاڑوں، جنگلوں، جھیلوں اور دشوارگزار علاقوں میں بسنے والوں،الگ الگ زبانیں بولنے والوں اور مختلف عقیدوں اور روایات کے ماننے والوں کو آخر کار ایک ایسا مرد آہن میسر آگیا جس نے سارے کشمیر کو ایک نظریے کے تحت اکٹھا کیا اور ایک ہی حکم اور قانون کے تابع ایک قوم میں بدل دیا۔
کسی کو پتہ نہیں کہ گوندل اوّل سے پہلے کشمیر کے جغرافیائی اور سیاسی خدوخال کیا تھے۔ دیومالائی قصے کہانیاں اور رسومات پر مبنی جو حوالہ جات ملتے ہیں ان میں نہ تو کشمیر ہے اور نہ ہی کشمیری ہے۔ قوم کو بسنے کے لیے ایک ملک درکار ہوتا ہے جہاں کے بسنے والے اس ملک کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتے ہیں اور پھر اس حدود میں رہتے ہوئے اپنی آزادی اور سلامتی کا تحفظ کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہر شخص ذاتی حیثیت میں یہ فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کرلیں جو ان کی عزت، آزادی، سلامتی اور حقوق کے تحفظ کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ قرآن کریم میں حضرت طالوت، حضرت داوٴد، حضرت سلیمان ،حضرت یوسف اور ذوالقرنین کے واقعات بیان کیئے گے ہیں اور ان کے طرز حکمرانی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
کشمیر میں قبل از مسیح دور میں راجہ ہرن دیو نے رعایا پروری کی کوئی کسرباقی نہ چھوڑی۔ اسی راجہ کے دور میں عدل و انصاف کا محکمہ قائم ہوا۔ راجہ رام دیو نے عدالتیں قائم کیں، زمین کی پیمائش کروائی اور سرکاری عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا۔ راجہ بیاس دیو نے کشمیر میں سرکاری سطح پر تعلیم کا محکمہ قائم کیا۔ سارے ملک میں پاٹ شا لائیں تعمیر کروائیں اور معلمین کی تنخواہیں اور ذہین طلباء کے لئے وظائف کا نظام قائم کیا۔
راجہ بلدیو کے دور میں تاریخ نویسی کا آغاز ہوا۔ اسی راجہ کے دور میں غیر ملکی سیاحوں، کاریگروں، دستکاروں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور قصہ گووٴں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ راجہ بیکھن کی رانی چکرا دیوی نے کشمیر کے ثقافتی ورثے کو جمع کیا۔ چکرا دیوی نے موسیقاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ملک بھر میں میلوں اور مذہبی تہواروں کا رواج عام کیا۔کشمیر کے عظیم حکمرانوں للتہ دتہ اور اونتی ورمن سے کون واقف نہیں۔ اسلامی دور میں سلطان زین العابدین بڈشاہ اور سلطان شہاب الدین نے جو کارنامے سرانجام دیئے دنیا آج بھی ان کی معترف ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja