Episode 38 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 38 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

                              المیہ کیا ہے؟

واقعات حادثات کو جنم دیتے ہیں اور حادثات اور واقعات کا تسلسل آخر کار المیہ بن جاتا ہے۔ واقعات اور حادثات کی روک تھام کسی حد تک ممکن ہے اور انسان عقلی تدابیر اور میّسر مواد کو بروئے کار لا کر واقعات کا سدباب کرنے اور حادثات کی شدت کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
معاشرے اور ریاست میں اجتماعی کوششوں کے علاوہ اخلاقی اقدار اور قوانین بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں جن کی قوت سے واقعات اور حادثات کا کسی حد تک خاتمہ بھی ممکن ہے۔ یہ وہ واقعات اور حادثات ہیں جو غیر ارادی یا پھر ارادی طورپر رونما ہوتے ہیں جس کا موجب کوئی فرد واحد یا پھر کچھ افراد پر مشتمل گروہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

انسانی معاشروں میں ایسے واقعات اور حادثات کا رونما ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔

البتہ یہ بات حیرت ناک ہوسکتی ہے کہ انسانی معاشرہ ان حادثات اور واقعات پر آنکھ بند کر لے اور ریاستی سطح پر ان کے تدارک کے لئے قانون نہ بنائے جائیں اور آخر کار ساری ریاست اور معاشرے کو کسی ایسے المیے سے دوچار کر دیا جائے جس کا تدارک ممکن ہی نہ ہو۔
قوموں کے زوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بنیادی وجوہات نظریے اور نصب العین سے انحراف اور واقعات اور حادثات سے چشم پوشی ہی سامنے آتی ہیں۔
جیسا کہ پہلے مختصراً عرض کیا ہے کہ ہمیں ہر عمل و فعل میں خالق کائنات اور اس کی تخلیق کے عمل کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ہماری ذاتی، معاشرتی، ریاستی،اخلاقی اور اجتماعی سمت درست رہے۔ بصورت دیگر انسان بنیادی نظریے اور نصب العین سے بھٹک کر ایسے واقعات کا موجب بن جاتا ہے جو اولاً حادثات کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور آخر کار ایک ایسے المیے میں بدل جاتے ہیں جس کا تدارک ناممکن ہوجاتا ہے۔
آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو مجبوراًہم ایک ایسے عالمی معاشرے کا حصہ ہیں جس کی بنیاد جبر، حسد، عدم مساوات، ناانصافی، تکبر، بغض، ظلم اور استحصال پر رکھی گئی ہے۔اس نظام کا مقصد معاشی، اخلاقی، نظریاتی اور علمی لحاظ سے کمزور معاشروں، اقوام اور ریاستوں کو ایک ایسے نظام کے تحت تہی دست اور غلام بنانا ہے تاکہ وہ میکاولین اور چانکیائی نظریات کی حامل اقوام اور ممالک کی برتر حیثیت کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت سمجھیں اور اپنی عزت، غیرت اور آزادی کے بدلے میں برتر اقوام اور ممالک کے سامنے سرنگوں ہونے پر فخر کریں۔
معاشی، صنعتی، تہذیبی ، سیاسی اور علمی لحاظ سے آج کی دنیا تین حصّوں میں تقسیم ہے۔ جن اقوام اور ممالک نے سائنسی علوم پر دسترس حاصل کی وہاں صنعتی ترقی ہوئی جس کی بدولت ان اقوام اور ممالک کی پالیسیوں نے ایک عالمی سیاسی نظام وضع کیا اور ایک نئی اور جدید تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اس نئی اور جدید تہذیب کا اوّلین مسکن یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک بنے جہاں دینی اور روحانی تعلیمات کا فروغ کمزور ہوا یا پھر ریاستی جبر کی وجہ سے معلمین اور مبلغین پر قدغن لگا دی گئی۔
سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں مارکسزم اور لینن ازم کو معاشی اور سیاسی مذہب جیسی حیثیت حاصل ہوئی تودینی تعلیمات پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ۔ دیگر مذاہب جن میں عیسائیت اور یہودیت شامل ہے پر بھی کسی حد تک کنٹرول کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ چین کا رہا مگر چینی کسی نہ کسی صورت تاوٴ ازم، کنفیوشزم اور بدھ مت سے جڑے رہے۔ چین کے مسلم آبادی والے صوبوں میں قدیم اسلامی روایات اور تہواروں پر عمل ہوتا رہا مگر تبلیغ،تشریحات اور اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔
بعد کے دور میں چینی حکومت نے مسلمانوں کو تجارت کی غرض سے پاکستان جانے اور پھر خصوصی پرمٹ پر فریضہ حج کی بھی اجازت دی ۔چینی حکومت کے اس فیصلے نے چین ، پاکستان اور سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ ہموار کی۔ 
جدید مغربی تہذیب سوویت یونین، چین اور دیگر سوشلسٹ نظریات کے حامل ممالک پر غلبہ تو نہ پاسکی مگر کسی حد متاثر ضرور کرنے لگی۔
چینی سوشلزم کئی پہلووٴں سے سوویت مارکسزم سے مختلف رہا۔ چینی سوشلزم پر قدیم چینی تہذیب اور تاوٴ ازم کا اثر ختم نہ ہوا اور بدھ ازم سے بھی چینی عوام جڑے رہے۔ چینی سوشلزم نے ماوٴازم کی صورت اختیار کی اور چینی اور سوویت نظریات میں بڑی خلیج پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے چینی مشرقی یورپین اور وسطی ایشیائی مسلم ممالک کی طرح سوویت باجگزاری سے دور 
رہ کر اپنی قدیم روایتی اور تاریخی تہذیبی ورثے کے امین ثابت ہوئے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja