Episode 42 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 42 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج جمعیت دیوبند کا وہ ٹولہ کسی نہ کسی صورت پاکستان میں اقتدار پر قابض ہے جنہوں نے کانگرس کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کو آزاد وطن میں جینے کے حق سے محروم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ علماء اور دانشور جنہوں نے تخلیق پاکستان کو گناہ قرار دیا آج ان ہی کی اولادیں جمہوریت کی آڑ میں پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے وجود کے ان خاموش دشمنوں کو اب مادر پدر آزاد میڈیا کی صورت میں ایک عالمگیر زبان اور غیر ملکی سرمایہ سے چلنے والے غیرسرکاری اداروں کی صورت میں حمایت اور پہچان مل گئی ہے جس کا بظاہر کوئی سدباب نظر نہیں آرہا ہے۔
وہ ادارے جنہیں نظریہ پاکستان کا محافظ خیال کیا جاتا تھا آج نظریہ ضرورت کا شکار ہو کر جمہوریت کی آڑ میں وطن فروشی کا کاروبار کرنے والوں کے آگے سجدہ ریز نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان اداروں کے سربراہوں اور بڑے عہدیداروں کے سامنے ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے بڑے کاروباری اداروں میں کروڑوں روپوں کی نوکریاں، مفت شاہانہ رہائشی سہولیات، عظیم الشان محل نما کوٹھیاں، بیرون ملک دوروں کی صورت میں عیاشیاں،بچوں کے بچوں کے لئے گارنٹی شدہ شاہانہ مستقبل سونے کا پہاڑ بن کر کھڑا ہے جس کی پشت پر قائداعظم  اور اقبال کا پاکستان ہے جس کی بنیادیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔
آج نظریہ پاکستان کے محافظوں کی آنکھوں پر جمہوری مراعات کی پٹی باندھ کر انہیں بے خبر رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے تاکہ جمہوریت کی آڑ میں پاکستان کا سودا یقینی ہو سکے۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ گھرانوں کے پاکستانی نوجوان وطن بیزار کیوں ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاکستان میں سرمائے کے ڈھیر ہیں، ان کے باپ دادا، جج، جرنیل، اعلیٰ کاروباری شخصیات، وزیر، مشیر، جاگیردار، پاکستانی سیاست کے بڑے کردار اور مراعات یافتہ لوگ ہیں یا پھر رہے ہیں مگر انہیں نہ وطن سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عام پاکستانیوں کے لئے ان کے دل میں ہمدردی ہے۔
بڑے بڑے اداروں، کارپوریشنوں اور صوابدیدی عہدوں پر یہی لوگ فائز ہیں مگر پھر بھی شکوہ کناں ہیں کہ پاکستان میں کیا ہے؟ کیا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تم لوگ پاکستان میں کیوں ہو؟ ظاہر ہے کہ جب اسفندیار ولی، محمود اچکزئی اور مولوی فضل الرحمن جیسے سیاستدان اور پاکستان کے وجود سے فائدہ اٹھانے والے حکمران پاکستان کی مخالفت کریں گے اور الطاف حسین جیسے لوگ پاکستان کو گالیاں دینگے تو اس کا کچھ اثر تو ان جیسے ذہنوں پر بھی ہوگا۔
یہ سوال نہیں بلکہ المیہ ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ۔جس ملک کے وجود پر پلنے والے لوگ اس کی سالمیت کا سودا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں وہ دوسروں کی سالمیت اور آزادی کا کیسے تحفظ کریں گے۔ دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کی اب کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ گلگت اوربلتستان مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوچکا ہے اور نئی نسل کشمیر کا نام سننے کو ہی تیار نہیں بلکہ شدید نفرت کرتی ہے۔
نفرت کے یہ بیج پاکستانی اشرافیہ، غیر سرکاری اداروں، مسلکی قائدین اور حکومت پاکستان نے خود بیجے جو اب پھلدار درخت بن چکے ہیں۔
آزاد کشمیر کے صحافیوں کا مخصوص ٹولہ غازی ملت سردار محمد ابراہیم اور مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم کی ایک دوسرے پر برتری کے قصے لکھتا رہا یا پھر من گھڑت قصے کہانیوں پر مبنی قصیدہ گوئی کرتا رہا۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر چپڑکھولا تو پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے قبائلی جتھوں کی طرح آزاد کشمیر پر سیاسی اور گروہی یلغار کردی اور آزادکشمیر کے عوام کو قبیلوں، برادریوں، علاقوں اور مسلکی خانوں میں تقسیم کردیا۔ پست ذہن اور انسانیت کے درجے سے گرے ہوئے بدکردار لوگ سیاستدان بن گئے اور ریاستی وسائل لوٹ کر اعلیٰ اشرافیہ کا روپ دھار لیا۔
ریاستی سیاسی جماعتیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور لبریشن لیگ بھی اپنا سیاسی، اخلاقی اور عوامی کردار چھوڑ کر اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں کی صف میں شامل ہوگئیں تو کے ایچ خورشید اور سردار ابراہیم جیسے لوگ عزت بچا کر گوشہ نشین ہوگئے۔ مجاہد اوّل نے سیاست سے نظریے اور فکر کو الگ کردیااور سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہو کر میچ فکسنگ کا کاروبار شروع کردیا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja