Episode 45 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 45 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

سوال تھا کہ المیہّ کیا ہے؟؟؟؟

کشمیر کا المیہ یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کی تقدیر چانکیائی بھارت اور اسلامی پاکستان سے منسلک ہے جس سے علیحدگی اب کشمیریوں کے بس میں نہیں۔ وادی کشمیر کے عوام آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہیں آزاد کشمیر اور پاکستان سے وہ اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور مالی مدد نہیں مل رہی جس کے وہ حقدار ہیں۔
جموں اور پونچھ کے عوام کو نفسیاتی، روحانی اور سیاسی لحاظ سے کشمیر سے الگ کر دیا گیا جس کی ابتدأ بھٹو اور ضیأ الحق نے کی اور زرداری اور نواز شریف نے اسے عملی جامہ پہنایا۔
پاکستانی مفاداتی اور کرپٹ سیاسی سوچ کا دائرہ اختیار آزاد کشمیر تک پھیلا کر عام آدمی کی سیاست کا خاتمہ کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

بدکرداری، غنڈہ گردی، چوربازاری اور لاقانونیت کا سرکاری سطح پر آزاد کشمیر کے عوام پر اطلاق ہوا تو عام آدمی اپنی پہچان ہی کھو بیٹھا۔

آزاد کشمیر میں تھانے،پٹوار خانے، کچہری اور عدالت سے لے کر مسجد، مدرسے، یونیورسٹی، کالج اور بس کے اڈے پر پوچھا جاتا ہے کہ تم کس برادری سے ہو۔ آزاد کشمیر میں نوکری ، انصاف، تعلیم اور علاج سے لے کر بس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے غنڈے،بدمعاش اور مافیا کے کسی طاقتور ممبر سے تعلق ضروری ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس ریاست میں عام آدمی کی حیثیت نچلے درجے کے حیوان سے بدتر ہو وہاں غلامی اور آزادی بے معنی ہوجاتی ہے۔
لارڈ نذیر سے انٹرویو کے دوران سلیم صافی نے پوچھا کہ آزاد کشمیر کے عوام کو تمام تر سہولیات پاکستان فراہم کرتا ہے تو پھر آزادکشمیر کے لوگوں کو پاکستان کا حصہ بننے اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بن جانے پر کیا اعتراض ہے۔ لارڈ نذیر نے خوشامدانہ سیاسی جواب دے کر سلیم صافی کو تو خوش کردیا مگر آزادی پسند کشمیر یوں کو مایوس کیا۔
لارڈ نذیر کو شاید پتہ نہیں کہ سلیم صافی خود کو افغان پاکستانی کہتا ہے اور اسے پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں۔اس کا آئیڈیل پاکستان دشمن حامد کرزئی اور اُس کے بھارتی غم خوار ہیں۔
لارڈ نذیر کو سلیم صافی سے پوچھنا چاہئیے تھا کہ تقریباً ایک کروڑ افغانی پاکستان میں رہتے ہیں اور باقی امریکہ کا دیا ہوا کھاتے ہیں۔
افغانستان پاکستان کا حصہ کیوں نہیں بن جاتا یا پھر افغانستان کو امریکی ریاست تسلیم کیوں نہیں کر لیتے۔
موجودہ دور میں آزاد کشمیر کے متعلق ایسے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں جو بھارت اور بھارت نواز ممالک کی خواہشات کے آئینہ دارہیں۔ سلیم صافی کا سوال، ٹن اور بلیک لیبل خود ساختہ قائدین کی عیاریاں اور سنجیدہ طبقے کی بے بسی اور مجبوریاں کسی حادثے کی نشاندہی کرتے ہیں جو مستقبل قریب میں کسی بڑے المیے میں بدل سکتا ہے۔
آزاد کشمیر کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ آج ساری ریاست میں کوئی بھی ایسا عام آدمی نہیں جو عام لوگوں کی آواز بن کر عوام کی نمائندگی کر سکے۔ عوام برادریوں، قبیلوں اور مسالک کی سیاست میں الجھ کر بے حسی اور غلامی کی زندگی جینے پر فخر کر تے ہیں اور مستقبل کی سوچ سے عاری ہیں۔ ان قبیلوں اور برادریوں کے سر غنہ جو لیڈر کہلاتے ہیں زرداری اور نواز شریف کے نظریہ کرپشن، لاقانونیت اور اخلاقی گراوٹ کے مقلّدہیں۔
کشمیر اور کشمیریوں کا مستقبل ایک آقا سے دوسرے آقا کے ہاتھ غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ حالات حادثات کی نشاندہی کر رہے ہیں اور عوام المیے کوخوشحالی اور خوش قسمتی سمجھ کر قبول کرنے لے لئے تیار ہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja